لاہور – چند روز قبل لاہور کے علاقے کاہنہ میں ایک ماں اور اس کے تین بچوں کو گولیاں مار کر قتل کرنے کا واقعہ پیش آیا۔ پولیس نے کیس کی تحقیقات میں مقتولہ کے اٹھارہ سالہ علی زین کو ملزم قرار دیا ہے۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور نے پیر کو میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ موبائل گیم پب جی کھیلنے کا عادی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے گھر میں موجود پسٹل سے ماں، بہنوں اور بھائی کو قتل کیا
اہم بات یہ ہے کہ علی نے اعتراف کیا کہ ”پب جی گیم میں بار بار شکست کی وجہ سے اس کے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا اور اس نے یہ سوچ کر گولیاں چلائیں کہ گیم کی طرح سب دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔“
اگرچہ اس ضمن میں پیش آنے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ پر تشدد گیمز کی لت کی مبتلا بچوں کی طرف سے قتل اور ان کی خودکشی اور ہلاکتوں کے کئی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں
لیکن حالیہ خوفناک واقعے کے بعد پر تشدد گیمنگ کے نفسیاتی اثرات پر پہلے سے زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ بات کی جا رہی ہے
اس حوالے سے ماہر نفسیات اور ہر قسم کی لت سے نجات کے لیے ‘برج’ نامی ری ہیب سینٹر چلانے والے ڈاکٹر ابو الحسن کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ گیمنگ دراصل ’انٹرنیٹ ایڈیکشن ڈس آرڈر‘ کے زمرے میں آتی ہے اور یہ باقاعدہ ایک ذہنی بیماری ہے
انہوں نے بتایا کہ اس ڈس آرڈر کے ساتھ ان کے پاس پانچ اقسام کے مریض آتے ہیں۔ سائبر سیکس، نیٹ گیمبلنگ، سائبر آن لائن تعلقات، زبردستی معلومات کی تلاش (compulsive information seeking)، اور آن لائن گیمنگ
ڈاکٹر ابوالحسن کے مطابق ”جب آپ گیم کھیل رہے ہوتے ہیں اور اس میں آپ جیتتے یا ہارتے ہیں۔ دونوں صورتحال میں آپ کے دماغ کو وہی کیفیت یا مزہ ملتا ہے، جو منشیات کے استعمال سے ملتا ہے اور یہ تھوڑا تھوڑا کر کے بڑھتا رہتا ہے۔“
وہ کہتے ہیں ”ہمارے دماغ میں اللہ نے ایک صلاحیت رکھی ہے، جسے نیورو پلاسٹیسٹی کہتے ہیں۔ اس کی مدد سے آپ اپنے دماغ کو مثبت یا منفی جس طرف لے کر جانا چاہیں گے یہ چلا جائے گا“
ڈاکٹر ابوالحسن نے علی زین کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”گیم کھیلنے کے دوران بچے گیم کے کرداروں کو مارتے ہیں، زیادہ سے زیادہ اسکور بناتے ہیں جس سے ان کے اندر ایک منفی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کا انہیں مزہ آتا ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک گیم زیادہ عرصے تک کھیلا جائے تو کھیلنے والا اس میں گم ہو جاتا ہے
کیا اس مسئلے کا حل تشدد سے بھری گیمز پر پابندی ہے؟
ایک خاتون ماریہ محمود پابندی سے اتفاق کرتی ہیں، ان کا کہنا ہے ”میرے خیال میں ہمارے ہاں بچوں کے لیے دستیاب مواد پر والدین کی نگرانی کا فقدان ہے۔ بہت چھوٹی عمر میں ان کے سامنے بہت سا مواد آرہا ہے اور اس میں زیادہ تر مواد نامنساب ہے۔ بطور والدین ہمیں اس پر سخت کنٹرول رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ آن لائن کیا دیکھتے ہیں یا کیا کھیلتے ہیں۔“
ماریہ نے اپنے گھر کی مثال دیتے ہوئے کہا ”پوری دنیا فورٹ نائٹ کھیل رہی ہے، لیکن میں نے اب تک اپنے گھر میں اس کی اجازت نہیں دی۔“
ایک اور خاتون فاطمہ اطہر کے خیال میں پب جی گیم پر پابندی لگانے سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں میں ذہنی صحت کے بارے میں شعور بیدار کریں اور ذہنی صحت کے لیے ماہرین کی مدد کو مزید قابلِ رسائی بنائیں
کیا اس کے ذمہ دار والدین ہیں؟
ڈاکٹر ابوالحسن اس میں والدین کے کردار کو بہت اہم سمجھتے ہیں
وہ کہتے ہیں ”والدین یا باقی گھر والے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے گیمز خرید کر دیتے ہیں، انہیں انٹرنیٹ مہیا کرتے ہیں اور باقی گیمنگ کے لوازمات بھی فراہم کر دیتے ہیں۔“
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایک ایسا ہی بچہ علاج کے لیے لایا گیا، جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا
ڈاکٹر ابوالحسن نے مزید بتایا کہ مذکورہ بچے کے والدین نے گیمنگ کے لیے تمام سہولیات فراہم کر دیں، جس کی وجہ سے وہ اس کی لت کا شکار ہو گیا اور اس نے کھانا پینا، سونا سب چھوڑ دیا
”وہ بچہ میرے پاس لایا گیا، ہم نے اس کا علاج کیا اور وہ کافی حد تک بہتر ہو گیا۔ تاہم وہ بعد میں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔“
انہوں نے مشورہ دیا کہ والدین گیمنگ کی لت میں مبتلا اپنے بچوں کو کسی ری ہیب سینٹر لے کر جائیں، کیونکہ اگر اسے گھر میں رکھ کر پابندیاں عائد کی گئیں، تو وہ ردعمل میں کسی کا نقصان کر سکتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں اسکولوں اور کالجوں میں یورپ، امریکا اور دیگر ممالک کی طرح کم عمر بچوں کی کونسلنگ کی روایت نہیں ہے، اس لیے ہمارے ہاں یہ مسئلہ زیادہ سامنے آتا ہے.