مکران – پاکستان میں کھجور کی کاشت کے حوالے سے کئی علاقے اپنی پہچان رکھتے ہیں، انہی میں بلوچستان کے اضلاع کیچ اور پنجگور بھی شامل ہیں
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں استعمال ہونے والی کھجور کی چالیس فیصد سے زائد پیداوار بلوچستان کے ضلع کیچ اور پنجگور میں ہوتی ہے
اس وقت تربت، کیچ میں کل چوبیس ہزار دو سو کے قریب ہیکٹر رقبے پر ڈیڑھ لاکھ ٹن کے قریب کھجور کی پیداوار ہوتی ہے
پاکستان میں کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے مکران ڈویژن کے ضلع پنجگور اور تربت، کیچ کا نام سر فہرست ہے
مجموعی طور پر پاکستان میں اس وقت ایک سو چھ اقسام کی کھجور کاشت کی جاتی ہے، لیکن مارکیٹ میں مشہور اور زیادہ استعمال ہونے والی اقسام چند ایک ہی ہیں
بلوچی زبان میں کھجور کے درخت کو ’مچھ‘ اور سال کے مئی کے مہینے سے شروع ہوکر ستمبر تک ختم ہوجانے والے کجھور کے سیزن کو ’ہامین‘ کہا جاتا ہے
جبکہ کھجور کے سیزن ختم ہونے کے آخری مہینے کو کسان اور علاقے کے لوگ ’ہیرت‘ کہتے ہیں، اور اس کے پھل کو مختلف علاقوں میں مختلف نام دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ تربت میں اسے ’ ناہ‘ جبکہ پنجگور میں اسے ’ہورماگ‘ کہا جاتا ہے
جبکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کے لوگ اسے ہورماگ کے نام سے ہی پکارتے ہیں
کھجور کی چند مشہور اقسام میں بیگم جنگی، موزاتی، ایلینی، شکری، گوک ناہ، پشپاک، جدگالی، پیژناہ، کُنگو، حُسینی، کُروچ، سبزو، آبدندان، کُنزنباد، گونزلی، ڈنڈاری، دشتاری سمیت کئی دیگر اقسام شامل ہیں
یہاں ایک عرصہ پہلے تک بڑے بڑے لوگوں کا گزر بسر اور ذریعے معاش کجھور کی کاشت کاری کے ذریعے ہی ہوتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سہولیات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ کاریزات میں پانی کی کمی کے باعث بھی کھجور کی کاشت کاری پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں
اس کی ایک وجہ کاشت کاروں میں کھجور کی کاشت سے متعلق سائنسی آگاہی نہ ہونا بھی بتائی جاتی ہے
ان علاقوں میں کھجور کو آج بھی ثقافتی اعتبار سے انتہائی اہمیت حاصل ہے اور اسے ایک معتبر اور انمول نذرانہ سمھجا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کیچ کے لوگ خلیجی ممالک، کراچی اور گوادر سمیت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کے لیے خصوصی طور پر تیار کر کے ماہِ صیام کے لیے بھیجتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی کھجور کی سب سے زیادہ طلب اسی مہینے میں ہوتی ہے
اس حوالے سے مکران کی کھجور کو عالمی سطح پر متعارف کروانے والی شخصیت مقبول عالم کا کہنا ہے کہ ’مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری کھجور کو عالمی سطح تک پزیرائی نہیں مل سکی، جیسا کہ کراچی اور کوئٹہ میں منڈی ہے، وہاں زمیندار اپنے پھل کی بولی لگاتے ہیں، لیکن تربت میں اس طرح کی کوئی منڈی نہیں ہے۔‘
مقبول عالم کہتے ہیں ’غریب کسان بس اس انتظار میں ہوتا ہے کب کراچی یا کوئٹہ سے کوئی خریدار آجائے اور ہم اپنے مال کو بیچ کر اپنا کچھ قرضہ اُتار سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ باہر سے آنے والے سیٹھ تیار پھل کو اونے پونے داموں خرید لیتے ہیں اور مقامی کسان کراچی یا کوئٹہ تک اپنے مال کو نہیں بیچ سکتا
مقبول عالم کا کہنا تھا کہ کاشت کاروں کو اس بارے علم نہیں ہے اس کو سائینٹفک انداز میں کاشت کرنے کے کئی طریقے ہیں، مگر ہمارے کسان وہی پرانے طریقے استعمال کر رہے ہیں
مقبول عالم کے مطابق ’موزاتی‘ قسم کی کھجور عالمی سطح تک مشہور ہے اور اس کی زیادہ پیداوار بلوچستان مکران میں ہوتی ہے، مگر ایران نے موزاتی کو اپنے نام سے رجسٹرڈ کروایا ہے، جس کے باعث اس کی رائلٹی ایران کو مل رہی ہے
ان کا کہنا ہے کہ کیچ، تربت میں اس وقت صرف ایک کولڈ اسٹوریج ہے۔ جس کی کیپسٹی ایک ہزار ٹن ہے۔ جبکہ کیچ میں کھجور کی پیدوار ایک لاکھ چالیس ہزار ٹن ہے، اس طرح پیداوار کے حساب سے اس وقت مزید کئی علاقوں میں کولڈ سٹوریج کی ضرورت ہے
اس علاقے کی ایک مقبول نوع ”بیگم جنگی“ کھجور فروخت کرنے والے دکاندار کا کہنا ہے کہ ”ہم بیگم جنگی، کو مختلف طریقوں سے بناتے ہیں۔ جیسا کہ تل کے بیج کے ساتھ مکس کر کے بنایا جاتا ہے، جسے ہم ”کنچتی ناہ“ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اسے شیرازے کے ساتھ مکس کر کے ڈبوں کے اندر تیار کرتے ہیں جسے ہم بلوچی میں ”شیرگی ناہ“ کہتے ہیں۔“