کیا وزير اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے والی ہے؟

نیوز ڈیسک

لاہور – پاکستان کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اچانک برف پگھلنا اتفاق ہے یا ایک سیاسی چال؟ اس بات کا اندازہ تو اگلے چند دنوں میں ہو ہی جائے گا

تاہم ہفتے کو لاہور میں ہونے والی شریف فیملی اور زرداری خاندان کی ملاقات بہرحال اپنی جگہ نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے بدترین سیاسی حریف رہے ہیں اور اب بھی اس مخالفت کی جھلکیاں کبھی کبھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ اسی طرح اس سیاسی اتار چڑھاؤ میں قربت کے لمحات بھی آتے رہتے ہیں

جب گذشتہ روز رات گئے مسلم لیگ ن کی جانب سے میڈیا کو بتایا گیا کہ شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ہفتے کی دوپہر گھر میں کھانے پر مدعو کیا ہے اور مریم نواز بھی مہمانوں کا استقبال کریں گی تو سب کے لیے یہ بڑی خبر تھی

کھانے کی دعوت اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ پر رکھی گئی تھی اور وقت ڈیڑھ بجے کا رکھا گیا تھا

مریم نواز دو بجے پہنچی تو اڑھائی بجے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی پہنچ گئے۔ تاہم اس وقت دو اہم چیزیں ہوئیں ایک تو آصف علی زرداری اپنا پرہیزی کھانا اور سندھ پولیس کے کمانڈوز سکیورٹی گارڈ اپنے ساتھ ہی لے کر آئے

لیکن گارڈ بھی باہر ہی رہے اور کھانا چھوٹے دروازے سے اندر پہنچا دیا گیا۔ جس سے ایک بات تو بہرحال واضح تھی کہ یہ ظہرانے کی دعوت اور کھانا دراصل صرف ملاقات کا بہانہ ہی ہے، ”زندہ رہنے کے لیے تیری قسم، اک ملاقات ضروری ہے صنم“

اس حوالے سے ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اپنی سیاسی تاریخ میں آصف علی زرداری پہلی مرتبہ چل کر شہباز شریف کے گھر آئے ہیں، البتہ بلاول بھٹو زرداری دو مرتبہ آ چکے ہیں۔
جیسے ہی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی گاڑی گھر کے اندر پہنچی، شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز ان کے استقبال کے لیے گھر کے صحن میں ہی کھڑے تھے

کورونا کے ایس او پیز پر مکمل عمل کیا جا رہا تھا۔ شہباز شریف اور زرداری نے ایک دوسرے سے کہنیاں ملا کر خیرسگالی کا اظہار کیا تو بلاول اور حمزہ نے ہتھیلیوں کے مکوں سے ایک دوسرے سے گرم جوشی کا اظہار کیا

گھر کے ڈرائنگ روم میں ملاقات شروع ہوئی تو میڈیا کو جو فوٹیج جاری کی گئی اس میں مسلم لیگ ن کی طرف سے شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق اور مریم اورنگ زیب نظر آرہے ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی کے پنجاب کے جنرل سیکریٹری حسن مرتضیٰ دکھائی دیے

لیکن یہ صرف ہاتھی کے دکھانے کے دانت تھے، اور یہ بندوبست صرف فوٹیج بنانے تک ہی محدود رہا۔ پندرہ منٹ تک ایک دوسرے سے خیر سگالی کے اظہار اور موجودہ سیاسی صورت حال پر ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد کھانے کے دانت یا ’اصل ملاقات‘ کا آغاز ہوا

شریف خاندان کے ایک معتبر ذریعے کا کہنا ہے کہ ’یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ ملاقات میں صرف پانچ لوگ ہوں گے اور اسی حوالے سے ہی تمام انتظامات کیے گئے تھے۔ ابتدائی ملاقات کے بعد کھانا پیش کیا گیا اور اس کے بعد پھر دوسری اور اہم ملاقات شروع ہوئی۔‘

دو خاندانوں کے بیچ یہ ملاقات کوئی گھنٹہ بھر جاری رہی، جس میں صرف شہباز شریف، آصف علی زرداری، مریم نواز، بلاول بھٹو اور حمزہ شہباز تھے

دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملاقات اچانک نہیں تھی، بلکہ سب کچھ پہلے سے طے تھا۔ اور ایسا کہنے کے لیے ان کے پاس ٹھوس وجہ ہے اور وہ یہ کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی لاہور آمد سے متعلق پیپلز پارٹی نے جمعے کے روز میڈیا کو آگاہ کیا لیکن وہ اس سے بھی ایک دن پہلے سے لاہور پہنچ چکے تھے۔
ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد میڈیا کو بھی اندر بلا لیا گیا۔ تاہم دو طاقت ور سیاسی خاندانوں کے درمیان حقیقی گفتگو کیا ہوئی، اس کا تو نہیں بتایا گیا، البتہ شہباز شریف کے پریس کانفرنس کے دوران ایک جملے سے بہت سی چیزیں اخذ کی جا سکتی ہیں

انہوں نے کہا ’اس ملاقات میں جو بھی فیصلہ ہوا ہے اس سے میں متفق ہوں۔ اب اس فیصلے کو میں پارٹی قائد نواز شریف، پارٹی کی سی ای سی اور پی ڈی ایم کے پاس لے کر جاؤں گا اور پھر میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔‘

سیاسی پنڈت یہی سمجھتے ہیں کہ اب معاملہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی طرف سے تیزی سے بڑھ رہا ہے

ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کا معاملہ چند دن میں ن لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی سے مشاورت کے بعد پی ڈی ایم میں لے کر جائیں گے

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہ ’عوام کا اعتماد اٹھ چکا، اب پارلیمان کا اعتماد بھی اٹھنا چاہیے۔ عمران خان کو ہٹانے کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بچانا ہے اور عمران خان کا نکالنا ہے۔ عوام کو اس وقت جو چاہیے وہ یہی ہے

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس بعد پہلی باقاعدہ ملاقات ہے

انہوں نے کہا ’اس حکومت کو ہٹانے کے لیے جو پارلیمانی، آئینی اور جمہوری طریقہ ہے وہ احتجاج کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کا عمل ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد پر اتفاق رائے پیدا کر رہے ہیں اور آگے جا کر مزید پیدا کر سکتے ہیں

پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے بار بار مریم نواز سے یہ پوچھا کہ کیا اب بھی وہ بلاول کو سیلیکٹڈ سمجھتی ہیں؟ تو شہباز شریف نے مسکراتے ہوئے کہا آپ لوگ بے فکر رہیں، اب میں درمیان میں کھڑا ہوں

دوسری جانب تجزیہ کاروں میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مختلف رائے پائی جاتی ہے، بعض کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر اتفاق ہوا ہے جب کہ بعض سمجھتے ہیں یہ ملاقات صرف موجودہ سیاسی صورتحال میں اپوزیشن میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش ہے

پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت کے درمیان ملاقات میں موجود پیپلز پارٹی پنجاب کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ ہماری قیادت اور ن لیگی قیادت میں یہ اتفاق ہوا ہے کہ پہلے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی

لیکن ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ تحریک عدم اعتماد کب پیش کی جائے گی، جو پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے الگ لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیاہے وہ ایک ہی تاریخ کو کیا جائے

حسن مرتضیٰ نے کہا کہ حکومت مخالف فیصلہ کن حکمت عملی پر دونوں طرف سے جن تجاویز پر غور کیا گیا ہے، ان پر اپوزیشن لیڈر نے پی ڈی ایم قیادت کو اعتماد میں لے کر اعلان کرنے کی درخواست کی ہے

تجزیہ کار مزمل سہروردی کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کی قیادت میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق ہوچکا ہے، تاہم اراکین کی حمایت طریقہ کار اور پیش کرنے کے وقت پر غور جاری ہے

انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کی شہباز شریف کے گھر پہلی بار آمد معمولی سیاسی پیش رفت نہیں ہے

سابق نگران وزیر اعلی پنجاب تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب کی شہباز شریف کے گھر آمد دوبارہ اتحاد کا راستہ ہموار کرنے کے لیے موثر ہوسکتی ہے

انہوں نے کہا کہ ابھی تحریک عدم اعتماد لانے کا جواز نہیں لگتا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کی پارلیمان میں جو صورتحال ہے جس طرح بل پاس ہو رہے ہیں، اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی یا اپوزیشن کو زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہے، تو ایسی صورتحال میں میرا نہیں خیال کہ اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد لانے کی پوزیشن میں ہیں

حسن عسکری کے بقول پہلے اپوزیشن جماعتوں کو لانگ مارچ کی تاریخ ایک کرنی چاہیے، پھر حکومت مخالف اتحاد ظاہر کرنے کی ضرورت ہے

مزمل سہروردی نے کہا کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد لانے پر اس لیے متفق لگتی ہیں کہ یہ مناسب وقت ہے، جب حکومت مہنگائی اور دیگر مسائل میں گھری ہے تو انہیں ہٹانے میں آسانی ہوگی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close