کوڑے دان کا ڈیجیٹل آرٹ جو ڈھائی لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا!

ویب ڈیسک

لاس اینجلس – فرانسیسی فنکار مارسیل ڈوچیمپ نے 1917ع میں فن کے ایک مقابلے میں ایک یورینل (پیشاب دان) بھیج کر آرٹ کی دنیا میں سنسی مچا دی تھی، اب ایک صدی بعد روبنس کے نام سے مشہور ایک امریکی فنکار نے کوڑے دان کا ایک این ایف ٹی دو لاکھ باون ہزار ڈالر میں فروخت کر کے تنازع کھڑا کر دیا

لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے اڑتیس سالہ فنکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اس بارے میں بتایا: ’مجھے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ یہ تصویر کہاں سے آئی ہے۔ میرے خیال میں یہ گوگل امیج سرچ تھی۔‘

واضح رہے کہ نان فنجیبل ٹوکن یعنی این ایف ٹی آرٹ ورک یا دیگر اشیا کی ڈجیٹل شکل ہوتے ہیں، یہ کمپیوٹر کوڈ کی شکل میں بلاک چین ٹیکنالوجی سے منسلک ہوتے ہیں، اور گذشتہ سال سے دنیا بھر میں ان کے چرچے ہیں

روبنس کی یہ متنازع تصویر، جسے ’64 گیلن ٹوٹر‘ کا نام دیا گیا، میں پلاسٹک کے ایک بڑے کوڑے دان کو کمپوٹر ایفیکٹس کے ساتھ دکھایا گیا ہے

این ایف ٹی آرٹ کی دنیا میں بہت زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔ تجزیہ کار فرم چینلائسس کے مطابق صرف گذشتہ سال اس آرٹ کی نیلامیوں اور مشہور شخصیات کی جانب سے کی گئی خریداری کی مالیت چالیس ارب ڈالر سے زیادہ رہی

ڈوچیمپ کے انوکھے پیشاب دان کی طرح روبنس کے اس عجیب فن پارے کی قدر بھی بڑھ گئی، کیونکہ یہ کافی مشہور ہو چکا تھا

این ایف ٹی کے پلیٹ فارم ’سپر ریئر‘ نے اس تصویر کو بننے کے فوراً بعد ہٹا دیا تھا

روبنس نے کہا: ’یہ غصے میں بنے فن پارے کی طرح تھا۔ میں کچھ چیزوں پر ناراض تھا۔ لہٰذا میں نے اسے پیش کیا اور پھر اسے ہٹا دیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ میں ہوم ڈپو کی تصویر لے رہا ہوں اور کاپی رائٹس کو توڑ رہا ہوں۔‘

روبنس نے ہنستے ہوئے کہا: ’انہوں نے مجھے قانونی کارروائی کی دھمکی دی۔‘

لیکن پھر پلیٹ فارم نے ان کی تصویر کو دوبارہ اپ لوڈ کر دیا

سپر ریئر نے اے ایف پی کو ایک ای میل میں بتایا: ’کمیونٹی نے اسے آرٹ نہیں سمجھا‘ لیکن دو سال بعد اسے بحال کر دیا گیا کیونکہ تب تک اس حوالے سے ’بحث میں کافی کچھ بدل چکا تھا‘ کہ کیا چیز آرٹ ہو سکتی ہے

یہ کوڑے دان ایک میم بن گیا تھا، کافی لوگ اس کی کاپی کر رہے تھے اور پھر آرٹ کلیکٹرز نے اس میں دلچسپی لینا شروع کردی

روبنس کا کہنا تھا: ’یہ تین کوڑے دانوں میں سے ایک تھا جو سپر ریئر پر موجود تھے اور میں نے اسے ایک کلکٹر کو فروخت کر دیا۔‘

’خریدار نے مجھے فون کیا کیونکہ وہ اس کی کہانی کے بارے میں مزید جاننا چاہتا تھا اور ہم نے تقریباً تیس سے پینتالیس منٹ تک بات کی اور میں نے پوری مزاحیہ کہانی بیان کر ڈالی، جس پر وہ زیادہ وقت ہنستا رہا۔ وہ اسے حاصل کرنا چاہتا تھا، تو میں نے اس کی ایک قیمت دی اور بس یہی تھا۔‘

روبنس، جو اپنا صرف یہی نام بتاتے ہیں، نے کہا کہ 2014 میں وہ چھوٹی موٹی نوکریاں کر رہے تھے اور غربت میں اپنی گاڑی میں سوتے تھے جب انہوں نے کرپٹو کرنسی کی دنیا کو سمجھنا شروع کیا۔

وہ دھیرے دھیرے اس ٹیکنالوجی سے آشنا ہو گئے اور اس طرح انہوں نے این ایف ٹیز بنانا شروع کر دیا

کوڑے دن اور ان کے دیگر آرٹ نے انہیں کافی مشہور بنا دیا ہے اور اب ٹوئٹر پر ان کے تیس ہزار سے زائد فالورز ہیں

انہوں نے حال ہی میں مک ڈونلڈز کو جمع کروائی گئی اپنی ایک نوکری کی درخواست کا ایف ایف ٹی بنایا

اب وہ اتنا کما پا رہے ہیں جتنے میں ان کا گزارا ہو جاتا ہے۔ ’ہر ماہ میری کمائی اس سے بہتر ہے جب میں کیفیز میں کافی بنا رہا تھا۔‘

روبنس ’اوپن سورس آرٹسٹری‘ کے حامی ہیں یعنی کسی کو کچھ بھی کہیں سے بھی اٹھا کر بنانے کی اجازت ہونی چاہیے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close