پاکستانی سافٹ ویئر برآمدات کے بڑھنے میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟

ویب ڈیسک

پاکستان کی سیاسی و داخلی مسائل میں الجھی ہوئی حکومتوں کی ’ڈنگ ٹپاؤ‘ پالیسیوں، طویل المدتی حکمت عملی کی کمی، پیداواری شعبے کے لیے ناموافق ماحول اور سروس سیکٹر کے بے جا پھیلاؤ وہ عوامل ہیں، جن کی وجہ سے ملکی برآمدات میں اتنا اضافہ نہیں ہو سکا جتنا اس ملک کی صلاحیت ہے یا جتنی برآمدات کی اس کو معاشی طور پر ضرورت ہے

ان حالات میں پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ایک ایسا شعبہ ہے، جس کی پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات میں نہ صرف تیز رفتار اضافہ ہوا، بلکہ اس کی ترقی کی رفتار بھی باقی شعبوں سے کہیں زیادہ رہی

اب آئی ٹی کا شعبہ حالیہ برسوں میں پاکستان کی دس بڑی برآمدات کرنے والے شعبوں میں شامل ہو گیا ہے۔ اور ملکی برآمدات کے ساتھ ساتھ بے روزگار نوجوانوں کو کام کے مواقع بھی فراہم کر رہا ہے

سرکاری حکام کے مطابق ”پاکستان کی کل 31 ارب ڈالرز کی برآمدات میں 2.62 ارب روپے کی انفارمیشن ٹیکنالوجی برآمدات ہیں، جو پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک بہتر کارکردگی ہے“

’لتاہم عالمی سطح پرسافٹ ویئر برآمد کرنے والے دیگر کئی ممالک کے مقابلے میں یہ اعداد و شمار بہت ہی کم ہیں

آئی ٹی انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق ’اس وقت پاکستان کی سافٹ ویئر برآمدات اس کی آئی ٹی پیداواری صلاحیت سے واضح طور پر کم ہیں۔‘

اس شعبے میں صلاحیت سے کم کارکردگی دکھانے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں غیر ہنرمند آئی ٹی گریجویٹس، تعلیمی نظام اور انڈسٹری کی ضروریات میں فرق، انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے دیگر ذرائع کی عدم موجودگی ہے

ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے شعبے میں عدم دلچسپی، پروڈکٹ ڈویلپمنٹ کا رجحان نہ ہونا، کاروباری شعبے کے لیے حوصلہ شکن ماحول اور اسٹارٹ اپ کلچر کے راستے میں رکاوٹیں نمایاں ہیں

اس حوالے سے ایک سافٹ وئیر کمپنی کے مالک شان محمد کہتے ہیں ”سافٹ ویئر پروڈکشن اور برآمدات کے لیے جو اقدامات دنیا نے بیس برس پہلے اٹھائے تھے پاکستان اس کی طرف آج جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شعبہ تیس سے پچاس ارب ڈالر تک کما سکتا تھا وہ ابھی محض تین سے چار ارب ڈالر تک پہنچا ہے“

شان محمد کا کہنا ہے ”سرفہرست دس بڑی برآمدات میں شمولیت سے آئی ٹی انڈسٹری کو ٹیکس میں ریلیف تو ملا ہے مگر قواعد و ضوابط کے نام پر ایسی بہت سی مشکلات موجود ہیں، جن سے چھوٹی کمپنیاں بڑے کاروبار میں تبدیل نہیں ہو پاتیں“

ان کے مطابق ”کاروباری افراد کے لیے اپنی برآمدات یا سروسز کے عوض بیرون ملک سے پاکستان میں رقم منگوانا اب بھی باقی دنیا کی نسبت بہت مشکل ہے“

انہوں نے کہا ”اگر مجھے بیرون ملک سے کوئی رقم منگوانا ہوتی ہے تو ہر ماہ یا ہر ہفتے بینک کو ڈاکومنٹس کی ایک فہرست دینا پڑتی ہے۔م“

ہائی سپیڈ انٹرنیٹ

ملک کے چھوٹے شہر اور دیہی علاقوں کے کئی حصے آج بھی انٹرنیٹ تو دور بجلی کی متواتر فراہمی سے محروم ہیں۔ اس وجہ سے آئی ٹی سے متعلقہ بہت سارے کام اب بھی بڑے شہروں تک محدود ہیں

شان محمد نے اپنے علاقے کے لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے گلگت کے قریب اپنے گاؤں ’دنیور‘ میں آئی ٹی کمپنی کا دفتر بنایا ہے لیکن وہ کئی کئی روز کی مسلسل لوڈشیڈنگ اور اس کی وجہ سے انٹرنیٹ سروس میں تعطل سے سخت پریشان ہیں۔

اس بارے میں وہ کہتے ہیں ”انٹرنیشنل کلائنٹس تو پراجیکٹ کی تاریخ سے ایک منٹ بھی اوپر نہیں دیتے۔ ایسے میں اگر کسی علاقے میں کئی دنوں تک بجلی ہی نہیں ہوگی تو ہم کیسے عالمی سطح پر اپنی خدمات فراہم کر پائیں گے۔“

انہوں نے بتایا ”دیہی علاقوں کے علاوہ شہروں میں بھی کئی جگہیں کوالٹی انٹرنیٹ سروسز سے محروم ہیں۔ دنیا فائیو جی سروسز کا آغاز کر چکی ہے، مگر یہاں اب بھی یکساں انٹرنیٹ سروسز میسر نہیں ہے“

تعلیمی نظام کی کمزوریاں

وزارت تعلیم کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 62.3 فیصد ہے۔ یعنی 22 اعشاریہ 52 کروڑ آبادی میں 9 کروڑ سے زائد افراد لکھنا پڑھنا ہی نہیں جانتے

تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی ساڑھے تیرہ کروڑ افراد عالمی سطح کے معیار کی تعلیم رکھتے ہیں بلکہ ان میں سے انتہائی کم تعداد یونیورسٹی تک پہنچ پاتی ہے۔
یونیورسٹی میں دی جانے والی تعلیم گریجویٹس کو اس قابل نہیں بناتی کہ وہ عملی میدان میں جاتے ہی اپنی بہترین کارکردگی پیش کریں

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) کے سابق صدر برقان سعید کے مطابق ’پاکستان میں ہر سال پچیس ہزار افراد آئی ٹی میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔‘

تعلیم کے معیار سے متعلق ان کا کہنا ہے ’ان پچیس ہزار میں سے صرف تین سے چار ہزار افراد کی اس قابل ہوتے ہیں جو آئی ٹی انڈسٹری میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ اس کے مقابلے میں بھارت نے اپنے لوگوں کی تعلیمی و تکنیکی صلاحیتیں نکھارنے میں بھرپور سرمایہ کاری کی ہے۔ آج اگر بھارت ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زائد انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں برآمدات کر رہا ہے تو اس کے پیچھے ان کی سرمایہ کاری ہے، جو انہوں نے اپنے لوگوں کی صلاحیتیں بہتر بنانے کے لیے کی ہے“

برقان سعید کے مطابق ”میکسیکو میں ہر سال ایک لاکھ آئی ٹی گریجویٹس نکلتے ہیں، جہاں کی آئی ٹی کے شعبے میں برآمدات اس وقت بائیس ارب ڈالر ہیں“

ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ

ایک اور بڑا مسئلہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے شعبے میں ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے منسلک آئی ٹی ماہر کامران میرکے مطابق ”ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کسی بھی ملک کے مسائل سے منسلک ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں جو ریسرچ ہو رہی ہے، وہ معاشرے سے کٹی ہوئی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ترقی کی بنیاد ریسرچ آرٹیکلز کی تعداد پر ہے. اس لیے ایسی بامقصد تحقیق جو سماجی اور معاشی میدان میں آگے بڑھنے میں مدد کر سکے فی الحال بڑے پیمانے پر نہیں ہو رہی۔ انڈسٹری کے پاس وسائل اس قدر نہیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر بڑے پیمانے پر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کر سکے جو کھربوں ڈالر کی انڈسٹری کر رہی ہے“

کم آمدنی اور سروس سیکٹر کا فروغ

برقان سعید کے مطابق ’دنیا بھر میں آئی ٹی انڈسٹریز تین مختلف سطح پر کام کرتی ہے۔ سب سے بڑا حصہ نچلی سطح کی سروسز پر کام کرتا ہے جس میں آمدن کے مواقع نسبتاً کم ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’درمیانے درجے اور پھر اوپر کی سطح پر زیادہ آمدن والے شعبے ہیں جن میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹکس اور بلاک چین سمیت پراڈکٹ ڈویلپمنٹ وغیرہ کا شعبہ ہے۔‘
برقان سعید کہتے ہیں کہ ’اس وقت اگر انہیں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ایک سو ماہرین درکار ہوں تو پاکستان میں یہ تلاش کرنا ایک مسئلہ بن جائے گا۔ اس کی نسبت کال سینٹرز، میڈیکل بلنگ سمیت دیگر فنانشل سروسز میں افرادی قوت بڑے پیمانے پر میسر ہے۔‘

فری لانسرز

ملکی برآمدات میں گذشتہ کچھ عرصے سے ہونے والے اضافے میں ایک بڑا حصہ فری لانسرز کا بھی ہے۔ گو کہ یہ اس درجے کا تو نہیں کہ امپورٹ بل کا بوجھ بڑے پیمانے پر ہلکا کر سکے لیکن پھر بھی اس کے اعداد حوصلہ افزا ہیں

کامران میر کے مطابق ’فری لانسنگ موجودہ معاشی حالات میں بہتر آپشن ہے مگر طویل مدتی معاشی حل کے طور پر اسے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کی نسبت اگر یہی صلاحیتیں ’میڈ ان پاکستان‘ پراڈکٹس بنانےمیں صرف ہوں تو بہتر ریونیو بھی مل سکتا ہے اور گرتی معیشت کی بہتر انداز میں مدد بھی ہو سکتی ہے۔‘

آف شور لیبر

پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت کمپنی کی رجسٹریشن سے لے کر بیرون ملک سے رقم منگوانے اور بھیجنے تک کا عمل اب بھی کافی پیچیدہ ہے۔ اس وجہ سے آئی ٹی کے کاروبار سے منسلک افراد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنی کمپنی کسی اور ملک میں رجسٹرڈ کروا کر اضافی رقوم وہیں رکھ لیں تو یہ آپشن قدرے بہتر ہے

اسی طرح کئی بیرون ملک قائم کمپنیاں پاکستان میں کم قیمت پر میسر افرادی قوت سے کام لے لیتی ہیں لیکن پراڈکٹ چونکہ کسی اور ملک میں رجسٹرڈ ہوتی ہے اس لیے آمدنی کا بڑا حصہ پاکستان نہیں آ سکتا

بہتری کی گنجائش

آئی ٹی کے شعبے میں حالیہ تیز رفتار ترقی کے بعد تقریباً سبھی ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ شعبہ نہ صرف اگلے مرحلے میں روزگار کے مسائل بڑے پیمانے پر حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اگر درست سمت میں وسائل خرچ کیے جائیں تو زبوں حالی کا شکار معیشت بھی بہتری کے راستے پر چل سکتی ہے

کامران میر کا کہنا ہے ’اسٹارٹ اپ کلچر کا جو آغاز ہوا ہے اس کو مزید آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ کو فنڈنگ کے مسائل اور کاغذی کاروائیوں کے جھنجھٹ سے نکال کر اگر بہتر سہولیات فراہم کی جائیں تو یہ آگے چل کر بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کر سکتے ہیں۔‘

’اسی طرح آئی ٹی انڈسٹری اگر سروس سیکٹر کے بجائے پیداواری شعبے کے ساتھ مل کر اس میں بہتری کے لیے کام کرے تو اس سے ملکی معیشت پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔‘

برقان سعید نے بتایا کہ ’یونیورسٹیز میں ترقی کا معیار ریسرچ پیپرز کی تعداد کے بجائے ایسے پراجیکٹس ہونے چاہییں جو سماجی و معاشی ترقی کے عمل میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔‘

ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ وہ حکومتی پراجیکٹس جن کی مد میں عالمی کمپنیوں کو کروڑوں ڈالرز کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ اس کی بجائے میڈ ان پاکستان پراڈکٹس کا انتخاب کرنا چاہیے

ان کے مطابق اگر پاکستان میں بننے والے پراجیکٹس عالمی معیار سے کچھ کم بھی ہوں تو انہیں ترجیح دینی چاہیے۔ اس سے نہ صرف درآمدات کے بل میں کمی ہوگی بلکہ آئی ٹی انڈسٹری کو بھی بوسٹ ملے گا

پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حکام کے مطابق سافٹ ویئر برآمدات بڑھانے کے لیے کئی رکاوٹیں دور کر لی گئی ہیں اور بقیہ ماندہ مسائل کے خاتمے کے لیے کام جاری ہے۔
وزارت کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے ہاں ایک عرصے تک آئی ٹی اور فری لانس سروسز کو آمدنی کے ثبوت کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ تاہم اب وزارت خزانہ کے ساتھ مل کر ان مسائل کو حل کیا جا چکا ہے جب کہ بیرون ملک سے رقوم کی منتقلی میں مزید آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں

ترجمان کا کہنا تھا کہ افراد کی تربیت کے حوالے سے حکومت ڈی جی سکل نامی آن لائن ٹریننگ پروگرام کے ذریعے گیارہ لاکھ افراد کو مکمل تربیت دے چکے ہیں۔ جب کہ اس پلیٹ فارم پر اس وقت تیس لاکھ سے زائد افراد رجسٹرڈ ہیں

’اسٹارٹ اپ کلچر کے فروغ کے لیے بھی بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close