کراچی سے نایاب لیپرڈ کیٹ کا جوڑا برآمد، گاہک بن کر ملزموں کو دھر لیا گیا

نیوز ڈیسک

کراچی – کراچی میں محکمہ وائلڈ لائف نے ڈرامائی کارروائی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر نایاب جنگلی بلی (لیپرڈ کیٹ) کی فروخت کرنے والے ایک گروہ کو دھر لیا اور لیپرڈ کیٹ کا جوڑا برآمد کرلیا

سندھ وائلڈ لائف کے سربراہ جاوید احمد مہر نے بتایا کہ سول سوسائٹی کے ارکان کی جانب سے ان کو اطلاع ملی تھی کہ لیپرڈ کیٹ کا ایک جوڑا سوشل میڈیا پر فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے

انہوں نے بتایا کہ”ہم نے فوری طور پر ایک منصوبہ بنایا اور انسپیکٹر نعیم خان کو ہدایات دی گئیں کہ وہ لپیرڈ کیٹ کو برآمد کر کے ملزمان کو گرفتار کریں۔“

’محکمے کی ایک خاتون اہلکار نے گاہک بن کر ملزم سے رابطہ کیا۔ فون پر باقاعدہ سودا ہوا اور ایک لاکھ رقم طے ہوئی۔ اس (ملزم) نے ہمیں شہاب الدین مارکیٹ کے پاس بلایا۔ وہاں اپنی تسلی کے لیے تین، چار گھنٹے تک ادھر ادھر چلواتا رہا۔ اس کے بعد ہمیں وہ لے کر سبزیوں اور پھلوں کی ایک دکان میں لے کر گیا۔‘

’اس دکان کے پیچھے بنے ایک کمرے میں ایک پنجرے میں لیپرڈ کیٹ کا جوڑا رکھا ہوا تھا۔ جس کو ہم نے اپنی تحویل میں لے لیا اور مقدمہ درج کر لیا۔ یہ کارروائی ممکن نہ ہوتی، اگر سول سوسائٹی کے لوگ آگے بڑھ کر ہمیں اطلاع نہ دیتے۔‘

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ لیپرڈ کیٹ کو غیر قانونی خرید و فروخت میں بر آمد کیا گیا ہو۔ اس سے قبل اسلام آباد میں بھی محکمہ وائلڈ لائف نے ایک لپیرڈ کیٹ کو برآمد کیا تھا

لپیرڈ کیٹ ایک نایاب جانور ہے، اور پاکستان میں اس کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے.
لیپرڈ کیٹ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پایا جاتا ہے، یہ چیتے یا پاکستان میں پائے جانے والے تیندوے سے مشابہت رکھتا ہے

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے سابق چئیرمین ڈاکٹر انیس الرحمان کے مطابق لیپرڈ کیٹ درحقیقت ایک بلی ہے، جو پالتو نہیں ہوتی بلکہ جنگلات میں پائی جاتی ہے

لیپرڈ کیٹ پر تحقیق کرنے والے محب اللہ نوید کا کہنا تھا کہ اس کو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے

’مقامی لوگوں میں جنگلی بلی اور چیتا بلی کے نام زیادہ مشہور ہے۔ یہ عموما چیڑ کے جنگلات میں ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر انیس الرحمان کہتے ہیں کہ اگرچہ بین الاقوامی اداروں کو لیپرڈ کیٹ کی تعداد کے حوالے سے زیادہ فکر نہیں اور نہ ہی بین الاقومی تنظیم برائے تحفظ فطرت (آئی سی یو این) نے اس جنگلی بلی کو خطرے سے دوچار حیاتیات میں شمار کیا ہے، مگر پاکستان میں معاملہ مختلف ہے۔

’ہمارے مشاہدے میں ہے کہ اس کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ بد قسمتی سے ابھی تک اس کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے باقاعدہ سروے نہیں ہوا۔‘

محب اللہ نوید کا کہنا تھا کہ اس کی تعداد کم ہونے کی وجہ اس کا غیر قانونی کاروبار ہے

اسلام آباد وائلڈ لائف کے سپروائزر محمد ظہیر کے مطابق لپیرڈ کیٹ کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے

’کچھ لوگ شوق کے لیے رکھتے ہیں۔ اس کی کھال کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ لوگ گھروں میں ان کے جوڑے رکھ کر ان کی اصل نسل بھی حاصل کرتے ہیں۔‘

سندھ وائلڈ لائف کے سربراہ جاوید احمد مہر کے مطابق لیپرڈ کیٹ کی قیمت ایک لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان ہوتی ہے، جسے ماہر شکاری اسلام آباد، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور دیگر علاقوں سے پکڑتے ہیں

ڈاکٹر انیس الرحمان کے مطابق لیپرڈ کیٹ کو پکڑنے کے لیے پرانا اور روایتی طریقہ اپنایا جاتا ہے، جس میں ٹریپ کا جال لگایا جاتا ہے۔ ’ایک مرتبہ جب یہ جال میں پھنس جائے تو اس کا بچ نکلنا ممکن نہیں رہتا۔‘

انہوں نے بتایا ’اب یہ ایک انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔ ایک دفعہ لیپرڈ کیٹ کو قابو کیا۔ اس سے ہر سال بنگال کیٹ کی بلیاں حاصل کیں اور اسے فروخت کرتے رہے۔ یہ کاروبار پھیلتا جا رہا ہے۔‘

’اس طرح کی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ بنگال کیٹ کی پاکستان میں قیمت ساٹھ ہزار روپے سے شروع ہو کر لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔ اس کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ بنگال کیٹ کا رنگ، قد کیسا ہے۔‘

سندھ والا واقعہ حالیہ دنوں میں منظر عام پر آیا ہے، لیکن اس سے پہلے اسلام آباد میں محکمہ وائلڈ لائف نے دو سال پہلے غیر قانونی کاروبار میں ملوث لوگوں کو پکڑا تھا اور لیپرڈ کیٹ کو برآمد کیا تھا

اسلام آباد وائلڈ لائف کے سپروائزر محمد ظہیر کے مطابق دو سال پہلے انہیں اطلاع ملی تھی کہ راولپنڈی کالج روڈ پر لیپرڈ کیٹ فروخت کی جا رہی ہے

’ہم نے کاہگ بن کر رابطہ قائم کیا۔ کئی روز بعد وہ ہمیں لیپرڈ کیٹ پینتالیس ہزار روپے میں فروخت کرنے پر تیار ہو گیا تھا۔‘

ایسے واقعات میں اضافے کی وجہ پر نعیم خان کہتے ہیں کہ کراچی میں جس ملزم کو گرفتار کیا گیا اس کا کردار محدود یعنی صرف فرنٹ مین کا تھا

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس شخص سے تفتیش کر رہے ہیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ کون سا نیٹ ورک تھا اور یہ جوڑا کہاں سے لایا گیا

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے سابق چئیرمین ڈاکٹر انیس الرحمان کہتے ہیں کہ جنگلی حیات منشیات کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا منافع بخش کاروبار ہے

’اس میں اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ اکثر اوقات اس کے کاروبار میں ملوث لوگ اپنے اردگرد ایک بڑا جال بن کررکھتے ہیں۔ وہ خود کبھی بھی منظر عام پر نہیں آتے بلکہ وہ اپنی مختلف قسم کی خرید و فروخت میں فرنٹ مین کو استعمال کرتے ہیں۔‘

’ہم نے کئی کیسز پکڑے۔ ہر کیس میں یہ ہی ہوا کہ فرنٹ مین تھا جس کو کسی نے تیندوا، ریچھ یا لیپرڈ کیٹ صرف آگے فروخت کے لیے دیا اور اسے کمیشن کا جھانسا دیا۔ وہ خود بھی اصل کارندوں کو نہیں جانتا۔‘

سندھ وائلڈ لائف کے سربراہ جاوید احمد مہر کہتے ہیں کہ وہ کوشش کررہے ہیں کہ برآمد ہونے والے جنگلی بلی کے جوڑے کو جلد از جلد اسلام آباد پہنچا دیا جائے، جہاں پر اسلام آباد وائلڈ لائف کی مدد سے انہیں مارگلہ کے نیشنل پارک میں چھوڑ دیا جائے گا

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرمین رعنا سعید خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم خوبصورت لیپرڈ کیٹ کے استقبال کے لیے تیار ہیں

ان کا کہنا تھا کہ دس دن تک ان کو قرنطینہ میں رکھ کر ویٹرنری ڈاکٹر کی مدد سے مشاہدہ کیا جائے گا کہ یہ کسی بیماری کا شکار تو نہیں۔ ’اس کے بعد ہم ان کو مارگلہ نیشنل ہل پارک میں چھوڑ دیں گے جہاں یہ اپنے ٹھکانے خود بنا لیں گی۔‘

محکمہ وائلڈ لائف سندھ کو اطلاع دینے والی کراچی کی سول سوسائٹی دراصل ماحولیات اور جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے لوگوں کا ایک گروپ ہے

عافیہ سلام، جو ایک صحافی ہیں اور ماحولیات کے لیے بھی کام کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر جب لیپرڈ کیٹ کو فروخت کے لیے پیش کیا گیا تو اس وقت ہمارے لوگوں نے یہ اشتہار دیکھ لیا تھا

انہوں نے بتایا ’جس کے بعد ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اس کو ہر صورت میں آزاد کروانے کی کوشش کرئیں گے۔‘

عافیہ سلام کا کہنا تھا کہ ہم جو بھی بنیادی اطلاعات اکٹھی کرسکتے تھے، وہ محکمہ وائلڈ لائف سندھ کو فراہم کی گئیں

عافیہ سلیم کہتی ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ جنگلی حیات کا غیر قانونی کاروبار بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اگر آپ لالو کھیت والی مارکیٹ میں جائیں جہاں لائن میں پرندے موجود ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم ایمپریس مارکیٹ میں جنگلی حیات کو دیکھا کرتے تھے۔‘

’ہم سمجھتے ہیں کہ پوری کی پوری سول سوسائٹی کو جنگلی حیات کے گھناؤنے کاروبار کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے تاکہ اس کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close