قائدِ اعظم یونیورسٹی کے طالبعلم خضدار سے مبینہ طور پر لاپتہ، خاندان کا جبری گمشدگی کا الزام

ویب ڈیسک

خضدار – بلوچستان کے ضلع خضدار کے رہائشی حاجی محمد حسن کے چھوٹے بیٹے عبدالحفیظ منگل کے روز سے خضدار شہر سے مبینہ طور پر لاپتہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ عبدالحفیظ خضدار کے ایک تعلیمی ادارے میں شام کو بچوں کو پڑھا رہے تھے کہ مسلح نقاب پوش افراد اُنہیں کلاس روم سے اٹھا کر لے گئے

عبدالحفیظ بلوچ کا تعلق خضدار کے علاقے باغبانہ سے ہے اور وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں فزکس میں ایم فل کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں

خضدار پولیس کے مطابق عبدالحفیظ کی مبینہ گمشدگی کے حوالے سے ان کے رشتے داروں نے مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دی ہے، جس پر کارروائی شروع کر دی گئی ہے

عبدالحفیظ کے والد حاجی محمد حسن نے بتایا کہ ان کے بیٹے عبدالحفیظ چھٹیوں پر جنوری کے آخری ہفتے میں اسلام آباد سے خضدار آئے تھے

ان کا کہنا تھا کہ عبدالحفیظ کو تعلیم سے بہت لگاؤ تھا، اس لیے چھٹیوں کے دوران بھی انہوں نے درس و تدریس سے اپنا ناطہ نہیں توڑا اور وہ شام کو ایک مقامی ادارے میں بچوں کو مفت پڑھانے جاتے تھے

انہوں نے بتایا کہ 8 فروری کے روز بھی وہ بچوں کو پڑھانے کے لیے اکیڈمی میں تھے کہ وہاں سیاہ رنگ کی ایک سرف گاڑی میں تین نقاب پوش مسلح افراد آئے ’ان میں سے دو افراد کلاس روم میں آئے اور عبدالحفیظ کو طلبا کے سامنے سے زبردستی اپنے ساتھ نامعلوم مقام پر لے گئے۔‘

عبدالحفیظ کے والد نے بتایا کہ جب اکیڈمی کے لوگوں نے اس واقعے کے بارے میں انہیں اطلاع دی تو انہوں نے اپنے طور پر ان کا پتا لگانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، لیکن انہیں ان کا پتہ لگانے میں کوئی کامیابی نہیں ملی

انہوں نے کہا کہ مایوسی کے بعد انہوں نے سٹی پولیس سٹیشن خضدار میں ان کی گمشدگی کے حوالے سے درخواست دی

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کسی منفی سرگرمی میں ملوث نہیں تھے اور ان کی توجہ ہر وقت اپنی پڑھائی کی جانب ہوتی تھی ’عبدالحفیظ چاہتے تھے کہ انہوں نے جو علم حاصل کیا ہے، وہ دوسروں تک پہنچائیں، یہی وجہ ہے کہ وہ شام کو بچوں کو پڑھانے کے لیے جاتے رہے۔‘

انہوں نے کہا کہ بیٹے کی گمشدگی سے اُن کا خاندان اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہے

ان کا کہنا تھا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اس لیے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے بیٹے کو کیوں لاپتہ کیا گیا

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر خضدار عبدالقدوس اچکزئی نے بتایا کہ یہ واقعہ پولیس کے زیر تفتیش ہے۔ ایس ایس پی خضدار اس کے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں

خضدار سٹی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او محمد افضل نے حفیظ بلوچ کی گمشدگی سے متعلق ان کے رشتے داروں کی طرف سے پولیس اسٹیشن میں درخواست دینے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے رشتے داروں نے وقوعہ کے فوراً بعد رپورٹ درج نہیں کروائی تھی بلکہ اپنے طور پر ان کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ انہوں نے چوبیس گھنٹے کے بعد بدھ کو حفیظ کی گمشدگی کی درخواست دی ہے اور درخواست وصول کر کے ضابطے کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے

عبدالحفیظ کی گمشدگی کا واقعہ منگل اور بدھ کو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتا رہا اور صارفین اُن کی بازیابی اور رہائی کا مطالبہ کرتے نظر آئے

جلیل بلوچ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’بلوچستان کا ایک روشن مستقبل آج غیر قانونی حراست میں ہے۔ سول سوسائٹی سے درخواست ہے کہ وہ حفیظ بلوچ کی فوری بازیابی کے آواز بلند کریں۔‘

ایک اور صارف اعجاز بابا نے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ہمارے بدترین ادوار میں سے ایک ہے کہ ہمارے دوست دن دہاڑے لاپتہ ہو رہے ہیں، لیکن ان کا سراغ نہیں ملتا۔‘ ایک اور ٹویٹ میں اُنہوں نے لکھا کہ ہمارے پاس کتابوں سے زیادہ لاپتہ افراد کے چارٹ ہیں۔

فرمان بلوچ نے بھی ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’طالب علموں کی جگہ یونیورسٹیاں ہیں، نہ کہ کسی الزام کے بغیر ٹارچر سیل۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close