لاڑکانہ – سندھ کے شہر لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مردہ پائی جانے والی دو طالبات کے ڈی این اے تجزیے میں ایک ہی شخص کا ڈی این اے پائے جانے کا انکشاف ہوا ہے
واضح رہے کہ نمرتا چندانی کی موت سنہ 2019 میں اور نوشین کاظمی کی گذشتہ برس 2021 میں ہوئی تھی۔ ان دونوں طالبات کی لاشیں یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمروں سے رسی سے لٹکی ہوئی ملیں تھیں۔ دونوں طالبات کے موت میں دو برس کا وقفہ ہے، مگر پولیس کے مطابق ان میں مماثلت پائی گئی ہے
رواں برس 28 جنوری کو لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی فارنزک لیباٹری نے ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ پولیس کی طرف سے فارنزک لیباٹری کو طالبات کے دو وجائنا سواب، پہنے ہوئے کپڑے، ہاسٹل کے کمروں سے جو کپڑے ملے اور وہ رسی جس پر لاش ٹنگی ہوئی تھی، بطور نمونہ فراہم کیے گئے تھے
رپورٹ کے مطابق سلیٹی رنگ کی شلوار اور کالے رنگ کی قمیض پر خون کے دھبے پائے گئے اور وجائنا کے سواب اور کپڑوں سے تولیدی مادہ یا سپرم ملا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ نوشین اور نمرتا کے جسموں سے ملنے والے ڈی این اے میں پچاس فیصد مماثلت پائی گئی ہے
دو صفحوں پر مشتمل اس رپورٹ کے مطابق رسی اور پہنے ہوئے کپڑے واقعے کے چار روز بعد 28 نومبر کو پولیس نے لیبارٹری پہنچائے، جبکہ جائے وقوعہ پر موجود کپڑے چھ دسمبر کو پہنچائے گئے
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تولیدی مادے یا سپرم کا ڈی این اے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرلز کالج میں داخل ہونے والے یا آنے جانے والوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے خون کے نمونے فراہم کیے جائیں تاکہ اس کا موازنہ کیا جا سکے
ایس ایس پی لاڑکانہ سرفراز شیخ سے جب معلوم کیا گیا کہ اس رپورٹ کے مطابق اب تحقیقات میں کس طرح پیش رفت ہوگی، تو انہوں نے بتایا کہ عدالتی تحقیقات کا حکم جاری کیا گیا ہے، لہٰذا تمام شواہد محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ عدالتی احکامات کی روشنی میں آگے بڑھا جائے گا
وائس چانسلر ڈاکٹر انیلا عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ اس وقت معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، لہٰذا وہ اس پر کوئی بھی تبصرہ نہیں کر سکتیں۔ تاہم چانڈکا یونیورسٹی کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں اس رپورٹ کو جوڈیشل انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا گیا ہے
یونیورسٹی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ماہر قانون نے شرکا کو بتایا کہ کوئی بھی لیبارٹری کسی عدالت کے حکم کے بغیر کسی ایک کیس کے لیے حاصل کیے گئے نمونے کی کسی اور کیس کے نمونوں سے موازنہ نہیں کر سکتی نہ ہی کوئی لیبارٹری سفارش کر سکتی ہے
ان کے مطابق یہ رپورٹ سیل کر کے بھیجی جاتی ہے، لہٰذا انتظامیہ کو شامل تفتیش کیا جائے
محکمہ داخلہ کے اعلامیے کے مطابق حکومت سندھ کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج کو انکوائری کا حکم جاری کیا ہے
ایس ایس پی اور ڈی سی کو تحقیقات میں تعاون کی ہدایت کی گئی ہے
نوشین کاظمی کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟
لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل نمبر دو کے کمرے سے 24 نومبر 2021 کو نوشین کی پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔ اسسٹنٹ کمشنر لاڑکانہ احمد علی سومرو کا کہنا تھا کہ نوشین کاظمی کی روم میٹ باہر گئی ہوئی تھیں، وہ کمرے میں اکیلی تھی
دو تین گھنٹے کے بعد روم میٹ واپس آئیں تو کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا تو انھوں نے آواز دے کر بلایا اور جب جواب نہیں ملا تو کھڑکی کی جالی میں سوراخ کر کے دیکھا تو اندر لاش تھی
اس کمرے کے کونے میں موجود رائیٹنگ ٹیبل کے اوپر نوشین کے دونوں پاؤں تھے، جو ہوا میں نہیں بلکہ ٹیبل کی سطح پر تھے جبکہ رسا اوپر چھت کے پنکھے میں بندھا ہوا تھا، جو تھوڑا سے جُھکا ہوا تھا اور رسے کا آخری سرا پھندے کی صورت میں نوشین کے گلے میں تھا
پولیس کو کمرے سے دو تحریری نوٹ بھی ملے تھے۔ پولیس کے ترجمان کے مطابق ایک نوٹ پیڈ کے قریب اور ایک الماری سے ملا تھا اور دونوں میں تقریباً ایک ہی طرح کا پیغام درج تھا۔ بیڈ سے ملنے والا نوٹ رومن میں تحریر تھا کہ ‘میں خود اپنی مرضی سے ’ہینگنگ‘ یعنی لٹکنے جا رہی ہوں، نہ کہ کسی کے پریشر میں کر رہی ہوں۔’
بعد میں ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ رسی سے لٹکنے کے باعث سانس کا گھٹنا قرار دی گئی تھی۔ تاہم طالبہ کے والد ہدایت اللہ کاظمی کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی خودکشی نہیں کر سکتی
تین برس گزرنے کے باوجود نمرتا کی موت ایک معمہ
چانڈکا کالج میں بی ڈی ایس کی طالبہ نمرتا کی لاش 16 ستمبر 2019 کو ہاسٹل سے ملی تھی، جبکہ کمرہ اندر سے بند تھا۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق نمرتا چندانی کے گلے پر نشانات موجود تھے ان کی موت گلہ گھٹنے سے ہوئی
نمرتا کے بھائی ڈاکٹر وشال چندانی نے پوسٹ مارٹم رپورٹ کو مسترد کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ان کے سامنے حکام نے جو فائنڈنگ لکھی تھیں اس میں دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں پر زخم کے نشانات تھے لیکن ابتدائی رپورٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں
میرپور ماتھیلو سے تعلق رکھنے والی نمرتا چندانی کی ہلاکت پر سندھ بھر میں ہندو کمیونٹی اور سول سوسائٹی کی جانب سے سوشل میڈیا اور سڑکوں پر احتجاج کیا گیا تھا، جس کے بعد عدالتی تحقیقات کا حکم جاری کیا گیا
عدالتی انکوائری مکمل کر کے محکمہ داخلہ کو بھیج دی گئی لیکن اس میں کیا حقائق سامنے آئے تین سال کے بعد بھی عوام کو کچھ نہیں بتایا گیا۔ لہٰذا نمرتا کے ساتھ کیا ہوا آج بھی معمہ بنا ہوا ہے.