’ڈُگ ڈُگ‘: اس مندر کا قصہ جہاں موٹرسائیکل سے منتیں مرادیں مانگی جاتی ہیں

ویب ڈیسک

راجستھان : ان دنوں بھارت میں ’موٹر سائیکل دیوتا‘ کے لیے وقف ایک مندر کی عجیب کہانی پر مبنی ایک فلم بین الاقوامی فلم فیسٹیول کے حلقوں میں دھوم مچا رہی ہے

اس فلم کا نام ”ڈگ ڈگ“ ہے. یہ نام بلیٹ موٹر سائیکل کی مخصوص آواز ’ڈگ ڈگ ڈگ‘ کی مناسبت سے رکھا گیا ہے. یہ فلم کچھ عرصہ قبل نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے

تقریباً ایک صدی قبل انگلینڈ کے ورسیسٹر شائر کے قصبے ریڈچ میں پہلی بار بنائی جانے والی ’رائل اینفیلڈ‘ کی گونجتی ہوئی آواز پر مبنی فلم کا پلاٹ توہمات کی ایسی دنیا کے بارے میں ہے، جو سچ میں حیرت زدہ کر دینے والے ہیں

یہ فلم ایک واقعے اور اس کے بعد جنم لینے والے توہمات پر پر بنائی گئی ہے. ہائی وے پر نشے میں دھت موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ایک شخص کی ایک ٹرک سے ٹکر ہو جاتی ہے۔ اگلی صبح اس شخص کی موٹر سائیکل پولیس کی تحویل سے غائب ہو جاتی ہے اور پراسرار طور پر وہ اسی جگہ پہنچ جاتی ہے، جہاں موٹر سائیکل سوار کی حادثے کے نتیجے میں موت ہوئی تھی۔ پولیس اس بائیک کو واپس تھانے لاتی ہے، لیکن ہر بار موٹر سائیکل سڑک کے کنارے جائے حادثہ پر لوٹ آتی ہے

پھر تو افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے اور گاؤں میں مشہور قصوں اور توہم پرستی کے میل سے مردہ آدمی کو ’سادھو‘ اور ’مہاتما‘ قرار دیتے ہوئے اُن کی موٹر سائیکل کو انڈین ریاست راجستھان میں دیوتا کا درجہ دے دیا جاتا ہے

ہندی زبان کی یہ فلم عجیب و غریب رسومات اور مذہب کے کمرشلائیزیشن پر شدید طنز ہے۔ سادگی کے ساتھ بیان کی گئی فلم میں ڈرامے اور پراسراریت کا امتزاج ہے، جس میں بھولے بھالے عوام اپنے عجیب و غریب خیالات اور توہمات سے چمٹے دکھائے گئے ہیں

راجستھان کے دارالحکومت جے پور میں پیدا ہونے والے، ’ڈگ ڈگ‘ کے ہدایتکار، رِتوِک پاریک نے کہا: ’اگر آپ کسی چیز پر دل سے یقین رکھتے ہیں، تو وہ آپ کے لیے کارگر ثابت ہوتی ہے۔‘

 

ایک سو سات منٹ دورانیے کی اس فیچر فلم کا پریمیئر گذشتہ ماہ چھیالیسویں ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ہوا اور یہ فلم جودھ پور سے تقریباً پچھتر کلومیٹر دور راجستھان میں غیر ملکی سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ’پالی‘ کے ایک مندر کی کہانی سے ماخوذ ہے

سڑک کے کنارے مندر کا دیوتا ایک پرانی رائل اینفیلڈ بلیٹ موٹر سائیکل ہے جسے ایک چبوترے پر رکھا گیا ہے۔ موٹرسائیکل مقامی رہائشی اوم سنگھ راٹھور کی تھی، جو تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل جودھ پور کو جے پور شہر سے جوڑنے والی شاہراہ پر ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے

مندر کو عرف عام میں ’بلِٹ بابا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ مندر، لمبا سفر کرنے والے ٹرک ڈرائیوروں کی پسندیدہ جگہ ہے، جو ملک کی مشکل شاہراہوں پر اپنی حفاظت کی خاطر یہاں پوجا کرتے ہیں

بلٹ کے ٹائر پر بندھے منتوں کے دھاگے

کل وقتی فلم ساز بننے کے لیے چھ سال قبل ممبئی میں اشتہارات میں آرٹ ڈائریکٹر کی نوکری چھوڑنے والے پاریک نے کہا کہ ’انڈیا میں ہمارے پاس بہت سارے مندر ہیں، جو کہ ایک سے بڑھ کر ایک عجیب ہیں۔ اور بالی وڈ کے گڑھ ممبئی میں رہنے کے بجائے وہ جے پور واپس گھر آ گئے۔‘

ایک دن وہ برطانوی ماہر حیاتیات رچرڈ ڈاکنز کی سنہ 2006ع میں شائع ہونے والی کتاب ’دی گاڈ ڈیلیوژن‘ پڑھ رہے تھے۔ اس کتاب میں ذاتی عقائد پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ اسی دوران پاریک کو جودھ پور میں ’بلِٹ بابا‘ کی یاد آئی

انہوں نے کہا کہ ڈگ ڈگ کا خیال وہیں پیدا ہوا. اس کے بعد انہوں نے تحقیق کے لیے اگلے پانچ مہینوں میں ’بلِٹ بابا‘ سمیت راجستھان بھر میں کئی مندروں کا سفر کیا

پاریک کے مطابق میں بچپن میں پالی کے مندر گیا تھا۔ میرا خاندان بہت مذہبی ہے اور میری دادی جب بھی مندروں میں جاتی تھیں، تو مجھے اپنے ساتھ لے جاتی تھیں۔ وہ رسومات کے بارے میں بہت سخت تھیں

پاریک نے بتایا کہ فلم بنانے کے لیے انہوں نے اپنے والد کو اس بات کا ذمہ دیا کہ وہ جودھ پور کے راٹھور کے خاندان سے فلم بنانے کے بارے میں بات کریں۔ خاندان کی دو شرطیں تھیں کہ راٹھور کا اصلی نام استعمال نہ کیا جائے اور ان کی ذات کا ذکر نہ کیا جائے

اسکرپٹ لکھنے کے بعد پاریک نے سو سے زیادہ لوگوں کا آڈیشن لیا، جن میں سے زیادہ تر رام گڑھ کے آس پاس کے گاؤں کے غیر پیشہ ور اداکار تھے۔ یہ گاؤں جے پور سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور واقع ہے اور وہیں فلم کی شوٹنگ ہوئی ہے

◾تصویر 3
ک کیپشن
فلم ڈگ ڈگ کا ایک منظر

اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ راٹھور پر مبنی ٹھاکر لال کے فلمی کردار کے لیے منتخب کیے جانے والے ایک مقامی شخص نے یہ کہہ کر سیٹ چھوڑ دیا کہ وہ راٹھور کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں

فلم میں راٹھور کی بلِٹ موٹر سائیکل کی جگہ ایک پرانی لونا، ایک انڈین موپیڈ کا استعمال کیا گیا ہے

ہدایت کار کی بہن اور فلم کی پروڈیوسر پریرنا رتوک نے اپنی پہلی فیچر فلم کے بارے میں کہا: یہ جودھ پور مندر کی کہانی کا ہمارا ورژن ہے. ہندوستان میں تقریباً ہر ایک کے بچپن کی ایک نہ ایک کہانی ہے، جس میں کوئی نہ کوئی معجزہ شامل ہوتا ہے

فلم اور اس کے بنانے والے اب بین الاقوامی میلے کے سرکٹ پر ایک اور نمائش کا انتظار کر رہے ہیں۔

ٹورنٹو فیسٹیول کے پروگرامر پیٹر کپلوسکی نے کہا کہ ’ہر ثقافت کے ایسے پہلو ہوتے ہیں جو دوسروں کو عجیب و غریب لگتے ہیں۔‘

وہ ہر سال دنیا بھر سے زبردست اور متنوع کہانیاں پیش کرتے ہیں اور انہوں نے ہی ڈگ ڈگ کو اپنے ڈسکوری سیکشن کے لیے منتخب کیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close