ایڈز: ایچ آئی وی سے دنیا کی پہلی خاتون کی ’صحتیابی‘، مگر اس طریقہ علاج پر خدشات کیا ہیں؟

ڈینور – ایچ آئی وی سے متاثرہ ایک امریکی خاتون اس بیماری سے مکمل پاک ہونے والی دنیا کی تیسری انسان اور پہلی خاتون بن گئی ہیں، تاہم ماہرین نے کچھ خدشات کے پیش نظر اس حوالے سے ردِعمل میں محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے

خاتون کا لیوکیمیا (ہڈیوں کے گودے کا کینسر) کا علاج کیا جا رہا تھا، جب انہیں کسی ایسے شخص کا اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کیا گیا، جس میں ایڈز پیدا کرنے والے وائرس کے خلاف قدرتی مزاحمت تھی

یہ خاتون اب گذشتہ چودہ مہینوں سے اس وائرس سے پاک ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرانسپلانٹ کا جو طریقہ اس مریضہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے، وہ ایچ آئی وی سے متاثرہ زیادہ تر مریضوں کے لیے موزوں نہیں

یہ کیس منگل کو ڈینور میں ایک میڈیکل کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا اور یہ پہلی بار ہے کہ یہ طریقہ ایچ آئی وی کے فعال علاج کے طور پر استعمال کیا گیا ہے

کیس کے مطابق، مریضہ نے اپنے کینسر کے علاج کے حصے کے طور پر ایمبلیکل کورڈ کے خون کا ٹرانسپلانٹ حاصل کیا اور اس کے بعد سے انہیں ایچ آئی وی کے علاج کے لیے درکار اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی لینے کی ضرورت نہیں پڑی

یہ کیس ایچ آئی وی کے شکار لوگوں کے بارے میں ایک وسیع امریکی تحقیق کا حصہ تھا، جس میں ایسے افراد شامل تھے، جنہوں نے کینسر اور سنگین بیماریوں کے علاج کے لیے ایک ہی قسم کا بلڈ ٹرانسپلانٹ کیا تھا

ٹرانسپلانٹ شدہ جن خلیات کا انتخاب کیا گیا تھا، ان میں ایک مخصوص جینیاتی تبدیلی ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ ایچ آئی وی وائرس سے متاثر نہیں ہو سکتے

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جن لوگوں کا اس طرح علاج کیا گیا، ان کا مدافعتی نظام اس کے نتیجے میں ایچ آئی وی کے خلاف مزاحمت پیدا کر سکتا ہے

ایچ آئی وی کے علاج کی تمام کہانیاں اگرچہ حوصلہ افزا ہیں اور یہ اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اس بیماری کا علاج ممکن ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ نقطہ نظر ہمیں ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزارنے والے تین کروڑ ستر لاکھ لوگوں کے علاج کو یقینی بنانے کی امید نہیں دلاتا، جن میں سے زیادہ تر افریقہ میں رہتے ہیں

واضح رہے کہ اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کی صلاحیت کا مظاہرہ سنہ 2007ع میں کیا گیا تھا، جب ٹموتھی رے براؤن ایچ آئی وی سے پاک ہونے والے پہلے شخص بنے تھے۔ انہوں نے ایک ڈونر سے ٹرانسپلانٹ کروایا، جن کا مدافعتی نظام قدرتی طور پر ایچ آئی وی کے خلاف تھا

اس کے بعد سے یہ کارنامہ صرف دو بار دہرایا گیا، پہلے ایڈم کاسٹیلیجو نامی مریض پر اور اب نیویارک کی اس مریضہ کے ساتھ

ان تینوں افراد کو کینسر تھا اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی۔ ان کے ایچ آئی وی کا علاج کرنا ڈاکٹروں کا بنیادی مقصد نہیں تھا اور ایچ آئی وی والے ہر فرد پر یہ علاج استعمال کرنا خطرناک ہو سکتا ہے

ماہرین کے مطابق، یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو معمول کی زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے۔ اس مرض کے علاج کے بنیادی طریقے، جیسے ویکسین یا دواؤں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے، جو وائرس کو جسم سے باہر نکال سکتی ہیں

پچھلے دو کیسوں کے برعکس، جہاں مریضوں کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کے حصے کے طور پر بالغ اسٹیم سیل دیے گئے تھے، ایچ آئی وی سے پاک ہونے والی امریکی خاتون کے علاج میں نال کا خون شامل تھا

بالغ اسٹیم سیلز کے مقابلے میں نال کا خون زیادہ وسیع پیمانے پر دستیاب ہے اور اس کے لیے عطیہ دینے والے اور لینے والے کے درمیان کسی طرح کے سیلز یا خون کے میچ ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے

انٹرنیشنل ایڈز سوسائٹی کی صدر شیرون لیون نے خبردار کیا ہے کہ اس معاملے میں استعمال ہونے والا ٹرانسپلانٹ طریقہ ایچ آئی وی کے ساتھ رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے لیے قابل عمل علاج نہیں ہوگا

لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس ’اتنا ضرور ثابت کرتا ہے کہ ایچ آئی وی کا علاج ممکن ہے اور ایچ آئی وی کے علاج کے لیے جین تھراپی کو ایک قابل عمل حکمت عملی کے طور پر استعمال چاہیے۔‘

واضح رہے کہ اس تازہ ترین کیس اسٹڈی کے ان نتائج کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے نہیں لائی گئیں، اس لیے اس حوالے سے وسیع تر سائنسی تفہیم ابھی تک محدود ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close