’مسلمانوں کو پھانسی‘ سے متعلق بی جے پی کی سوشل میڈیا پوسٹ پر ہنگامہ

ویب ڈیسک

نئی دہلی – بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کی گجرات شاخ کی جانب سے کی گئی سوشل میڈیا پوسٹ پر تنقید کرنے والوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل دیا ہے، جب کہ پارٹی کے حامیوں نے اس کی تعریف کی ہے

بھارتیہ جنتا پارٹی کے آفیشل ہینڈل سے کی گئی ٹویٹ، فیسبک اور انسٹاگرام پوسٹ میں متعدد مسلمانوں کو پھانسی لگے ہوئے دکھایا گیا تھا

گجرات بی جے پی کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل @BJP4Gujarat سے پوسٹ کیے گئے اس متنازع کارٹون میں ٹوپیاں پہنے اور داڑھیوں والے افراد کو پھانسی چڑھتے دیکھایا گیا تھا اور ساتھ لکھا تھا ’ستیا میں وجیت‘ یعنی آخر میں سچ کی جیت ہوتی ہے اور ’دہشت گردی پھیلانے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔‘

سوشل میڈیا کے تینوں بڑے پلیٹ فارمز پر شیئر کردہ تصویر کے ساتھ دیے گئے پیغام میں لکھا گیا تھا ’دہشت پھیلانے والوں کے لیے کوئی معافی نہیں۔‘

بی جے پی کی گجرات شاخ کی جانب سے یہ سوشل میڈیا پوسٹ ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب بھارت میں گزشتہ کئی دنوں سے حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتی مسلم طالبات اور پردے کی اجازت نہ ملنے پر ملازمتیں چھوڑتی مسلم خواتین کی خبریں دیگر معاملات پر غالب رہی ہیں

بھارتی حکمراں جماعت کے پیغام پر تنقید کا سلسلہ اتنا بڑھا کہ ٹوئٹر نے اسے ’قوانین کی خلاف ورزی‘ قرار دے کر ڈیلیٹ کر دیا گیا البتہ فیسبک اور انسٹاگرام پر یہ پوسٹیں برقرار رکھی گئی ہیں

اس کارٹون کو بی جے پی گجرات کی جانب سے پوسٹ کرتے ہوئے 14 برس قبل (یعنی 2008) بھارتی ریاست احمد آباد میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزام میں اڑتیس مسلمانوں کو سزائے موت دینے پر خوشی کا اظہار کیا تھا

یاد رہے کہ 18 فروری کو بھارتی عدالت نے ریاست گجرات میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 49 مسلمانوں کو سزائیں سنائی تھیں۔ جن میں سے 38 کو موت اور 11 ملزمان کو عمرقید کی سزا سُنائی گئی ہے

بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے اس پوسٹ پر شدید ردِعمل سامنے آیا اور دنیا بھر سے لوگوں سے اسے ٹوئٹر پر رپورٹ کیا، جس کے بعد ٹویٹر کو یہ پوسٹ ہٹانا پڑی جبکہ گجرات بی جے پی کے انسٹاگرام اور فیسبک پر بھی اب یہ پوسٹ اب موجود نہیں ہے

انڈین صحافی رعنا ایوب نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کا ٹویٹر ہینڈل ہے۔ ’مودی اور اُن کی مسلم دشمنی کو بڑھاوا دینے کے ذمہ دار امریکا اور دیگر ’جمہوری‘ ممالک ہیں۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’آپ کی خاموشی ہم سب کے ساتھ ناانصافی کا سبب بن رہی ہے۔‘

رعنا ایوب نے بی جے پی گجرات کی انسٹاگرام پوسٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا ’آئیں ہم سب یہی سمجھتے رہیں کہ اس ملک کی اکثریت نے ترقی کے لیے ووٹ دیا ہے۔‘

کچھ افراد نے حالیہ دنوں میں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ حکومتی سلوک کو نازی جرمنی میں یہودیوں سے ہونے والے سلوک سے تشبیہ دی

بھارت میں حیدرآباد سے رکن پارلیمان اور مسلمانوں کے رہنما اسدالدین اویسی نے بھی انہی دونوں کارٹونز کو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’یہ کارٹون جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی کے لیے استعمال کیے گئے۔ ہم بی جے پی سے کسی بہتری کی توقع نہیں رکھتے، لیکن کیا ہم یہ مان لیں کہ یہ بی جے پی کے ووٹروں کو راغب کرتا ہے؟‘

جبکہ کیرالہ سے ایڈویڈ نامی صارف نے بھی بی جی پی کی جانب سے پوسٹ کیے گئے کارٹون کا موازنہ سنہ 1935 میں جرمنی میں شائع ہونے والے ایک کارٹون سے کیا جس میں یہودی، کمیونسٹ اور نازیوں کے دوسرے دشمنوں کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیکھا جا سکتا ہے

انہوں نے لکھا کہ دیکھیں دوسری جانب بھارت کی حکمران جماعت کے ٹویٹر ہینڈل سے کی گئی پوسٹ ہے

ڈاکٹر سنگیتا مہا پترا نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ٹویٹ دہشت گردوں کے بارے میں نہیں ہے۔ آپ نے صرف مسلمانوں کو دکھایا ہے۔ آپ نے مسلمانوں کو دہشت گرد دکھا کر بہت بُرا تاثر دیا ہے۔‘

سنگیتا نے مزید لکھا کہ بی جے پی کے سرکاری ہینڈل سے کی گئی یہ ٹویٹ بھارت میں رہنے والے ان لوگوں کے لیے بہت حیران کُن اور انتہائی ناگوار ہے جو کسی قسم کی فرقہ وارانہ سوچ نہیں رکھتے

مصنف سلمان انیس نے گجرات پولیس سے پوچھا کہ کیا وہ مسلمانوں کو پھانسی کے قابل قرار دینے والی توہین آمیز پوسٹ کے لیے بی جی پی گجرات کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے؟

انہوں نے پوچھا کہ ’کیا یہ اشتعال انگیزی نہیں؟ اگر ہندوؤں کو اس طرح دکھایا جائے تو کیا پولیس کارروائی نہیں کرے گی؟‘

ساتھ ہی بھارتی پولیس سروس کو ٹیگ کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا ’آپ آئین کے لیے کام کر رہے ہیں یا بی جے پی کے لیے؟‘

آسٹریلیا سے آئن ولفورڈ نے بھی بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا آپ کو بہت اچھی طرح پتا ہے کہ آپ کیا پیغام دے رہے ہیں۔ گجرات میں بی جے پی پارٹی کے آفیشل اکاؤنٹ ہوتے ہوئے آپ اپنے 1.5 ملین فالورز کو نسل کشی کا پیغام دے رہے ہیں

انہوں نے اسے حیران کُن قرار دیا اور لکھا ’آپ نے ایک گھٹیا حرکت کی ہے اور دنیا بھر سے اس کی مذمت ہونی چاہیے۔‘

پاکستان میں بھی اس ٹویٹ پر شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔

صحافی حامد میر نے ٹویٹ کیا کہ ’انتہا پسند حکمران جماعت سب مسلمانوں کو پھانسی پر لٹکانے کا عزم رکھتی ہے جبکہ پاکستان کے مسلمان ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں اور یہاں کے ارباب اختیار بھی اختلافی آوازوں کو قتل کرنے کے لیے نئے نئے حربے اختیار کر رہے ہیں۔‘

ثنا سعید نے لکھا ’ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کو مارنے کی وکالت کرنے والی یہ تصویر گجرات بی جے پی نے اپنے پلیٹ فارمز پر شیئر کی ہے۔ بی جے پی بھارت کی حکمران جماعت ہے. گجرات وہی ریاست ہے، جہاں مودی کے دورِ حکومت میں 2002 میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تھا۔ امریکا کی ملی بھگت سے بھارت میں نازی ازم پروان چڑھ رہا ہے۔‘

فیسبک پر مختلف بھارتی صارفین نے پوسٹ پر دیے گئے ردعمل میں اسے افسوسناک قرار دیا تو باقی صارفین سے بھی درخواست کی کہ وہ اسے رپورٹ کریں

بی جے پی کے حامی صارفین نے معاملے کا دفاع کرتے ہوئے لکھا کہ ’بی جے پی ایسی اکلوتی سیاسی جماعت دکھائی دیتی ہے، جو ووٹوں کے بجائے ملک کا خیال کرتی ہے۔‘

بی جے پی کی سوشل میڈیا پوسٹ پر تبصرہ کرنے والے صارفین نے اسے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے خلاف خطرات بڑھانے سے تعبیر کیا تو کئی ایسے بھی تھے جنہیں یہ نفرت میں اضافے کی وجہ لگا

سوشل میڈیا پر جاری گفتگو کے دوران مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے بھارتی حکمراں جماعت کے طرزفکر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وزیراعظم نریندرا مودی کے علاقے گجرات سے اس قسم کی آوازیں سامنے آنا معمولی نہیں ہو سکتا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close