’ہینک دی ٹینک‘، امریکی حکام کو پانچ سو پاؤنڈ وزنی ریچھ کی تلاش کیوں ہے؟

ویب ڈیسک

کیلیفورنیا – امریکی ریاست کیلیفورنیا میں حکام پانچ سو پاؤنڈ وزنی ایک کالے ریچھ کو پکڑنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں

اس ریچھ کو ’ہینک دی ٹینک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے

برطانوی اخبار گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکام کے مطابق ہینک کو اس کے غیرمعمولی وزن کی وجہ سے پہچانا جا سکتا ہے اور وہ گھروں میں داخل ہو کر خوراک تلاش کرتا ہے

محکمہ جنگلات کے مطابق مغربی امریکا میں کالے ریچھ کا اوسطاً وزن ایک سو پاؤنڈ سے تین سو پاؤنڈ تک ہوتا ہے، جبکہ ہینک دی ٹینک کا وزن عام ریچھ سے کہیں زیادہ یعنی پانچ سو پاؤنڈ ہے

گزشتہ جولائی سے ہینک ساؤتھ لیک تاہو اور آس پاس کے علاقوں کے کم از کم اٹھائیس گھروں میں داخل ہوا، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ کھانے کا عادی ہے

ہینک دی ٹینک نے املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے، جس کی تیس سے زیادہ رپورٹس درج ہوئی ہیں

جبکہ مجموعی طور پر مقامی افراد نے ہینک کے بارے میں پولیس کو کم از کم ایک سو دو رپورٹس درج کرائی ہیں

کیلیفورنیا کے محکمہ جنگلات کے ترجمان پیٹر ٹیرا نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’جنگل میں جانے کی بجائے بچا ہوا پیزا تلاش کرنا آسان ہے۔‘

رہائشی علاقوں میں داخلے سے روکنے کے لیے حکام نے ایسے اقدامات کیے ہیں، جن سے ریچھوں کو چِڑ ہوتی ہیں تاہم حکام کی جانب سے اونچی آواز میں سائرن بجانے اور فائرنگ سمیت تمام طریقے کارآمد ثابت نہیں ہو سکے

پیٹر ٹیرا کے مطابق یہ ایک ایسا ریچھ ہے جس نے لوگوں سے خوف ختم کر دیا ہے، اور خوف کا ختم ہو جانا ممکنہ طور پرخطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘

کیلیفورنیا کے بیئر لیگ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر این برانٹ کا کہنا ہے یہ واضح نہیں کہ اس ریچھ کا وزن انسانوں کی خوراک کی وجہ سے بڑھا ہے

جمعے کو ساؤتھ لیک تاہو کی پولیس نے ہینک کے ایک گھر میں داخل ہونے کی رپورٹس پر کارروائی کی۔ ہینک ایک چھوٹی سے کھڑکی کے ذریعے گھر میں داخل ہوا تھا، تاہم وہ پولیس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا

تاحال ہینک دی ٹینک کو پکڑنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ حکام نے کہا ہے کہ ریچھ کو مارنے کے آخری آپشن پر بھی غور کیا جا رہا ہے

لیکن پیٹر ٹیرا اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے، کا کہنا ہے ”ہینک دی ٹینک صرف یہاں بیٹھتا اور کھاتا ہے۔ وہ ان پر حملہ نہیں کرتا۔ وہ غُراتا نہیں۔ نہ ہی وہ ڈراؤنی شکل بناتا ہے تو پھر کیوں اس کو مارا جائے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close