پاکستانی آم اب بھارتی درختوں پر اگیں گے۔۔ چونسہ کے سفر کی دلچسپ کہانی

ویب ڈیسک

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس بادشاہ کی نسل سے سندھڑی اور چونسا اہم ہیں یا یوں کہہ لیں کہ اس شاہی خاندان کے شہزادے ہیں اور ذائقے کے اعتبار سے اپنی مثال آپ۔۔

حال ہی میں پڑوسی ملک انڈیا کے مغربی صوبہ مہاراشٹر کے خوبصورت شہر پونے کے مضافات میں پاکستان کے چونسہ آم کی کامیاب پیوند کاری بھارت کے کیسری آم کے پیڑ کے ساتھ کی گئی ہے۔ اب اس میں بس پھل لگنے کا انتظار ہے۔

بھارت اور پاکستان میں بسے منقسم خاندانوں کے درمیان ازدواجی رشتے ہونا تو عام بات ہے لیکن اب دونوں ملکوں کے پیڑوں کے درمیان بھی اس طرح کے رشتہ قائم ہونا ایک دلچسپ اور خوش آئند امر ہے

پھلوں کے اس خوبصورت رشتے کو دونوں ملکوں کے درمیان امن مساعی کے کارکن ایک خوبصورت نام بھی دینا چاہتے ہیں۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ آم کی اس قسم کا نام وہ دوستي رکھنا چاہیں گے

امن کوششوں کے یہ کارکن امید کرتے ہیں کہ یہ پھل دونوں ملکوں کے تلخ تعلقات کو مٹھاس میں تبدیل کر دے گا اور دنیا بھر میں مشترکہ پھل کے روپ میں اس کی مارکیٹنگ کی جائے گی۔

یہ کارکن اس کی افتتاحی فصل کو انڈیا اور پاکستان کے وزرائے اعظم کو تحفے کے طور پر پیش کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں

کیا امن کے حامی چند کارکن دونوں پڑوسی ملکوں کے تعلقات کی تلخی کو آم کے اس محبت کے شیریں ذائقے میں تبدیل کرنے کا کام کر ڈکتے ہیں، جو برسوں کی سفارتی کاری اور سیاست نہیں کر پائی۔

معروف انڈین لکھاری روہنی سنگھ لکھتی ہیں کہ یہ کہانی چند برس قبل شروع ہوئی، جب امنِ عالم کے لیے کام کرنے والے چند انڈین کارکنوں نے اپنے پیغام کو عام کرنے اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کی پرچار کے لیے سائیکل پر دنیا کے سفر کا ارادہ کیا۔ ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنے اور کئی ملکوں سے گزرنے کے بعد وہ جولائی 2022ع میں پاکستان پہنچے۔ پاکستان میں یہ قیام چوبیس دنوں پر محیط رہا۔

یہ وفد کراچی، شکارپور، ملتان ہوتے ہوئے وہ لاہور پہنچا۔ پاکستانیوں نے انہیں ہر جگہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی خوب آؤ بھگت کی۔ اس وفد کی قیادت کرنے والے یوگیش وشوا مترا پاکستان میں ملنے والی پذیرائی کو یاد کرتے ہیں

وفد کے واکر نتن نے بتایا کہ جب وہ لاہور سے روانہ ہو رہے تھے تو انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان سے انڈیا کچھ ایسی چیز لے جانا چاہتے ہیں جو دائمی ہو۔ ابھی وہ اس پر سوچ ہی رہے تھے کہ ایک کسان ارشاد احمد نے ان کو ایک گملہ تھما دیا، جس میں آم کی ایک قلم بوئی گئی تھی۔ یہ پاکستان کے یومِ آزادی یعنی چودہ اگست کا دن تھا۔

اب اس کو سرحدی محافظوں کی نظر بچا کر یا ان کی اجازت کے ساتھ سرحد پار کروانے کا مسئلہ درپیش آیا۔

نتن نے بتایا کہ وہ جانتے تھے کہ یہ سب آسان نہیں ہونے والا تھا۔ پاکستانی امیگریشن حکام ان کو بار بار تاکید کر رہے تھے کہ یہ گملہ سرحد پار نہیں لے جایا جا سکتا۔

افسران نے گملے کی مٹی ہٹا کر تسلی کی کہ اس کے اندر کوئی چیز اسمگل تو نہیں ہو رہی ہے۔

کئی گھنٹوں کی مغز ماری کے بعد اسی افسر کی نظر اس وفد کے ایک رکن جالندھر ناتھ چنولے کے سامان میں موجود بانسری پر پڑی اور اس نے اس کو بجانے کا حکم دیا

ہمارے وفد کے ممبر نے ایسی بانسری بجائی کہ امیگریشن کا پورا دفتر ہی وجد میں آ گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مذکورہ افسر خود بھی بانسری بجانے کے استادوں میں تھے

بانسری کی دھن نے کشیدگی کو شگفتگی میں بدل دیا۔ پورے عملہ کا رویہ ہی تبدیل ہو گیا۔

بس اس بانسری کے بدولت انہوں نے پودا لے جانے کی اجازت دی مگر خبردار کیا کہ ہم نے تو جانے دیا مگر انڈین امیگریشن اس کو آگے نہیں جانے دے گا۔

لیکن اس وفد کو بانسری اور میوزک کی طاقت اور قدر و قیمت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ بھارتی امیگریشن پر انہوں نے مہاتما گاندھی کے مشہور بھجن کی دھن گائی۔

اگست کی شدید گرمی میں پودے کے مرجھانے کا خطرہ تھا، اس لیے افسران نے ان کو پانی کی ایک بوتل عطیہ میں دی تاکہ پودا پُونا پہنچنے تک صحیح و سلامت رہے۔

نیتن کے مطابق اس پودے نے امرتسر سے دہلی کا سفر بس میں اور پھر دہلی سے پونے تک کا سفر ٹرین میں طَے کیا۔ اور 22 اگست کو پیس ہل گارڈن میں اس کو لگایا گیا۔

30 جنوری کو مہاتما گاندھی کے یوم شہادت کے موقع پر پاکستان سے آئے مہمان چونسہ کے پودے کی پیوند کاری مہاراشٹر کے مشہور آم کیسری کے ساتھ کی۔

یہ نیا درخت اب تین سال کا ہو چکا ہے اور تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔

پاکستان کے شہر لاہور میں بیٹھے ارشاد احمد درخت کی تصویر کو دیکھ کر خوش اور پُر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”یہ پودا نہ صرف امن بلکہ امید کی علامت ہے۔ پیس واکرز نے امید کا ایک ایسا بوٹا بویا ہے جو ایک دن جنوبی ایشیائی کے خطے میں نفرت اور کشیدگی کو محبت اور شگفتگی میں بدل دے گا۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کا قومی پھل آم ہے۔ اس پھل کی مشترکہ ورائیٹی، ایک مشترکہ وراثت کی بھی یاد دہائی کرائے گی۔

مصنفہ روہنی سنگھ کہتی ہیں، ”انتظار ہے کہ کب آم کی اس مشترکہ ورائیٹی کا پھل تیار ہو کر آ جائے اور ہم یوگیش اور نیتن کو اکبر الا آبادی کا یہ شعر یاد دلا دیں:
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے،
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے۔۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close