چند ماہ پہلے گوادر میں بڑی سرمایہ کاری کرنے والے کچھ باخبر دوستوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنا سرمایہ واپس کراچی منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔
وجہ پوچھی تو ٹال گئے۔ ظاہر ہے کہ اندر کی معلومات لیک نہیں کی جاتی وہ بھی ایک ایسے شخص کو جس کا کام ہی خبریں منتقل کرنا ہو۔ سرمایہ وہاں سے نکل کر کراچی آیا تو گوادر کا بوم، بم ہوگیا اور کراچی کا بوم، بوم بوم ہوگیا۔
چند روز پہلے پھر ملاقات کا شرف ملا تو انہوں نے بتایا کہ سی پیک کا گوارد روٹ وقتی طور پر رک گیا یا روک دیا گیا ہے۔ جب تک بلوچستان کے معاملات کسی کروٹ نہیں بیٹھتے اور صنعتیں لگانے اور چلانے کے لیے انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ ضروری چیزیں یعنی پانی، بجلی اور گیس کا مناسب بندوبست نہیں ہوجاتا تب تک سی پیک کراچی سے چلے گا۔
چینی مصنوعات کی ترسیل کے لیے پہلے مرحلے میں بن قاسم اور کراچی پورٹ کا استعمال کیا جائے گا اور پھر بیرونی اور اندرونی معاملات دیکھتے ہوئے کچھوے کی چال سے آگے بڑھا جائے گا۔
یوں سمجھ آگیا کہ چند ماہ پہلے انہوں نے سرمایہ وہاں سے کیوں نکالا۔ تھوڑا اور کھنگالا تو معلوم ہوا کہ سی پیک کے تحت ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی کے قریب دھابیجی میں انڈسٹریل زون بنایا جارہا ہے جسے بعد میں خصوصی اقتصادی زون میں تبدیل کیا جائے گا۔
سی پیک کے تحت پہلے مرحلے میں صنعتیں یہیں لگیں گی کیونکہ یہاں انفراسٹرکچر بھی ہے اور پانی، بجلی، گیس بھی۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ بن قاسم پورٹ آدھے گھنٹے اور کراچی پورٹ ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
تھوڑی سوچ بچار کی تو دھابیجی میں اچانک زمین کی قیمتوں کو پَر لگنے کی وجہ نظر آنے لگی۔ لیکن یہاں بھی قانونی سقم کی وجہ سے معاملہ کچھ پھنس گیا۔
عدالت میں زیرِ التوا فیصلے کی وجہ سے سندھ حکومت وفاق سے وعدہ کرنے کے باوجود اس مقصد کے لیے 1500 ایکڑ زمین فراہم نہ کرسکی اور شاید یہی وجہ ہے کہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین نے برملا کہہ ڈالا کہ وزیرِاعظم دھابیجی انڈسٹریل زون میں بے بنیاد اور کمزور قانونی چارہ جوئی کے باعث ہونے والی تاخیر سے کافی پریشان ہیں۔
وزیرِاعظم کے حالیہ دورہ چین میں چینی حکومت اور سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کے عدم تسلسل کا معاملہ اٹھایا تو انہیں یقین دلایا گیا کہ حکومت مستحکم ہے اور ہرصورت پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا، خاص کر سی پیک پر کسی سرد یا گرم موسم کا اثر نہیں پڑے گا۔
وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ چین کے بعد حالیہ دورہ روس اور ساتھ ہی امریکا پر کھل کر تنقید پاکستان کی جانب سے سمت کی تبدیلی کے واضح اشارے دے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ پاکستان کی صنعتی اور اقتصادی ترقی میں سنگِ میل ثابت ہوں۔
دوسری جانب حکومتِ پاکستان نے ریکوڈک میں موجود سونے، تانبے اور دیگر معدنی ذخائر پر نئے معاہدے اور سینڈک منصوبے پر کام میں تیزی سے بھی بہتری کی امیدیں باندھ لی ہیں۔ سرکاری حلقوں کا ماننا ہے کہ سی پیک، ریکوڈک اور سینڈک بھرپور رفتار پکڑ لیں تو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے یا کشکول اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اگر ان باتوں کو درست مان لیا جائے تو بھی چینی سرمایہ کاروں کے اٹھائے گئے تحفظات یعنی سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ اور پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنا بہت ضروری ہوگا۔ اس کے بغیر نہ کوئی خواب پورا ہوگا، نہ کوئی کوشش بارآور ثابت ہوگی اور مستقبل بھی ڈولتا رہے گا۔
بحوالہ: ڈان نیوز