اسے آپ کے غصے سے ڈر لگتا ہے؟

حسنین جمال

’مجھے تمہارے غصے سے ڈر لگتا ہے۔‘ اگر کوئی آپ کو یہ کہے تو آپ کا پہلا رسپانس کیا ہوگا؟

چوڑے ہو جائیں گے آپ فوراً، اندر کھاتے سوچنے لگیں کہ واہ یار ہماری بھی ویلیو ہے، اگلا بندہ دبتا ہے ہم سے، وہ خوفزدہ ہو جاتا ہے، اپن تو بھیا شیر ہیں شیر!

ایسا ہے یا نہیں؟

ایک سال میں اگر پچاس مرتبہ آپ کو غصہ آیا ہو تو اس میں سو بٹا سو جینوئن والا غصہ کتنی مرتبہ تھا اور سامنے والے کو ڈرانے کے لیے آپ نے کتنی بار غصہ کیا۔ ٹیک لگائیں اور سوچیں۔

جواب جو بھی آتا ہے، اس سے ہٹ کے پچاس کی پچاس مرتبہ یہ غصہ غلط تھا۔

دو پہلوؤں سے آپ کے غصے کو دیکھنے کی تھوڑی سی کوشش کی جا سکتی ہے۔

پہلے تو یہ سوچیں کہ بچپن میں آپ کو اندھیرے سے ڈر لگتا ہوگا، جن بھوتوں کی دہشت تھی، چھپکلی یا کیڑے مکوڑوں سے خوف آتا ہوگا۔۔۔ یہ جتنے بھی ڈر تھے، بالآخر وہ نفرت میں تبدیل ہو گئے۔ آپ نے ان ساری چیزوں سے بچنے کی جدوجہد شروع کر دی اور بڑے ہونے تک کچھ ایسی چیزوں پر قابو پا لیا، لیکن کچھ خوف اب بھی آپ کے ساتھ لٹک رہے ہوں گے۔

جو بھی ڈر یا فوبیا آپ کے ساتھ چپکا ہوا ہے، کیا آپ اس سے پیار کرتے ہیں یا چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ آپ اپنے ڈر سے باقاعدہ نفرت نہیں کرتے؟

جی باس۔۔۔ یہی والی نفرت بنیادی طور پہ اس بندے کے اندر کہیں چھپی ہوتی ہے، جس نے آپ سے کہا تھا کہ اسے آپ کے غصے سے ڈر لگتا ہے۔ وہ غریب خوفزدہ ہے اور آپ چوڑے ہوتے نہیں تھک رہے۔ اسے ڈر ہے کہ غصے میں اسے آپ کوئی نقصان پہنچا دیں گے اور یا پھر ایسا کچھ ہو جائے گا کہ جس سے آپ کا تعلق اس سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہی ڈر والی کیفیت کسی نہ کسی دن نفرت میں بدل جائے گی۔ تب آپ کیا کریں گے؟

دوسرا پہلو یہ ہے کہ غصہ اصل میں کمزوری ہے، اس کا دور دور تک بہادری سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔

آپ جب پریشان ہوتے ہیں اور کوئی دوسرا حل آپ کو سمجھ نہیں آ رہا ہوتا، تو آپ غصہ کر کے معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں، یعنی غصہ ادھر سے شروع ہوتا ہے، جہاں عقل ہاتھ باندھ لیتی ہے۔

انسانی دماغ کس حالت میں کام نہیں کرتا؟ آپ نشے میں ہوں یا دیوانے ہو گئے ہوں، تیسری کیفیت صرف نیند کی ہوتی ہے؛ تو جس وقت عقل نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اور آپ کچھ بولنے جا رہے ہیں، کوئی فیصلہ کر رہے ہیں، کوئی بھڑاس نکال رہے ہیں، کتنا امکان ہے کہ وہ سب کچھ عین اسی طرح ہوگا، جس طرح آپ کی خواہش ہو؟

یقین کریں نشہ یا باؤلا پن بھی اتنا خطرناک نہیں ہوتا، جتنا خود آپ کے حق میں آپ کا غصہ ہو سکتا ہے!

تکلیف میں ہیں، دکھ ہے، پریشانی ہے، چیزیں ہاتھ سے نکلتی دکھائی دے رہی ہیں، بحث ختم کرنا چاہتے ہیں، انا داؤ پہ لگی ہوئی ہے، کوئی کام مرضی کے خلاف ہو رہا ہے تو غصہ آنا فطری ہے، لیکن اس حد تک غصہ آنا کہ اسے نکالنے کے بعد لوگ آپ سے ڈرنے لگیں، یہ مکمل غیر فطری ہے۔

اپنی موجودہ زندگی کو سوچیں، آس پاس دیکھیں، یاد کریں کہ آپ کتنا کچھ برداشت کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ تصور کریں کہ اس عمارت کی بنیادوں میں سے کچھ اینٹیں نکال لی جائیں، کیا ہوگا؟ عمارت گِر سکتی ہے، پوری زندگی داؤ پہ لگ سکتی ہے، عین اس جگہ تک دوبارہ آنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں اور کیا خبر کبھی آپ دوبارہ یہاں تک آ بھی سکیں گے یا نہیں؟

تو غصہ وہ چیز ہے، جو بنیادی طور پہ آپ کی بنی بنائی، ویل ڈیکوریٹڈ عمارت کی جڑیں آہستہ آہستہ کاٹ رہا ہے۔ بنیادوں میں سے اینٹیں سرکتی جا رہی ہیں اور آپ کو اندازہ نہیں ہو رہا!

یہ والی کہانی بھول جائیں کہ ’غصہ اصل میں کتھارسس ہوتا ہے اور کبھی کبھار انسان کے لیے غصہ کرنا بھی ضروری ہے۔‘

ایسا نہیں ہے، اس وقت تو بالکل بھی نہیں کہ جب آپ کو پتہ ہو کہ آپ کے غصے سے کوئی ڈرتا ہے کیونکہ غصہ پیسے کی طرح ہے، جس طرح پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے، ایسے ہی غصہ مزید غصے کو جنم دیتا ہے۔

ایک بار ’کامیابی سے‘ غصہ نکالنے کے بعد آپ مزید ایسے موقعے ڈھونڈتے ہیں کہ جب وہی سب کچھ دوبارہ کیا جا سکے اور فائنلی وہ موڑ کہیں نہ کہیں آ جاتا ہے، جس وقت آپ سب کچھ داؤ پہ لگا دیتے ہیں۔

’غصہ قابو نہیں ہوتا، سمجھ نہیں آتی کس وقت یہ سب ہو جاتا ہے، مجھے پتہ ہی نہیں چلتا اور منہ سے ایسا ویسا کچھ نکل جاتا ہے، کیسے کنٹرول کروں؟ کیا مجھے بلڈ پریشر چیک کروانا چاہیے؟‘

ایسے لاکھوں سوالوں کے جواب ڈاکٹروں کے پاس موجود ہیں اور انٹرنیٹ پہ بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔

جو بات میں یہاں کہنا چاہتا ہوں، وہ صرف یہ ہے کہ غصے کا انجام نفرت ہے۔ جو آپ سے ڈر رہا ہے، عنقریب اسے آپ سے نفرت ہو سکتی ہے یا وہ آپ کو دماغی مریض سمجھتا ہے۔

ایسے کسی بھی انجام سے اپنے آپ کو خود آپ ہی بچا سکتے ہیں اور بچنے کے لیے اس حقیقت پہ یقین کرنا پڑے گا کہ ڈر کے پیچھے نفرت ہے اور کسی دوسرے کو غصے سے دبا دینا بہادری نہیں ہوتی!

ایک سوال اور ہے، اس کا جواب خود سوچیں کہ غصہ اپنے سے کمزور پہ ہی کیوں نکلتا ہے؟ طاقتور کوئی سامنے ہو تو اس غصے کو لگامیں کیوں ڈل جاتی ہیں؟

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close