ایک نئی سرد جنگ کی دہکتی آگ کی طرف بڑھتی دنیا

ویب ڈیسک

کراچی – نومبر 1989ع میں جب جرمنی کی دیوار برلن کو گرایا گیا تھا، تو سمجھا یہ جا رہا تھا کہ دنیا کی مشرق اور مغرب کی پرانی تفریق اب تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی گئی ہے، لیکن روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد دنیا کے حالات بڑی حد تک ایک عہد کے خاتمے اور ایک نئے عہد کی شروعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جہاں سرد جنگ کی دہکتی آگ ہماری منتظر ہے

کچھ عرصہ قبل سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کے درمیان نظریاتی اختلاف ختم ہو گیا تھا، اس وقت ایک ایسے احساس نے جنم لیا تھا کہ بنیادی طور پر ہم سب ایک ہی سمت میں بڑھ رہے ہیں

مشرقی جرمنی میں مقیم اور ایک زمانے میں روس کی بدنام زمانہ انٹیلیجنس ایجنسی ‘کے جی بی’ میں جاسوسی کے فرائض سرانجام دینے والے ولادیمیر پیوٹن کے لیے اس وقت بھی مشکل یہ تھی کہ پرانے سوویت یونین کا انہدام ان کے لیے ایک تلخ ذاتی ناراضگی میں تبدیل ہو گیا تھا، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی گئی، دنیا اس سے قبل بھی ایسی رنجشوں کے نتیجے میں تباہی کے تجربات سے دوچار ہوتی رہی ہے

ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین، جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھا، اس کا روسی فیڈریشن سے الگ ہو جانا، پیوٹن کی نظر میں ایک طرح کی بے عزتی تھی

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ روس نے نئی یوکرینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے تھے، لیکن دل کی بات الگ ہے. روسیوں کے دلوں کے اوراق اب بھی اس دستخط سے محروم ہیں

حالیہ حملے سے قبل سنہ 2014ع میں صدر پیوٹن نے اپنے فوجی بھیج کر یوکرین کے سب سے زیادہ علامتی روسی علاقے کریمیا پر دوبارہ قبضہ کرنے کا راستہ نکال لیا تھا

انہوں نے اسے ملک کے دیگر حصوں سے کاٹ کر رکھ دیا تھا اور بعد ازاں وہاں کی بیشتر نسلی روسی آبادی کا ریفرنڈم کروا کر انہوں نے اسے روس کا حصہ بنا لیا تھا

یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے خلاف تھا، لیکن مغرب پھر بھی اس بات پر بضد رہا کہ وہ پیوٹن کے روس کے ساتھ کاروبار کر سکتا ہے. اس دنیا میں یوں بھی ہر ایک اپنے اپنے مفادات کا قیدی ہے. کیا آپ کو اس دنیا میں ایسا کوئی ملک نظر آتا ہے، جس نے ایک جھوٹ کی بنیاد پر عراق اور افغانستان کو کھنڈر اور لاکھوں عراقیوں اور افغانوں کو لہو میں نہلانے پر امریکا اور یورپ کے خلاف ایک لفظ بھی بولا ہو. دراصل منافقت اس دور کی دپلومییسی ہے اور کاروبار کی پہلی اور آخری شرط بھی

سو دنیا کی جانب سے ایسا ہی روس کے یوکرین پر پہلے حملے کے وقت بھی کیا گیا، اس وقت بھی تقاریر کی گئیں اور پابندیاں عائد کی گئی تھیں، لیکن ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا، جس نے صدر پیوٹن یا ان کے ساتھیوں کو اس بارے میں ایک دفعہ بھی سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا ہو

ایسا ہی کچھ اس وقت بھی ہوا تھا جب پیوٹن کے دشمن یا روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے پرانے افراد یا ایف ایس بی میں اس کے جانشینوں کو غدار قرار دیا گیا، یا انہیں زہر دیا گیا یا برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں انہیں ٹھکانے لگایا گیا تھا

مغرب نے روس کو خبردار کیا تھا اور نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں، لیکن پیوٹن کا روس ان پابندیوں کے ساتھ جینے کو تیار تھا

گذشتہ دس برسوں میں روس نے چین کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر ایک نیا بلاک بنانا شروع کیا، جو لازمی نہیں کہ مغرب کے لیے جارحانہ عزائم رکھتا ہے، لیکن یہ بلاک مغربی تنقید کی صورت میں ایک دوسرے کو مدد فراہم کرتا ہے

چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر پیوٹن نے یہ مشترکہ گروپ تشکیل دیا ہے، جس کے بعد چین، روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے سے انکاری ہے اور تائیوان جو چین کے زیر اثر ہے اور جس کے بارے میں چینی صدر نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ وہاں حملہ نہیں کریں گے، اب وہاں کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا اگلی باری ان کی ہے؟

اگر ایسا ہے تو مجموعی طور پر یہ دنیا آج سے چند سال پہلے کی نسبت رہنے کے لیے ایک بہت بری جگہ بن چکی ہے

اگر موازنہ کیا جائے تو پرانی سرد جنگ کے دوران کے سال بہت آسان تھے اور دنیا کے بہت سے حصوں پر حکمرانی کے اصول کافی واضح تھے

اگر ایک ملک دوسرے بلاک کے ملک پر حملہ کرتا تو مشترکہ تباہی کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا۔ لہٰذا ایسا کبھی نہیں ہوا، حالانکہ ایک سے زیادہ مرتبہ جنگ بہت حد تک قریب آ چکی تھی

لیکن کمیونزم کے خاتمے کے بعد سے پرانے اصولوں کی کتاب کو پھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ اب سرحدیں اتنی مبہم ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ ریڈ لائن کہاں ہے؟

اگر ماضی کی جھلک میں دیکھا جائے تو اب بھی بہت کچھ ویسا ہی شروع ہو رہا ہے۔ چند سیاستدانوں اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ شاید نیٹو کو دیوار برلن کے گرنے کے بعد اپنے نظریہ کو مکمل طور پر تبدیل کر دینا چاہیے تھا

اسے مشرقی یورپ میں موجود اپنے پرانے سیٹلائٹس کو استعمال کرتے ہوئے ماسکو کی تذلیل نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اور انہیں اس طرح ایک ساتھ قطار میں کھڑا نہیں کرنا چاہیے تھا، جس سے بظاہر پیوٹن کے روس کو تصادم کا راستہ اپنانا پڑا

یہ تجویز، کہ ایک دن شاید یوکرین بھی نیٹو اتحاد میں شامل ہو جائے (جبکہ ایسا ہونے کی توقع بہت کم ہے)، اور کریملن پر چڑھائی کر دے اور روسی صدر پیوٹن کو اس بات پر اکسانے پر مجبور کر دے کہ وہ ہمیشہ کے لیے یوکرین کے مسئلے سے نمٹ لیں

سب جانتے ہیں کہ یہ ان کی پالیسی ہے اور صرف ان اکیلے کی ہی پالیسی ہے۔ متعدد روسی سیاستدان اور حتیٰ کہ چند اہم فوجی شخصیات بھی کسی حملے کے خلاف پہلے ہی سامنے آ گئے۔ لیکن پیوٹن اپنی پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹے

اب اگر وہ یہ داؤ جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں اس کو مکمل کرنا ہے اور روس کو اس جنگ میں ایک واضح فاتح کے طور پر سامنے آنا ہے۔ لیکن اس قسم کی عسکری مہمات غلط نتائج کے لیے بدنام ہیں

آٹھ برس قبل پیوٹن کریمیا میں کامیاب ہوئے تھے اور اپنے ملک میں ان کی ساکھ کو بہت سہارا اور مضبوطی ملی تھی

شاید وہ یوکرین فوج کے بیچ سے راستہ بناتے دوبارہ کامیاب ہو جائیں اور کچھ اہم فائدے بھی حاصل کر لیں اور پھر تیزی سے وہاں سے انخلا کریں اور وکٹری پریڈ کا انعقاد کریں

ایسا بالکل ممکن ہے۔ لیکن ذرا سوچئے کہ اگر ایسا نہیں ہوتا، اگر روسی فوج کا بھاری جانی نقصان شروع ہو جائے اور روس پر عائد پابندیوں پر عمل درآمد شروع ہو جائے تو پیوٹن کی اپنی ساکھ اور پوزیشن متاثر اور غیر مستحکم ہوگی اور انہیں لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں

اس وقت وہ کیا کریں گے؟ اس کا صرف ایک ہی جواب ہے، اور وہ ہے: داخلی سطح پر ہونے والی کسی بھی تنقید کو قومی سلامتی کے نام پر پہلے سے زیادہ زور اور طاقت سے دبا دینا!

روس اب ماضی کے مقابلے میں حیران کن طور پر زیادہ آزاد معاشرہ ہے۔ یقیناً اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ روس کی معیشت متاثر ہوگی اور ایسے میں چینی مدد نقصان کا ازالہ نہیں کر سکے گی

لہٰذا ولادیمیر پیوٹن، جن کے بارے میں بظاہر یہ خیال ہے کہ انہوں نے سوویت یونین کے خاتمے پر تیس سالہ پرانی رنجش کے باعث یوکرین پر حملہ کیا ہے، شاید روس کو سوویت یونین کے دور میں واپس لے جائیں

مغرب جس نے ایک طویل عرصے تک یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ روس دیگر ممالک کی طرح محض ایک عام ملک ہے، جس کے ساتھ کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ اس کو شاید یہ دھچکا لگے کہ سرد جنگ کے پرانے دن اور وہ بھی زیادہ شدت کے ساتھ لوٹ آئے ہیں.

مذید خبریں:



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close