کراچی کی ”روشنی باجی“ اور ان کا انوکھا مشن

نیوز ڈیسک

کراچی – کراچی کے ضلع کورنگی سے تعلق رکھنے والی عبیرہ الماس ایک انوکھے مشن پر ہیں. وہ اپنے علاقے میں گھر گھر جا کر لوگوں کو بجلی کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہیں، تاکہ وہ بجلی کے غیر محفوظ استعمال سے ہونے والے نقصانات سے محفوظ رہ سکیں

ساتھ ہی وہ اہل خانہ کو بجلی کے مناسب استعمال اور بجلی کے بل تفصیلاً پڑھنے کے بارے میں بھی آگاہی دیتی ہیں

کورنگی کے پسماندہ علاقے میں کام کرنے والی عبیرہ الماس یہ کام بطور ’روشنی باجی‘ کرتی ہیں، جو کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے ’کے الیکٹرک‘ کا منصوبہ ہے، جس کا آغاز گذشتہ سال کیا گیا

’روشنی باجی‘ نامی اس پروگرام کو ’کے الیکٹرک‘ کی جانب سے کراچی میں بجلی کے محفوظ استعمال کے سلسلے میں اہم منصوبہ قرار دیا جاتا ہے، جس کے تحت اب تک چالیس خواتین کو تربیت دے کر کراچی کے مختلف علاقوں، خاص کر کچی آبادیوں، میں بھیجا جاتا ہے، تاکہ وہ لوگوں میں بجلی کے محفوظ طریقہ استعمال کی بابت آگاہی دے سکیں. عبیرہ الماس بھی ان چالیس خواتین کی ٹیم کا حصہ ہیں

دو بچوں کی والدہ عبیرہ نے اگرچہ یہ کام بطور ملازمت اختیار کیا، کیونکہ انہیں روزگار کی ضرورت تھی، مگر اب وہ اسے ایک چیلنج کے طور پر کر رہی ہیں

عبیرہ کہتی ہیں کہ ”گھر اور کام کے درمیان توازن رکھنا مشکل ہے، لیکن جب کچھ کرنے کا عزم ہو تو پھر کچھ مشکل نہیں رہتا. صبح سویرے اٹھ کر ناشتا بنانا، بچوں کو تیار کر کے اسکول بھیجنا، پھر خود تیار ہو کر کام پر نکلنا اور شام کو گھر اور بچوں کو سنبھالنا، یہ ہے تو مشکل تاہم ان معاملات کو خوش اسلوبی سے انجام دے دیتی ہوں“

زرفشاں اکرم بھی کے الیکٹرک کے پروگرام روشنی باجی سے منسلک ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ”شروع میں جب میں یونیفارم پہن کر گھر سے نکلتی تھی، تو محلے والے حیران ہوتے تھے کہ میں کیا کرنے جا رہی ہوں. جب انہیں میرے کام کا پتا چلا اور میں نے اپنے محلے میں لوگوں کو بجلی کے استعمال کے محفوظ طریقہ کار بتائے تو وہ بھی اس پروگرام کے قائل ہوتے گئے“

کے الیکٹرک اپنے اس پروگرام کو جہاں خواتین کی معاشی خود مختاری کے لیے اپنی کوششوں کا حصہ قرار دیتا ہے، وہیں اسے بجلی کے محفوظ استعمال کے لیے ان قومی کوششوں کا حصہ بھی قرار دیتا ہے جو پاور کے شعبے کے ریگولیٹر نیپرا کی جانب سے بجلی کے محفوظ طریقہ استعمال کے سلسلے میں ہدایات کی صورت میں جاری کی گئی ہیں

عبیرہ الماس نے بتایا ”گریجویشن کے بعد مجھے ملازمت نہیں مل رہی تھی۔ جب اس پروگرام کے بارے میں اپنی دوستوں کے ذریعے پتا چلا تو میں نے اس کے لیے درخواست دی اور مجھے اس کی تربیت کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ روشنی باجی کا کام فیلڈ ورک کا ہے، جو مشکل ہوتا ہے تاہم جب موقع آیا تو میں نے عزم کیا کہ مجھے ڈرنا نہیں ہے اور یہ کام کرنا ہے“

انہوں نے کہا ”میں نے یہ کام خود پسند کیا اور گھر والوں کو مطمئن کیا۔ آج کل کے دور میں ملازمت کرنا مجبوری بن چکا ہے تاہم اب میں معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑی ہوں اور مجھے ہر مہینے ایک معقول رقم مل جاتی ہے۔ اپنے فیصلے اب میں خود لے سکتی ہوں“

زرفشاں اکرم کہتی ہیں”مجھے بھی دوستوں سے اس پروگرام کے بارے میں پتا چلا تو میں نے ملازمت کے لیے درخواست دی۔ میں نے بھی مجبوری کے تحت کام شروع کیا کیونکہ میں پہلے کسی اور جگہ کام کرتی تھی لیکن وہاں کام بند ہوا تو پھر میں نے اس پروگرام میں ملازمت شروع کر دی“

گھر والوں اور محلے والوں کے ردعمل کے بارے میں بتاتے ہوئے
عبیرہ کہتی ہیں ”میرے گھر والوں کو بھی روشنی باجی پروگرام کا پتا نہیں تھا اس لیے وہ بھی کنفیوز تھے۔ انہوں نے کہا روشنی باجی پروگرام کا انٹرویو دے کر آؤ۔ جب میں انٹرویو دینے گئی تو مجھے پتا چلا کہ روشنی باجی کا سارا کام فیلڈ ورک ہے۔ جب پہلے دن کام شروع کیا تو مجھے نہیں پتا تھا کہ لوگوں کو کیسے قائل کرنا ہے. لیکن جب آہستہ آہستہ کام کرنا شروع کیا تو مجھے پتا چلا کہ خواتین کا گلیوں میں جا کر فیلڈ ورک کرنا کوئی عجیب بات نہیں“

وہ کہتی ہیں ”میرے شوہر بہت اچھے ہیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ روشنی باجی پروگرام کا کیا مقصد ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھ پر اعتماد کریں گے تو میں لوگوں کو سمجھا پاؤں گی“

زرفشاں اکرم نے بتایا ”جب پہلی بار فیلڈ میں قدم رکھا تو ڈر تو بہت لگا کہ لوگوں کا رویہ کیسا ہوگا اور کیا میں یہ کام کر بھی سکوں گی یا نہیں؟ تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری۔ پہلے لوگوں کی سُنی پھر ان کو اپنی سُنائی اور اس طرح لوگوں تک اپنا پیغام پہنچایا“

روشنی باجی کا کام فیلڈ ورک کا ہے، جس میں گھر گھر جا کر لوگوں کو بجلی کے غیر محفوظ طریقہ استعمال کے خلاف آگاہی دینا ہوتی ہے تاکہ وہ گھروں میں کرنٹ لگنے جیسے واقعات سے محفوظ رہنے کے ساتھ بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری بھی اپنائیں

عبیرہ الماس نے بتایا کہ ’فیلڈ ورک میں بعض لوگ گھر کا دروازہ بھی بند کر دیتے ہیں، بات نہیں سنتے تاہم انہیں بات سمجھانی پڑتی ہے۔ جب مرد دروازہ کھولتے ہیں تو گھر کی خواتین کو بلاتے ہیں کہ لیڈیز آئی ہیں، اہم انہیں کہتے ہیں کہ آپ بھی ہماری بات سُنیں کیونکہ سب کو آگاہی حاصل ہونی چاہیے۔‘

عبیرہ نے کہا کہ ’فیلڈ ورک کے دوران بعض لوگ تنگ بھی کرتے ہیں۔ ہمارے پیچھے ہوٹنگ بھی کرتے ہیں اور فقرے بھی کستے ہیں۔ جب لوگ دیکھ لیتے ہیں کہ ہمارے فائدے کی بات ہو رہی ہے تو پھر خود ہی شرمندہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے موبائل فون سے ایک پیغام جانے پر فوراً قریبی کے الیکٹرک مرکز کی ٹیمیں پہنچ جاتی ہیں۔‘

عبیرہ نے بتایا کہ ان کو اسی پروگرام کے تحت بنیادی مارشل آرٹس تربیت بھی دی گئی کہ ’اگر خدانخواستہ کوئی مشکل صورت حال پیش آ جائے تو کیسے دفاع کیا جائے۔‘

’اس دوران مجھے الیکٹریشن کی تربیت دی گئی۔ اس کے ساتھ موٹر سائیکل چلانے اور اس کی مرمت کی تربیت بھی فراہم کی گئی۔‘

زرفشاں نے بتایا کہ ’ابھی تک کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ مجھے اپنی مارشل آرٹس کی مہارت استعمال کر کے اپنا دفاع کرنا پڑا ہو۔‘

اس حوالے سے کے الیکٹرک ڈائریکٹر کارپوریٹ کمونیکشنز عمران رانا نے بتایا کہ ’جب روشنی باجی فیلڈ میں نکلتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک متاثر کن شخصیت لے کر نکلتی ہے۔‘

’ان کے ساتھ ہمارے مقامی دفاتر سے لے کر ہیڈ آفس تک رابطے میں ہوتا ہے اور اگر انھیں کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو فوراً ان کی مدد کو پہنچا جاتا ہے۔‘

’ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا اور عمومی طور پر لوگ روشنی باجی سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔

لیکن خدانخواستہ انھیں کوئی خطرہ ہو تو وہ خود اپنا دفاع کرنا جانتی ہیں اور کے الیکٹرک کا پورا سسٹم ان کے ساتھ کھڑا ہے۔‘

عمران رانا نے روشنی باجی پروگرام کے بارے میں بتایا کہ کراچی کا 60 فیصد علاقہ بغیر منصوبہ بندی کے آباد ہوا

ان علاقوں میں ہی کرنٹ لگنے اور بجلی کے غیر محفوظ طریقہ استعمال کی وجہ سے نقصانات کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں

انہوں نے بتایا کہ ’جب کراچی میں 2019ع میں بہت زیادہ کرنٹ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے اور ہماری تحقیقات سے پتا چلا کہ زیادہ تر واقعات گھروں کے اندر ہوئے ہیں اور ایسے طبقات اور علاقوں میں ہوئے کہ جہاں تک ہماری رسائی مشکل تھی تو یہ پروگرام ترتیب دیا گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’خواتین کو اس لیے چنا گیا کیونکہ مرد حضرات دن کے وقت گھروں سے باہر ہوتے ہیں اور خاتون خانہ مرد اسٹاف سے عمومی طور پر بات کرنے سے گھبراتی ہیں۔ ہم نے جب پروگرام شروع کیا تو انہی علاقوں سے چالیس خواتین کو منتخب کیا گیا تاکہ وہ آگاہی پیدا کر سکیں۔‘

اس کے علاوہ روشنی باجی کے طور پر کام کرنے والی خواتین ایک مثال بن چکی ہیں کیونکہ ’وہ ایسے علاقوں سے آتی ہیں جہاں خواتین کا کام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔‘

’اب یہ تمام خواتین سرٹیفائیڈ الیکٹریشن بھی ہیں، اگر ان کو ملازمت نہ بھی ملے تو یہ اپنا روزگار خود کما سکتی ہیں۔‘

رانا نے کہا کہ اس پروگرام کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور عالمی سطح پر اس پروگرام کی ستائش کی جا چکی ہے

عمران رانا کہتے ہیں ”جن علاقوں میں روشنی باجی پروگرام جاری ہے، وہاں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بجلی کے غیر محفوظ استعمال کے واقعات سے ہونے والے نقصانات میں کمی واقع ہوئی ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close