لندن – ”مجھے اگر ایک چارپائی مل جائے، ایک روٹی مل جائے اور اس کے ساتھ کھانے کو کوئی سالن مل جائے تو میں خوش رہوں گا۔ مجھے زندہ رہنے کے لیے کسی قسم کی عیاشی کی ضرورت نہیں ہے. حالانکہ ہماری زندگی بہت رنگین گزری ہے اور یوکرین میں ہمارے یہاں جو محفلیں ہوتی ہیں، ان کا کوئی جواب نہیں۔ سڑک پر آ کر لوگ آپ کے ساتھ سیلفیز لے رہے ہوتے ہیں۔ کئی لوگ آ کر کہتے ہیں ہم آپ سے بہت متاثر ہیں۔ لیکن میں نے اپنے آپ کو اس کا عادی نہیں بنایا ہے“
یہ الفاظ پاکستانی نژاد ارب پتی شخصیت محمد ظہور کے ہیں، جنہیں ’کیئف کا شہزادہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا انہیں ’اسٹیل کنگ‘ اور یوکرین کی انٹرٹینمنٹ صنعت کی ایک بڑی ہستی کے طور پر جانتی ہے
ان کی اہلیہ سنہ 2008ع میں مس ورلڈ کا ٹائٹل جیت چکی ہیں اور یوکرین کی مشہور گلوکارہ ہیں
محمد ظہور یوکرین کے صدر اور وزیراعظم جیسی ہستیوں کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہیں۔ گذشتہ گیارہ برسوں سے وہ یوکرین میں میوزک ایوارڈز کا انعقاد کروا رہے ہیں، جو اُن کے بقول ’گریمی‘ سے کم نہیں
کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد ظہور کو آج دنیا بھر میں اسٹیل کی دنیا کا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ سنہ 2008ع تک براہ راست اسٹیل کے کاروبار سے منسلک تھے۔ یوکرین اور برطانیہ سمیت دنیا میں ان کی کئی اسٹیل ملز تھیں۔ آنے والے برسوں میں انہوں نے یوکرین اور دنیا بھر میں اپنی اسٹیل ملز فروخت کر دیں
اس وقت وہ دنیا بھر میں اسٹیل کے کاروبار پر مشاورت اور لیکچر دینے کے علاوہ سرمایہ کاری کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ یوکرین میں انہوں نے ’کیئف پوسٹ‘ نامی ایک اخبار کو کئی سال تک چلایا تھا۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اخبار اپنی غیر جانبدارانہ پالیسیوں اور حکومت پر تنقید کی وجہ سے مقبول ہوا تھا، تاہم بعد میں انہوں نے اسے فروخت کر دیا
ظہور یوکرین پر روسی حملے کے بعد اس وقت لندن میں اپنے محل نما عالیشان گھر میں ریتے ہیں. ظہور نے دو شادیاں کیں، پہلی اہلیہ اب ماسکو میں رہتی ہیں اور ماسکو کے ساتھ بھی ان کا قریبی تعلق رہا ہے۔ وہ تیرہ برس ماسکو میں بھی رہے۔ وہاں بھی ان کے دوست رہتے ہیں
ظہور نے بتایا کہ ان کی دوسری اہلیہ کمالیہ ایسے کئی شوز میں گلوکاری کر چکی ہیں جہاں صدر پوتن بھی مہمانوں میں شامل تھے۔ کمالیہ کے والد کا تعلق ماسکو اور والدہ کا یوکرین سے ہے، تاہم کمالیہ خود کو یوکرینی ہی مانتی ہیں
حملوں کے تمام امکانات کے باوجود کمالیہ اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ ظہور نے بتایا ’22 فروری کو جب دنیا بھر کے نیوز چینلز حملے کے امکانات ظاہر کر رہے تھے تب بھی وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ روسی ہمارے بھائی ہیں وہ ہم پر حملہ نہیں کریں گے۔‘ اسی لیے ظہور کو انہوں نے بچیوں کے ساتھ پہلے لندن بھیج دیا تھا اور خود وہیں رہ گئی تھیں
ظہور نے کہا ’حکومت سمیت سو فیصد لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حملہ نہیں ہوگا۔ میرے ان سب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ صدر زیلینسکی میرے اور میری اہلیہ کے بھی اچھے دوست ہیں۔ میں ہمیشہ اُن سے پوچھتا رہتا تھا کہ کیا کرنا چاہیے؟‘
انہوں نے کہا ’سب یہی کہتے تھے کہ ہماری بھی خفیہ معلومات ہیں اور ہمیں ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ روس حملہ کرے گا، وہ صرف مذاکرات کے لیے ایسا کرنا چاہتے ہیں‘
محمد ظہور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خوشحال خان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے گاؤں ’حسنینا‘ سے ہے۔ خوشحال خان قیام پاکستان سے پہلے ہی کراچی منتقل ہو گئے تھے
محمد ظہور کا ماننا ہے کہ ’میری کامیابی میں والد کی تربیت، ماں کی دعاؤں اور اللہ کی مرضی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔‘
انہوں نے بتایا ’ہم کراچی میں رہتے تھے اور اس وقت ہمیں یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی کہ ہمارے والد کی سرکاری دفتر میں نوکری کے باوجود ہماری زندگی اوروں کی طرح شاہانہ اور باوقار نہیں تھی۔ میرے والد سندھ کے ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل تھے۔ یہ ایک بہت بڑا عہدہ تھا۔ لیکن اُن کے ساتھ کے لوگ گاڑیوں پر آتے تھے جب کہ میرے والد تقریباً پندرہ سال پرانی سائیکل پر آتے جاتے رہے۔ وہی عادتیں ہماری بھی تھیں۔ لیکن آگے چل کر اسی چیز نے میری زندگی میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا۔‘
محمد ظہور کے ملک سے باہر سفر کا آغاز سنہ 1974ع میں اس وقت ہوا جب اُن کا انتخاب سویت یونین میں انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے اسکالرشپ کے لیے ہوا۔ اس وقت وہ کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی میں انجینیرئنگ میں پہلے سال کے طالبعلم تھے
اسکالرشپ کے لیے منتخب بیالیس بچوں میں چند کو سینٹ پیٹرس برگ، کچھ کو ماسکو اور بعض کو ڈونیسک بھیجا گیا، جن میں ظہور بھی شامل تھے
ڈونیسک میں گزارے طالب علمی کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں ’اپنے ساتھ جانے والوں میں سب سے جلد روسی زبان میں نے سیکھی جس نے میری آگے بڑھنے میں خاصی مدد بھی کی۔ اس درمیان کچھ کامیاب اور کچھ ناکام محبتیں بھی ہوئیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ میں نے دوست بنانے کے علاوہ زندگی کے کئی اہم تجربات بھی حاصل کیے۔‘
زمانہ طالب علمی میں ہی انہوں نے اپنے ساتھ ہی پڑھنے والی لڑکی سے شادی کر لی تھی، جو بعد میں ان کے ساتھ پاکستان جا کر بھی رہیں۔ اس اسکالرشپ کی شرط تھی کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں واپس جا کر پانچ سال پاکستان اسٹیل مل میں کام کرنا ہوگا
ان کے بقول جب وہ تعلیم مکمل کر کے واپس پاکستان پہنچے تو مسائل کا انبار ان کا انتظار کر رہا تھا
پاکستان سٹیل مل میں پہلی نوکری کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ سویت یونین سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان واپس جانے پر انہیں پہلے اسٹیل مل کے شعبے سیفٹی میں تعینات کیا گیا اور بعد میں تعمیرات کے شعبے میں منتقل کر دیا گیا۔ دونوں ہی شعبوں میں کام اُن کی ڈگری کی مناسبت سے نہیں تھا
انہوں نے میٹلرجی میں انجینیئرنگ کی تھی۔ لیکن انہیں اُن کی تعلیم اور ہنر کے مطابق کام نہیں دیا گیا۔ ان کے بقول نامناسب حالات اور رویوں کے باوجود انہوں نے اتنی شاندار کارگردگی دکھائی کہ جب انہوں نے وہ نوکری چھوڑنے کا ارادہ کیا تو اس وقت کے اسٹیل مل کے چیئرمین نے اُن کا استعفیٰ سات مرتبہ نامنظور کیا تھا
ظہور نے بتایا ’میرے پاس ایسے بہت سے مواقع تھے جب میں محض ایک دستخط کر کے بہت سارے پیسے کما سکتا تھا۔ لیکن والد صاحب کی تربیت کا کچھ ایسا اثر تھا کہ وہ ہو نہیں پایا۔‘
اسی درمیان ماسکو میں ایک کمپنی کو ایک ایسے شخص کی ضرورت پیش آئی جو پاکستان کے ساتھ کاروبار میں اُن کی مدد کر سکے۔ روسی زبان پر عبور اور قابلیت کی وجہ سے ظہور کو اس کام کے لیے چُنا گیا۔ اور اس طرح وہ ماسکو پہنچ گئے
محمد ظہور نے بتایا ’اَسی کی دہائی کے آخر میں ماسکو پہنچ کر میں نے اسپیئر پارٹس وغیرہ فراہم کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی کمپنی والوں کو بتایا کہ یہاں سے اسٹیل لے کر جانا ایک منافع بخش سودا ہو سکتا ہے۔ مجھے اسٹیل ملوں کے تقریباً سارے ہی لوگ جانتے تھے۔‘
اس کاروبار میں اُن کی کمپنی نے پاکستان کو اسٹیل بھجوانا شروع کر دیا لیکن اس فروخت کے بدلے پاکستان سے ادائیگی نقد کے بجائے کپڑوں کی صورت میں ہوتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس کام میں منافع بے انتہا یعنی مارکیٹ میں رائج منافع سے بھی کئی گنا زیادہ تھا
ظہور بتاتے ہیں ’تین برس کے اندر میری تنخواہ ایک ہزار سے بڑھ کر اور بونس ملا کر پچاس ہزار ڈالر ہو گئی تھی اور مجھ پر دیگر اخراجات کی مد جس میں دفتر، آمد و رفت کا خرچہ کرایہ باقی اخراجات ملا کر سالانہ کوئی ڈیڑھ لاکھ ڈالر خرچ ہوتے تھے۔‘
پھر مختلف وجوہات کی بنا پر انہوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنا کاروبار کریں
انہوں نے بتایا ’اس وقت میں نے تھائی لینڈ کے ایک کاروباری شخصیت کے ساتھ مل کر ایک کمپنی کی بنیاد رکھی، جس میں 51 فیصد شیئر اس کے اور 49 فیصد میرے تھے۔‘
اور اس طرح اُن کے اسٹیل کی دنیا پر راج کرنے کے سفر کا آغاز ہوا۔ آہستہ آہستہ یورپ اور پھر دنیا بھر میں اُن کے دفاتر کھلنے لگے
سنہ 1996ع میں انہوں نے ڈونیسک کی اسی اسٹیل مل کو خرید لیا، جہاں انہوں نے تعلیم کے دوران اپنا آخری پریکٹیکل مکمل کر کے ڈگری حاصل کی تھی
ظہور ڈونیسک اسٹیل مل کے مالک ضرور بن چکے تھے، لیکن اس کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی تھی۔ انہوں نے بتایا ’اس کو ہم نے بنانا شروع کر دیا تھا۔ ہم نے جدید ترین اور انتہائی شاندار مل بنائی۔‘
محمد ظہور نے بتایا کہ اس کے بعد ان لوگوں نے امریکا اور دنیا کے مختلف ممالک میں اسٹیل ملیں لگائی تھیں، جو کہ بڑی کامیابی سے چل رہی تھیں۔ اور یوکرین میں ان کے تعلقات بڑھ چکے تھے۔
اور اسی دوران معاشی صورتحال کی وجہ پر اخبار ’کیئف پوسٹ‘ بند ہونے جا رہا تھا، جسے محمد ظہور نے خرید لیا اور میڈیا انڈسٹری میں قدم رکھ لیا
محمد ظہور کے مطابق ’یوکرین کے اس وقت کے ماحول میں کیئو پوسٹ کو چلانا بہت مشکل تھا۔ مگر میں نے سرمایہ کاری کرنے کے بعد اس کا ادارتی نظام آزاد رکھا تھا۔ اپنی ادارتی ٹیم سے کہا تھا کہ غیر جانبدار رہ کر شاندار اخبار چلانا ہے۔ اس کی سرکولیشن تو ہفتہ وار تیس ہزار تھی۔ یوکرین کی اس وقت آبادی چالیس ملین تھی۔‘
لیکن کئی برس اخبار کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے بعد انھیں اسے بیچنا پڑا. محمد ظہور کا کہنا تھا کہ اس دوران ’ہم نے اس وقت کی حکومتوں پر بھی سخت تنقید کی۔‘ اور بعد میں انہوں نے اس شرط پر اخبار فروخت کر دیا تھا کہ یہ بند نہیں ہوگا اور اس کی آزاد پالیسی جاری رہے گی مگر کچھ عرصہ قبل کچھ وجوہات کی بنا پر یہ بند ہو گیا اور انہوں نے سُنا ہے کہ اب دوبارہ اس کا اجرا ہوگا
محمد ظہور نے بتایا کہ چین نے سنہ 2008ع کے اولپمک مقابلے منعقد کروائے تھے۔ اس کی تیاریوں کے لیے چین پورے دنیا سے اسٹیل خرید رہا تھا۔ انہوں نے بھی خوب بیچا مگر اس کے ساتھ ساتھ چین کے اندر دھڑا دھڑ اسٹیل کی ملیں لگنا شروع ہو گئیں
انہوں نے کہا ’جب میں نے یہ صورتحال دیکھی تو مجھے سمجھ آ گئی کہ چین کی اسٹیل ملیں چلنے کے بعد یہ کاروبار منافع بخش نہیں رہے گا۔‘
اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے انہوں نے سنہ 2008ع میں اپنا اسٹیل کا کاروبار مکمل طور پر فروخت کر دیا۔ اب تک وہ اپنی کمپنی کے واحد مالک بن چکے تھے، کیونکہ سنہ 2004ع میں انہوں نے اپنے پارٹنر سے تمام شیئر خرید لیے تھے
محمد ظہور کا کہنا تھا کہ وقت نے ثابت کیا کہ اُن کا فیصلہ درست تھا۔ اب وہ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ”میری سرمایہ کاری کا تخمینہ تقریباً ایک کروڑ ڈالر ہے“
محمد ظہور نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کمالیہ پاکستان میں بہت سا امدادی اور فلاحی کام بھی کرتی ہیں۔ ان کے مطابق سنہ 2005ع میں زلزلے کے دوران انہوں نے یوکرین سے ساز و سامان لے جا کر پاکستان میں ایک فیلڈ ہسپتال بنانے میں مدد کی تھی
ظہور نے کہا ’اس واقعے کے دو برس بعد تک کمالیہ وہاں جاتی رہیں۔ انہوں نے کشمیر میں ایک گاؤں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ وہاں یوکرینین فیلڈ ہسپتال کا بندوبست کیا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں موجود کارڈیالوجی سینٹر میں بچوں کے دل کے امراض پر تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کیے۔‘
ان کے مطابق کمالیہ اسی طرح کئی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے رابطے میں رہتے ہوئے فلاحی کام کر رہی ہیں۔ وہ جس عاجزی سے اپنے چاہنے والوں سے ملتی ہیں وہ بھی ظہور کو بہت پسند ہے
کمالیہ کو پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کے گانے بہت پسند ہیں اور وہ انہیں سیکھ کر کئی محفلوں میں گا بھی چکی ہیں۔ پاکستان ڈے کے موقعے پر انھوں نے ’دل دل پاکستان‘ گا کر پاکستانی سفارتخانے میں مہمانوں کا دل جیت لیا تھا
گھر یوکرین ہے یا پاکستان
جس شخص کے دنیا بھر میں گھر ہوں وہ کسی ایک جگہ کو مستقل ٹھکانہ بھی تو مانتا ہو گا؟
اس مشکل سوال کے جواب میں مکمل یقین کے ساتھ وہ کہتے ہیں ’پاکستان میری جائے پیدائش ہے، اور میرا پاسپورٹ برطانیہ کا ہے لیکن اگر پیدائش کے بعد میں کسی جگہ کو اپنا گھر مانتا ہوں تو وہ یوکرین ہے کیونکہ اس ملک میں مَیں نے تعلیم حاصل کی، اسی ملک میں مَیں نے دو مرتبہ شادی کی اور وہیں تمام دولت کمائی۔ میں نے وہاں لوگوں کو روزگار دیا، فلاحی کام کیے اور وہیں میرے دوست ہیں، جن میں سے کچھ زندہ ہیں اور کچھ اب مر چکے ہیں۔ مجھے پاکستانی سیاست کا بھی زیادہ علم نہیں، لیکن یوکرین میں مَیں جتنا بھی رہا ہوں، پورے دل سے رہا ہوں۔‘
یوکرین پر روسی حملے کے سبب کاروباروں کو ہونے والے ممکنہ نقصان کے بارے میں پوچھنے پر بھی انہوں نے بہت تحمل سے جواب دیا کہ انہوں نے اپنے تمام اثاثے کسی ایک جگہ یا شعبے میں نہیں رکھ چھوڑے ہیں، اس لیے وہ زیادہ پریشان نہیں ہوتے
لیکن ساتھ ہی انھوں نے زور دیا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے انییں اتنا نوازا، جس کی انہوں نے کبھی توقع نہیں کی تھی
ایک گہری سانس لے کر مسکراتے ہوئے انہوں نے کہا ’اڑتالیس برس قبل جب میں یوکرین میں اُترا تھا تو میرے والد نے مجھے ایک سو بیس ڈالر دیے تھے۔ یہی اس شخص کی حیثیت تھی اور وہ اتنے ہی دے سکتا تھا۔‘
’ان ایک سو بیس ڈالر کو میں اڑتالیس سال سے خرچ کر رہا ہوں اور اس کے بعد بھی میرے پاس کچھ بچ گیا ہے۔‘