اسلام آباد – ساجدہ بیگم اسلام آباد پولیس کے اہلکار عبدالمنان کی بیوہ ہیں. عبدالمنان 19 نومبر 1995ع کو اسلام آباد میں مصر کے سفارت خانے میں ہونے والے دھماکے میں اپنی جان گنوا بیٹھے تھے، ان کی وفات کے تین ماہ بعد ان کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تھی، جس کو چھبیس سال کی عمر میں اسلام آباد پولیس نے شہداء کوٹے پر ملازمت دی ہے
ساجدہ بیگم بتاتی ہیں ”جب مجھے خبر ملی کہ اسلام آباد پولیس نے میرے بیٹے کو چھبیس سال پہلے بم دھماکے میں شہید ہونے والے باپ کی جگہ پر بھرتی کر لیا ہے، تو مجھے خوشی بھی ہوئی لیکن دل بیٹھ بھی گیا کیونکہ چھبیس سال پہلے جو بیتی تھی، اس کا ایک ایک لمحہ شدت سے یاد آ رہا تھا اور خدشات سر اٹھانے لگے تھے، کیونکہ جس پر جو بیتا ہوتا ہے اس کی تلخی صرف وہی محسوس کر سکتا ہے“
انہی خدشوں میں گھری ساجدہ بیگم کو جہاں اپنے بیٹے کو ملازمت ملنے کی خوشی ہے، وہیں ان کو اسلام آباد پولیس سے شکوہ بھی ہے کہ شوہر کی ہلاکت کے بعد ان کی تنخواہ یا پینشن سے محروم رکھا گیا
اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے مطابق ’اسلام آباد پولیس کے پہلے شہید عبدالمنان کے بیٹے عبدل نعمان اب اسلام آباد پولیس میں اپنی خدمات سر انجام دیں گے۔ آئی جی اسلام آباد محمد احسن یونس نے اپوائنٹمنٹ لیٹر شہید کے بیٹے کے حوالے کیا“
اس موقع پر آئی جی اسلام آباد کہا کہنا تھا کہ ’شہیدوں اور غازیوں کے اہل خانہ کا خیال رکھنا ہمارا اولین فرض ہے۔ جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کی۔‘
سپاہی عبدالمنان کا تعلق اسلام آباد پولیس سے تھا اور وہ روات کے علاقے اوجریالہ کے رہنے والے تھے۔ ان کی شادی کو دو سال گزرے تھے کہ وہ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے اسلام آباد میں واقع مصر کے سفارت خانے میں ہونے والے دہشت گردی کے بہت بڑے واقعے کا نشانہ بن گئے۔ اس وقت ان کی ایک بیٹی تھی جبکہ ان کی اہلیہ امید سے تھیں
سپاہی عبدالمنان کی وفات کے تین ماہ بعد ان کی اہلیہ نے عبدل نعمان کو جنم دیا۔ جواں عمری میں بیوگی کا صدمہ جھیلنے والی ساجدہ بی بی کو والدین اور بھائیوں نے دوسری شادی کا مشورہ دیا، لیکن انہوں نے اپنے بچوں، بوڑھے سسر اور ایک ذہنی معذور دیور کی دیکھ بھال کا تلخ فیصلہ کیا
ساجدہ بیگم نے بتایا کہ ”زندگی مشکل سے ہی گزاری ہے لیکن جب تہیہ کر لیا تھا کہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کسی اور کے سہارے پر نہیں چھوڑنا تو محنت مزدوری، کھیتی باڑی کر کے ان کو پالا۔ کبھی بکریاں رکھیں تو کبھی سبزیاں اگائیں لیکن کوشش کی کہ اپنے بچوں کی بہتر پرورش کر سکوں“
ساجدہ کہتی ہیں ”اس بات کا دکھ ہے کہ میں اپنے بیٹے کو میٹرک سےآگے نہیں پڑھا سکی۔ حالات نے اجازت ہی نہیں دی اور نہ ہی وسائل تھے۔ جب باپ کا سایہ سر پر نہ ہو اور غربت بھی ہو تو بچوں کی توجہ پڑھائی کی جانب کب جا سکتی ہے۔ اگر میرے شوہر کی شہادت کے بعد اس کی تنخواہ یا پنشن مجھے مل جاتی تو کم از کم میرے بچے پڑھ جاتے اور آج عبدل نعمان لوئر رینک میں نہیں بلکہ افسر بن کر پولیس میں بھرتی ہوتے تو مجھے بھی خوشی ہوتی اور اس کے والد کی روح کو بھی تسکین ملتی۔ لیکن میری تمام تر کوششوں کے باوجود مجھے اس سلسلے میں کامیابی نہیں ہوئی“
اب کا کہنا ہے ”پینشن تو اب بھی میرا حق ہے، اگر مل جائے تو میں اپنے بچے کے لیے مکان بنا سکتی ہوں کہ اس کا کم از کم اپنے باپ کی شفقت سے محرومی کا کچھ احساس تو کم ہو جائے“
انہوں نے کہا ”جب مجھے میرے بیٹے اور اس کے ماموں نے بتایا کہ پولیس نے نعمان کو ملازمت پر رکھ لیا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ لیکن سچی بتاؤں تو میرا دل بیٹھ گیا۔ یہ محکمہ ہی ایسا ہے کہ کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اور جس پر بیتی ہو اس سے زیادہ بہتر کون اس کرب کو جانتا ہے۔ لیکن میری دعائیں اپنے بیٹے اور پولیس کے ساتھ ہیں“
جبکہ اپنی تعیناتی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالمنان کے بیٹے عبدل نعمان نے بتایا ”میں نے بچپن سے اپنی والدہ کو محنت کرتے دیکھا ہے۔ ہم دونوں بہن بھائی اپنے والد کی شفقت سے محروم تھے اور ہمیں بہت جلد اس بات کا اندازہ بھی ہو گیا تھا۔ کوشش تھی کہ کسی طرح اپنی ماں کو خوشیاں دے سکیں۔ اس مقصد کے لیے میں نے کئی کام کرنے کی کوشش کی۔ کبھی زمینداری کی تو کبھی کسی دکان پر کام کیا لیکن حالات ایسے تھے کہ مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ جب اس قابل ہوا کہ ملازمت کرسکتا ہوں تو پولیس میں ملازمت کی درخواست دے دی۔ کئی سال تک اس کا فالو اپ کیا لیکن کسی نے مدد نہ کی۔ جب نئے آئی جی نے چارج سنبھالا تو ہم ان کے ہاں پیش ہوئے اور اپنی داستان سنائی۔ نئے آئی جی نے نہ صرف مالی مدد کی بلکہ یقین دہانی کرائی کہ مجھے ملازمت دیں گے۔ کچھ دن بعد مجھے آفر لیٹر مل گیا اور اب اپوائنٹمنٹ لیٹر بھی مل چکا ہے۔ ابتدائی طور پر مجھے ایڈمنسٹریشن میں تعینات کیا گیا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ باضابطہ کانسٹیبل بن کر پولیس فورس کا حصہ بنوں“