”کچھ بھی ہو سکتا ہے“ یوکرین روس جنگ کے پانچ ممکنہ منظر نامے

ویب ڈیسک

کراچی – جنگ کے مہیب سائے اور دہکتی آگ و بارود کے دھوئیں میں آگے کا راستہ دیکھ پانا بہت مشکل ہوتا ہے. میدانِ جنگ سے آنے والی خبریں، سفارتی کوششوں کا شور و غل، غمزدہ اور بے گھر افراد کے جذبات؛ یہ سب جنگ کے وہ پہلو ہیں، جو ذہن کو ماؤف کر دیتے ہیں

روس یوکرین جنگ کے دوران اس کے خاتمے کی امید کے ساتھ کچھ ممکنہ منظرنامے کیا ہو سکتے ہیں. یہ بہت ہی مشکل سوال ہے، کیونکہ بہت کم لوگ اعتماد کے ساتھ مستقبل کی پیش گوئی کر سکتے ہیں، لیکن بہرحال ممکنہ نتائج، جو اگرچہ واضح نہیں لیکن موجود ضرور ہیں

اس جنگ میں پہلا ممکنہ منظر نامہ یہ ہے کہ روس اپنی فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔ ایسے میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یوکرین بھر میں اندھا دھند گولہ باری اور راکٹ حملے ہو رہے ہیں۔ اب تک ایک کم اہم کردار ادا کرنے والی روسی فضائیہ تباہ کن فضائی حملے شروع کر دیتی ہے۔ یوکرین میں بڑے پیمانے پر سائبر حملے شروع ہوتے ہیں جو اہم قومی انفراسٹرکچر کو نشانہ بناتے ہیں

ملک بھر میں بجلی اور مواصلات کا نظام منقطع ہو جاتا ہے۔ ہزاروں یوکرینی شہری مارے جاتے ہیں۔ سخت اور دلیرانہ مزاحمت کے باوجود، کیئف پر دنوں میں قبضہ ہو جاتا ہے۔ یوکرینی حکومت کو ماسکو نواز کٹھ پتلی حکومت سے بدل دیا جاتا ہے

یوکرینی صدر زیلنسکی کو یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا وہ مغربی یوکرین یا ملک سے فرار ہو کر جلا وطنی میں حکومت قائم کرتے ہیں۔ صدر پیوٹن فتح کا اعلان کرتے ہیں اور کچھ فوج کو یوکرین سے پیچھے ہٹا دیتے ہیں لیکن ملک پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے کافی فوج کو ملک میں ہی رہنے دیتے ہیں

ہزاروں یوکرینی پناہ گزینوں کا مغرب کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ یوکرین کا بھی بیلاروس کی طرح ماسکو کی ذیلی یا حمایتی ریاست کے طور پر شمار کیا جاتا ہے

یہ نتیجہ کسی بھی طرح سے ناممکن نہیں ہے، لیکن اس کا انحصار بدلتے ہوئے کئی عوامل پر ہوگا جیسا کہ روسی افواج بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں، اس تناظر میں مزید فوج کو تعینات کیا جائے، اور یوکرین کا غیر معمولی جنگی جذبہ ختم ہو جائے

صدر پیوٹن کیئف میں حکومت کی تبدیلی اور یوکرین کے مغربی انضمام کا خاتمے کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن یہ سوال بدستور برقرار رہے گا کہ کیا اس کے بعد کوئی بھی روس نواز حکومت یوکرین میں شورش کو روک پائے گی۔ یہ نتیجہ غیر مستحکم ہوگا اور ایسے میں دوبارہ تنازعات کے پھوٹ پڑنے کے امکانات زیادہ ہوں گے

دوسری صورت میں یہ بھی امکان موجود ہے کہ یہ ایک طویل جنگ کی شکل اختیار کر لے۔ ہو سکتا ہے کہ روسی فوجیں پست ہو جائیں، کم حوصلے، ناقص لاجسٹکس اور نااہل قیادت ان کی راہ کی رکاوٹ بن جائے

ہو سکتا ہے کہ روسی افواج کو کیئف جیسے شہروں کو محفوظ بنانے میں زیادہ وقت لگے کیونکہ اس کے محافظ شہری فوج سے گوریلا جنگ شروع کر دیں یا لڑائی گلیوں میں شروع ہو جائے

ایسی صورت میں شہر کا طویل محاصرہ رہے گا۔ یہ لڑائی 1990 کی دہائی میں چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی پر قبضہ کرنے اور اسے بڑے پیمانے پر تباہ کرنے کے لیے روس کی طویل اور وحشیانہ کوشش کی تاریخ دہرائے گی

لیکن اگر روسی افواج یوکرین کے شہروں میں اپنی کچھ تسلط برقرار کر لیتی ہیں تو بھی شاید وہ وہاں کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ روس اتنے وسیع ملک کا احاطہ کرنے کے لیے کافی فوج فراہم نہ کر سکے

ایسے میں ہو سکتا ہے کہ یوکرین کی فوج مقامی افراد کی حمایت حاصل کر کے ایک مؤثر مزاحمت اور شورش کے لیے اُن کی حوصلہ افزائی کریں اور مغرب انہیں ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتا رہے

اور پھر شاید کئی برسوں کے بعد ماسکو میں نئی قیادت کے ساتھ روسی افواج بالآخر یوکرین سے ہار کر اور خون آلود ہو کر نکل جائیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ان کے پیشرو 1989ع میں ایک دہائی تک افغان عسکریت پسندوں سے لڑنے کے بعد افغانستان سے چلے گئے تھے

ایک امکانی منظرنامہ یہ بھی ہے کہ یہ جنگ یوکرین کی سرحدوں سے باہر تک پھیل جائے اور صدر پیوٹن سابق سوویت جمہوریہ مولڈووا اور جارجیا میں فوج بھیج کر روس کی سابقہ سلطنت کے مزید حصوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں، جو نیٹو کا حصہ نہیں ہیں

یا صرف غلط اندازوں کے باعث جنگ کی شدت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ صدر پیوٹن یوکرین کی افواج کو مغربی ممالک کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی کے عمل کو جارحیت قرار دے سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جوابی کارروائی کر سکتے ہیں

وہ نیٹو اتحاد کی رکن لتھوانیا جیسی بالٹک ریاستوں میں فوج بھیجنے کی دھمکی دے سکتے ہیں تاکہ وہ روسی ساحلی علاقے کلینن گراڈ کے ساتھ زمینی راستہ اور رابطہ قائم کر سکیں

یہ انتہائی خطرناک ہوگا اور نیٹو کے ساتھ جنگ کے خطرات کو بڑھا دے گا۔ کیونکہ نیٹو کے فوجی اتحاد کے چارٹر کی شق پانچ کے تحت ایک رکن پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جاتا ہے

لیکن صدر پیوٹن کو اگر یہ لگتا ہے کہ یہ ان کی قیادت اور روس کی ساکھ کو بچانے کا واحد راستہ ہے تو وہ یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ شاید اگر انہیں یوکرین میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو تو وہ مزید آگے بڑھنے کی لالچ میں آ سکتے ہیں

روسی رہنما دیرینہ بین الاقوامی اصولوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی بھی دے چکے ہیں، اس لیے ایک منظرنامہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا بھی ہو سکتا ہے۔ اس ہفتے ہی صدر پوتن نے اپنی جوہری قوتوں کو اعلیٰ سطح پر الرٹ کر دیا۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کو شک ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ ان کے استعمال کا قوی امکان ہے

لیکن یہ ایک یاد دہانی تھی کہ روسی نظریہ میدان جنگ میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کی اجازت دیتا ہے

ایک امکان سفارتی حل کا ہے، یہی وجہ ہے کہ امید سے بھرے ذہن سوچ رہے کہ کیا آج بھی اس جنگ کا سفارتی حل ممکن ہے؟

اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گتیریس نے کہا ہے کہ ‘اس وقت تو بندوقیں بول رہی ہیں مگر بات چیت کا راستہ ہمیشہ کھلا ہوتا ہے۔‘

اور بات چیت جاری بھی ہے

فرانسیسی صدر نے صدر پیوٹن سے فون پر بات کی ہے اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو میں بات چیت کے لیے اشارہ دیے جا رہے ہیں۔ اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ روسی اور یوکرینی حکام بیلاروس کی سرحد پر ایک دوسرے سے ملے بھی ہیں

اگرچہ تاحال ان کے درمیان کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی لیکن بات چیت پر رضا مندی ظاہر کر کے پیوٹن نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کم از کم ایک امکان تو ہے

اہم سوال یہ ہے کہ کیا مغرب ممالک روس کو اس سب سے نکلنے کا راستہ دے سکتے ہیں۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات اہم ہے کہ روسی صدر کو یہ پتا ہو کہ مغربی پابندیاں ہٹوانے کے لیے کیا کچھ درکار ہوگا تاکہ کوئی ایسی ڈیل ہو سکے، جس میں سب کی عزت بچ جائے

اگر روس کے لیے جنگی محاذ کچھ اچھا نہیں جاتا۔ پابندیاں روس میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ جیسے جیسے فوجی ہلاکتیں بڑھتی ہیں مخالفت بڑھنے لگتی ہے. پیوٹن سوچتے ہیں کہ اس نے کہیں بہت زیادہ مشکل تو اپنے سر نہیں لے لی۔ وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جنگ جاری رکھنا ان کی قیادت کے لیے اس کو ختم کرنے کی بے عزتی سے زیادہ بڑا خطرہ ہے

اور دوسری طرف چین مداخلت کرتا ہے اور ماسکو پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ سمجھوتہ کرے ورنہ وہ روسی تیل اور گیس نہیں خریدے گا۔ پیوٹن مسئلے سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے لگتے ہیں

ادھر یوکرینی حکام اپنے ملک کی متواتر تباہی دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جانی نقصان روکنے کے لیے سیاسی سمجھوتہ ہی واحد راستہ ہے۔ سفارتکار ملتے ہیں اور معاہدہ ہو جاتا ہے۔ یوکرین کرائمیا اور دونباس کے علاقوں پر روسی خود مختاری تسلیم کر لیتا ہے۔ بدلے میں پیوٹن یوکرینی آزادی اور یورپ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے اس کے حق کو تسلیم کر لیتے ہیں

اگرچہ یہ سب ہونا کافی مشکل ہے لیکن ایسا نہیں کہ ایک خونی جنگ سے ایسی صورتحال نکلنا بالکل ناممکن ہے

ولادیمیر پیوٹن نے جب یہ حملہ کیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم کسی بھی نتیجے کے لیے تیار ہیں، لیکن کیا اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ انہیں خود اقتدار سے ہٹا دیا جائے۔ ابھی یہ خارج از امکان لگتا ہے۔ مگر دنیا گذشتہ چند دنوں میں بدلی ہے اور اب ایسی چیزوں کے بارے کم ہی سوچا جاتا ہے

کنگز کالج لندن کے پروفیسر سر لارنس فریڈمین نے اسی ہفتے لکھا تھا کہ اس وقت روس میں مقتدر حلقے بدل دیے جانے کا امکان اتنا ہی ہے، جتنا یوکرین میں ہے

مگر ایسا کیوں ہے؟ ہو سکتا ہے کہ صدر پیوٹن ایک تباہ کن جنگ لڑیں۔ ہزاروں روسی فوجی ہلاک ہو جائیں۔ معاشی پابندیاں تنگ کرنے لگیں۔ پیوٹن کی مقبولیت کم ہو جائے اور کہیں سے عوامی انقلاب کا خطرہ نظر آئے

وہ روسی داخلی سیکیورٹی فورسز کا استعمال کریں مگر یہ کھٹائی میں پڑ جائے اور روسی فوجی، سیاسی، اور معاشی اشرافیہ کے سرکردہ لوگ ان کے خلاف ہو جائیں۔ مغربی ممالک یہ دباؤ ڈالیں کہ اگر پیوٹن کو ہٹا کر کوئی اور رہنما آتا ہے تو معاشی پابندیاں کم کر دی جائیں گی۔ ماسکو کے محل میں ایک خونی بغاوت ہوتی ہے اور پیوٹن کو نکال دیا جاتا ہے

ایک مرتبہ پھر، اس وقت یہ خارج از امکان لگتا ہے۔ لیکن یہ ناممکن نہیں ہے. اگر وہ لوگ، جنہوں نے پیوٹن سے فائدے اٹھائے ہیں، انہیں لگے کہ پیوٹن ان کے مفادات کا مزید دفاع نہیں کر سکتے، تو ایسا ہونا خارج از امکان نہیں ہے

ان سب ممکنہ منظرناموں میں ضروری نہیں کہ کوئی ایک یا دوسرا ہو، کچھ ملا جلا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے، دنیا بدل گئی ہے اور دنیا اب ماضی کے حالات کو نہیں لوٹے گی

آزاد خیال، قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کو شاید پھر سے سوچنا پڑے کہ اسے کس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close