خون کی بیماری ”سِکَل سیل ڈزیز“ کو شکست دینے والا انقلابی علاج

ویب ڈیسک

چھتیس سالہ جمی اولاگیئر خون کے سرخ خلیات کی ایک تکلیف دہ بیماری ”سِکَل سیل ڈزیز“ میں مبتلا تھا، ان کا خیال تھا کہ اُنہیں مسلسل درد میں رکھنے والی اپنی اس بیماری سے چھٹکارا پانے میں کئی دہائیاں لگیں گی، لیکن خوش قسمتی سے اب وہ اس سے نجات پا چکا ہے. یہ نجات سائنسدانوں کی جانب سے اُن کے خون میں انجینیئرنگ کرنے کے باعث نصیب ہوئی

جمی اولاگیئر ان سات افراد میں سے ایک ہیں، جنہیں امریکا میں جینیاتی ایڈیٹنگ پر مبنی ایک انقلابی مگر آزمائشی علاج سے گزارا گیا

بچپن سے اس بیماری میں مبتلا جمی کا کہنا ہے ”اس علاج نے میری زندگی بدل دی ہے۔ یہ دوبارہ پیدا ہونے جیسا ہے. جب میں مڑ کر اپنے ماضی کو دیکھتا ہوں تو مجھے یقین نہیں آتا کہ میں اس کے ساتھ کیسے جیتا رہا ہوں“

انہوں نے کہا ”آپ کو ہمیشہ ذہنی طور پر جنگی کیفیت میں رہنا ہوتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ آپ کے آنے والے دن چیلنجز سے بھرپور ہوں گے”

خون کے سرخ خلیات کی ”سِکَل سیل ڈزیز“ نامی یہ بیماری موروثی ہوتی ہے اور ایک ایسی جینیاتی تبدیلی کے باعث لاحق ہوتی ہے، جس میں جسم ابنارمل ہیموگلوبن بنانے لگتا ہے۔ ہیموگلوبن خون کے سرخ خلیوں میں موجود وہ پروٹین ہوتا ہے، جو جسم کو آکسیجن کی فراہمی کے لیے ضروری ہے

خون کے سرخ خلیے عموماً گول اور نرم ہوتے ہیں، لیکن ہیموگلوبن کی یہ تبدیلی اُنہیں سخت بنا دیتی ہے اور یہ گول کے بجائے درانتی کی سی شکل اختیار کر لیتے ہیں

یہ سکل سیل جسم کی شریانوں میں نقل و حرکت کرنے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں اور اکثر پھنس جاتے ہیں، جس سے خون کا بہاؤ رک جاتا ہے۔ سکل سیل سے متاثرہ لوگوں میں ہارٹ اٹیک، سٹروک اور اعضا کو نقصان کا خطرہ دیگر لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے

جمی کو کولہے کی تبدیلی کی ضروری پڑ سکتی ہے کیونکہ اُن کی ہڈیوں کے بافتوں کا ایک حصہ خون نہ مل پانے کی وجہ سے مردہ ہو چکا ہے۔ اس حالت کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا اور اسے اے ویسکیولر نیکروسز کہتے ہیں

درد ایک طویل عرصے سے جمی کا ساتھی رہا ہے۔ جمی بیماری کی اس کیفیت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”ایسا لگتا ہے کہ شیشے کے ذرات آپ کی شریانوں میں بہہ رہے ہوں یا پھر آپ کے جوڑوں پر کوئی ہتھوڑے برسا رہا ہو۔ صبح میں آنکھ درد سے کھلتی ہے اور اسی درد کے ساتھ آپ نیند میں چلے جاتے ہیں“

لیکن سکل سیل بیماری کا خاصہ شدید درد کا دورانیہ وہ ہوتا ہے، جسے کرائسز کہا جاتا ہے۔ اس دوران مریض کو ہسپتال میں داخلے اور مارفین کی ضرورت تک پڑ سکتی ہے۔ جمی کو بھی کئی سال تک ہر مہینے ہسپتال جانا پڑتا تھا

اس بیماری میں سردی کا موسم اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے، کیونکہ سرد موسم میں جلد کے قریب موجود شریانیں سکڑ جاتی ہیں، جس سے رکاوٹ پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی لیے جمی اپنے خاندان کو امریکا میں ریاست نیو جرسی سے ریاست جارجیا لے گئے، جہاں کا موسم قدرے معتدل ہوتا ہے

اس تکلیف دہ بیماری نے جمی کی زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا۔ اُنہوں نے اپنا ٹیکنالوجی کا کاروبار شروع کیا کیونکہ اگر کسی کمپنی میں ملازمت کرتا تو کوئی بھی کمپنی اُنہیں اتنی بار ہسپتال جانے کے لیے چھٹیاں نہیں دے سکتی تھی۔ مستقل درد سے نجات پانے کے لیے جمی نے وڈیو گیمز اور لیورپول کے فٹبال میچز میں ’تھوڑی سی راحت‘ تلاش کر لی

جمی کے خاندان نے اُن پر زور دیا کہ وہ طبی آزمائشوں میں حصہ لیں یا پھر بون میرو ٹرانسپلانٹ کروائیں، جو کہ سکل سیل کے کچھ متاثرین کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ لیکن اُنہیں لگا کہ اپنے معیارِ زندگی میں بہتری کے لیے اُنہیں بہت سا وقت ہسپتالوں میں گزارنا پڑے گا

چنانچہ اُنہوں نے ایسے علاج سے اپنی توقعات وابستہ کیں جو ابھی ایجاد ہونا تھا

اُنھوں نے اپنے گھر والوں سے کہا ”مستقبل میں کسی دن، شاید اب سے بیس یا پچاس سال بعد میں اپنا ڈی این اے ایڈٹ کروا لوں گا اور اس سے میرے سکل سیل کا علاج ہو جائے گا“

لیکن مستقبل ان کی توقعات سے کہیں پہلے آ گیا اور سنہ 2019ع کے اواخر میں جمی نے جینیاتی ایڈیٹنگ سے متعلق ایک نئی طبی آزمائش کے بارے میں پڑھا اور اُنھوں نے فوراً ہی میڈیکل ٹیم کو ای میل کر دی۔ ایک ماہ بعد جمی اور اُن کی آٹھ ماہ کی حاملہ اہلیہ امینڈا ریاست ٹینیسی کے شہر نیش وِل میں سارہ کینن ریسرچ انسٹیٹوٹ گئے تاکہ اس آزمائش میں شرکت کے لیے معلومات حاصل کر سکیں

جمی کہتے ہیں ”آزمائش میں شامل کر لیے جانے کی خبر کرسمس کا سب سے اچھا تحفہ تھی۔ اور میں خوش قسمت بھی تھا۔ عالمی وبا کے باعث یہ آزمائشیں متاثر ہو رہی تھیں کیونکہ بڑی تعداد میں پروازیں منسوخ ہو رہی تھیں۔ مگر اس کے باوجود میں ہر سیشن کے لیے چار گھنٹے ڈرائیو کرنے کے لیے تیار تھا“

جسم میں جینیاتی انجینیئرنگ
ٹرائل کے دوران سائنسدان اُن کے جسم میں جینیاتی انجینیئرنگ کرنے والے تھے تاکہ اُن کا جسم خراب ہیموگلوبن نہ پیدا کرے۔ سب سے پہلے سائنسدانوں کو اس حصے تک پہنچنا تھا، جو خون کے سرخ خلیے پیدا کرتا ہے

ہڈیوں کے گودے (بون میرو) میں موجود سٹیم خلیے خون کے سرخ خلیوں کو جنم دیتے ہیں۔ پھر جنوری 2020ع میں جمی کو ایسی دوائیں دی گئیں، جنہوں نے اُن کے بون میرو سے سٹیم خلیوں کو نکال کر اُن کے خون میں شامل کر دیا۔ اس کے بعد اُنہیں ایک ایفیریسس مشین سے منسلک کر کے اُن کے خون سے سٹیم خلیے اکٹھے کر لیے گئے

وہ بتاتے ہیں.”آپ وہاں آٹھ گھنٹے تک بیٹھے رہتے ہیں اور یہ مشین واقعتاً آپ کا خون چوس رہی ہوتی ہے“

سیشن کے اختتام پر وہ جسمانی اور ذہنی طور پر تھک چکے ہوتے اور اُنہیں نکالے گئے خون کے بدلے میں نیا خون لگانے کی ضرورت پڑتی

جمی کے لیے یہ اس پورے علاج کا مشکل ترین مرحلہ تھا اور وہ اس سے چار مرتبہ گزرے

جمی آخری مرتبہ خون کا عطیہ لینے کے بعد گھر چلے گئے، لیکن اُن سے حاصل کیے گئے سٹیم خلیوں کا سفر اس وقت شروع ہی ہوا تھا

سائنسدان اب جمی کے خون پر ایک متاثر کُن جینیاتی کمال دکھانے والے تھے، جو اُن کے خون کو ماضی کی صورتحال میں لے جاتا

واضح رہے کہ جب ہم رحمِ مادر میں ہوتے ہیں تو ہمارے جسم ایک مختلف طرح کا ہیموگلوبن استعمال کرتے ہیں، جنہیں فیٹل ہیموگلوبن کہا جاتا ہے۔ یہ بالغوں کے ہیموگلوبن کے مقابلے میں آکسیجن کو زیادہ مضبوطی سے پکڑتا ہے اور نشو و نما پا رہے بچے کو ماں کے خون سے آکسیجن حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے

جب ہم پیدا ہو جاتے ہیں تو ایک جینیاتی سوئچ آن ہو جاتا ہے اور ہم بالغ ہیموگلوبن بنانا شروع کر دیتے ہیں

اہم بات یہ ہے کہ سکل سیل سے صرف بالغوں کا ہیموگلوبن متاثر ہوتا ہے۔ دو ہزار کی دہائی کے وسط میں پایا گیا کہ یہ جینیاتی سوئچ بی سی ایل 11 اے نامی جین ہے اور اب جینیاتی ایڈیٹنگ کے شعبے میں ترقی کا مطلب ہے کہ سائنسدانوں کے پاس اسے پلٹنے کے لیے طریقے موجود ہیں

سارا کینن ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں جمی کا علاج کرنے والے ڈاکٹر حیدر فرنگول کہتے ہیں ”ہماری حکمتِ عملی اس سوئچ کو بند کرنا اور فیٹل ہیموگلوبن کی پیداوار دوبارہ شروع کرنا ہے، یہ گھڑی کو پیچھے لے جانے جیسا ہے“

جمی کے سٹیم خلیوں کو ورٹیکس فارماسیوٹیکلز کی لیبارٹریوں میں بھیجا گیا، جہاں جیناتی ایڈیٹنگ ہونی تھی

ستمبر 2020ع تک یہ تبدیل شدہ خلیے اُن کے جسم میں دوبارہ داخل کرنے کا وقت آ چکا تھا۔ وہ کہتے ہیں ”یہ میری سالگرہ کا ہفتہ تھا، تو مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ مجھے ایک نئی زندگی مل رہی ہے“

سب سے پہلے جمی کی کیموتھیراپی کے ذریعے اُن کے جسم میں خراب خلیے بنانے والے سٹیم خلیوں کو ختم کیا جانا تھا۔ اس کے بعد جینیاتی طور پر انجینیئرڈ خلیوں کو اُن کے جسم میں داخل کیا جانا تھا تاکہ اُنہیں نیا اور سکل سیل سے پاک خون مل سکے

یہ پورا مرحلہ تھکا دینا والا تھا، مگر تھکا دینے والا سفر انہیں راحت کی منزل پر لے گیا. دو ہفتے بعد وہ ایک دن اٹھے تو ایک بالکل نئی زندگی کے ساتھ!

جمی کہتے ہیں ”مجھے یاد ہے کہ میں کسی تکلیف کے بغیر اٹھا تھا اور کھویا کھویا محسوس کر رہا تھا۔ کیونکہ درد میری زندگی کا اتنا بنیادی حصہ بن چکا ہے کہ عجیب لگتا ہے کہ اب میں اس کا سامنا نہیں کرتا“

ڈاکٹر فرنگول کہتے ہیں کہ پہلے سات مریضوں سے حاصل ہونے والا ڈیٹا ‘حیران کُن ہے’ اور ان افراد کی بیماری کے ‘عملی طور پر علاج’ کی نمائندگی کرتا ہے

وہ کہتے ہیں ”ہمیں نظر آ رہا ہے کہ مریض اپنی عام زندگی کی واپس لوٹ رہے ہیں اور کسی کو بھی سکل سیل کی وجہ سے ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا نہ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا“

یہی جینیاتی طریقہ سکل سیل یا پھر خون کی ایک اور بیماری بیٹا تھیلیسیمیا کے کُل پینتالیس مریضوں پر آزمایا گیا ہے۔ بیٹا تھیلیسیما بھی خراب ہیموگلوبن کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری ہے۔ تاہم ابھی مکمل ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے

درد سے مکمل آزادی کے بعد جمی کو لگتا ہے کہ وہ آخرکار وہ شخص ہو گئے ہیں، جو وہ اندر سے ہمیشہ ہی تھے

وہ کہتے ہیں کہ اُن کی بیماری نے اُہھیں اپنی ذات میں رہنے والا شخص بنا دیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے وہ گھر پر اور محتاط رہنے پر مجبور تھے

”میں اس کی مثال ایسے دیتا ہوں۔ جب میرا بیٹا پیدا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ وہ کار کی کھڑکی سے باہر دیکھ کر دنیا کو پہلی مرتبہ ایک نئے انسان کے طور پر محسوس کر رہا تھا۔ میں بھی ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں۔ میں ایک نئے شخص کے طور پر جی رہا ہوں“

جمی کہتے ہیں ”صرف اپنے بیٹے کے ساتھ چل پانے جیسی چیز، یہ ایسی بات تھی جسے کھو دینے کا خدشہ تھا“

اور اب وہ بالآخر ویسے والد بن سکتے ہیں، جیسا کہ وہ چاہتے تھے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close