عالمی دن کے موقع پر شائع ہونے والی آئی ایل او کی رپورٹ ’کیئر ایٹ ورک:انویسٹنگ اِن کیئر لِیو اینڈ سروسز فار مور جینڈر ایکوئل ورلڈ آف ورک‘ اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ خاندانی ذمہ داریوں کے ساتھ دیکھ بھال کی خدمات اور پالیسیوں میں مستقل اور نمایاں خلا نے کروڑوں ورکرز کو مناسب تحفظ اور مدد سے محروم کردیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ارب 20 کروڑ سے زائد بالغ مرد ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں بچوں کی پیدائش پر چھٹی نہیں ملتی حالانکہ اس سے ماں اور باپ دونوں کے کام اور خاندانی ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جہاں باپ کی چھٹیوں کا تصور موجود ہے وہاں ان کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے جو کہ بڑے صنفی فرق کے ساتھ اوسطاً 9 دن پر محیط ہوتا ہے۔
دریں اثنا گزشتہ روز شائع ہونے والی عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خواتین کے لیے قانونی مساوات کو بہتر بنانے کے لیے مزید اصلاحات لائے۔
تاہم ’خواتین، کاروبار اور قانون 2022‘ کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے کام کرنے کے فیصلوں کو متاثر کرنے والے قوانین کی بات کی جائے تو پاکستان کو بہترین اسکور حاصل ہے۔
حالیہ اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر 2020 سے اکتوبر 2021 تک پاکستان نے خواتین پر رات کے وقت کام کرنے پر پابندیاں ہٹا دیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں خواتین کو مردوں کی طرح کاروبار رجسٹر کروانے کی اجازت حاصل نہیں ہے۔
برسرروزگار خواتین کے لائف سائیکل کے مطابق 190ممالک پر مشتمل درجہ بندی کے ساتھ مرتب کردہ رپورٹ نے پاکستان کا اسکور 100 میں سے 55.6 رکھا، جو پورے جنوبی ایشیا کی علاقائی اوسط سے کم ہے۔
ایک مثال دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے لیے سب سے کم اسکور ایک ایسے قوانین کا جائزہ لینے والے انڈیکیٹر میں ہے جو بچے کی پیدائش کے بعد خواتین کے کام کو متاثر کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس اسکور کر کو بہتر بنانے کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے زچگی کی چھٹیوں کا 100 فیصد استعمال کرنے، نومولود بچوں کے والد کو بھی تنخواہ سمیت چھٹی دینے، بچے کی پیدائش کے بعد والدین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی دینے اور حاملہ خواتین کی نوکری سے برخاستگی پر پابندی لگانے پر غور کیا سکتا ہے۔
جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے زیادہ اسکور نیپال کا 100 میں سے 80.6 تھا۔
‘خواتین، کاروبار اور قانون’ کے عنوان سے انڈیکس میں قانون، جائز حقوق، بعض فوائد کی فراہمی اور ایسے شعبوں میں واضح امتیازی سلوک کا جائزہ لیا گیا ہے جہاں خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت کو تقویت دینے کے لیے اصلاحات کی جاسکتی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں مردوں کو حاصل قانونی حقوق کے مقابلے میں خواتین کو صرف 2 تہائی حق حاصل ہیں، خطے میں صرف ایک معیشت میں اصلاحات ہوئی ہیں۔
بہتری کے شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیاں، خواتین کی تنخواہ پر اثر انداز ہونے والے قوانین، شادی سے متعلق رکاوٹیں، بچے پیدا کرنے کے بعد خواتین کے کام پر اثر انداز ہونے والے قوانین، خواتین کو کاروبار شروع کرنے اور چلانے میں رکاوٹیں، جائیداد اور وراثت میں صنفی فرق ، اور خواتین کی پنشن کے حجم کو متاثر کرنے والے قوانین کے حوالے سے خواتین کے لیے قانونی مساوات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان اصلاحات کرسکتا ہے۔
ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا کہ عالمی سطح پر مردوں اور عورتوں کی متوقع زندگی بھر کی مجموعی کمائی کے درمیان فرق 17 کھرب 23 ارب ڈالر ہے جو کہ عالمی جی ڈی پی کے دو گنا کے برابر ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایسے قوانین اپنانا ایک زیادہ معاون اور جامع دنیا کی جانب پہلا ضروری قدم ہے جو خواتین کے لیے مواقع اور حقوق کو تقویت فراہم کریں۔