بلغاریہ اور روس کے تعلقات روایتی طور پر بہتر ہیں لیکن یوکرین پر روسی حملے کے بعد اس ملک میں واضح تقسیم پیدا ہو گئی ہے۔ اب اس ملک میں روس نواز اور نیٹو کے حامی گروپ نمایاں طور پر اُبھر آئے ہیں۔
بلغاریہ میں ہر سال تین مارچ کو سلطنتِ عثمانیہ سے آزادی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس ملک کو یہ آزادی روس اور عثمانی حکومت کی فوجوں کے درمیان سن 1877-78 کی جنگ کے بعد ملی تھی۔ اس دن کو یوم آزادی کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے گرمجوش تعلقات کا بھی ایک نشان قرار دیا جاتا ہے۔ یوکرین میں روسی فوج کشی کے بعد ان دو طرفہ تعلقات میں پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے۔
دو مارچ کو روسی سفیر نے انیسویں صدی کے تنازعے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تعمیر ‘یادگارِ آزادی‘ پر پھول رکھے تو اُسی دن صوفیہ حکومت نے ایک فوجی جنرل کو روس کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا۔ اس گرفتاری کے بعد بلغاریہ کے وزیر اعظم کیریل پیٹکوف نے روس کے حق میں بیان دینے پر اپنے وزیر دفاع کو فارغ کر دیا۔
وزیر دفاع اسٹیفن یانیو کو ہٹاتے ہوئے ملکی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کسی وزیر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی کے نکات فیس بک پر بیان کرتا پھرے اور نہ ہی کوئی وزیر یوکرین میں پیدا حالات کو جنگ کے علاوہ کچھ اور قرار دے۔
اسٹیفن یانیو مغربی دفاعی اتحاد کی فوج میں بھی ایک اعلیٰ افسر ہیں اور انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کردہ بیان میں یوکرین میں روسی جارحیت کو محض ایک ‘آپریشن‘ کا نام دیا تھا۔ اس بیان میں ان کا انداز کم و بیش روسی صدر ولادیمیر پوٹن ہی جیسا تھا۔
قبل ازیں گزشتہ برس دسمبر میں وہ بلغاریہ میں نیٹو افواج کی تعیناتی پر بھی سخت الفاظ میں تنقید کر چکے ہیں۔ حال ہی میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر ملکی میڈیا جس طرح یوکرینی تنازعے کی کوریج کر رہا ہے، اس سے ان کے ملک کے قومی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
بلغاریہ کی حکومت میں تقسیم
مبصرین کے مطابق وزیر دفاع اسٹیفن یانیو کی برخاستگی نے وزیر اعظم کیریل پیٹکوف کی حکومت میں پائی جانے والی تقسیم کو واضح کر دیا ہے۔ روس کی یوکرین پر فوجی چڑھائی کے بعد سے بلغاریہ کے وزیر اعظم کو اپنی مخلوط حکومت میں پیدا تناؤ کو کنٹرول کرنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یورپی یونین کے پاسپورٹوں کا کاروبار ’ایک خطرناک پیش رفت‘
پیٹکوف کی حکومت روس نواز سوشلسٹوں اور مغربی اصلاحات کے حامیوں پر مشتمل ہے۔ روس نواز سوشلسٹوں نے بلغاریہ اور یورپی یونین کی روس پر عائد پابندیوں کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے روسی ٹیلی وژن اور اسپٹنک پر پابندی کی بھی مخالفت کی تھی۔
بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں قائم انسٹیٹیوٹ برائے گلوبل انیلیسز کی ریسرچر رومینا فیلیپووا کا کہنا ہے کہ اپنے بیانات میں سوشلسٹوں نے یوکرین پر روسی حملے کی جہاں مذمت کی تھی وہاں انہوں نے کییف حکومت کی فوجی امداد اور روس پر پابندیوں کے خلاف بھی آواز بلند کی تھی۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق رواں برس فروری میں بلغاریہ کی چالیس فیصد عوام اپنے ملک کی نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے مثبت رائے رکھتی تھی اوراٹھائیس فیصد اپنے ملک کی مغربی دفاعی اتحاد میں عملی کردار کے متمنی تھے۔
اس ملک میں یوکرین پر حملے کے بعد روسی صدر کی مقبولیت کم ہو کر صرف بتیس فیصد رہ گئی ہے اور سن 2022 کے اوائل میں یہ پچاس فیصد تھی۔