یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ماسکو پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے سپلائی کے خدشات کسی حد تک ممکنہ طور پر کم کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اوپیک کے ساتھی ممبران سے پیداوار کو بڑھانے کے متوقع مطالبے کی اطلاعات کے بعد تیل کی قیمت میں 12 فیصد سے زائد کمی آئی ہے۔
ڈان اخبار میں خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی شائع رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح سے نیچے آنے سے روسی سپلائی میں رکاوٹ سے متعلق کچھ سرمایہ کاروں کے خدشات کم ہوگئے، بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے کہا کہ تیل کے ذخائر کو مزید استعمال کیا جاسکتا ہے۔
قیمتوں میں کمی فنانشل ٹائمز کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آئی جس کے مطابق واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات تیل کی پیداوار بڑھانے کا حامی ہے۔
میزوہو میں توانائی کے مستقبل کے ڈائریکٹر باب یاوگر نے کہا کہ یہ معمولی نہیں ہے، وہ تقریباً 8 لاکھ بیرل بہت تیزی سے مارکیٹ میں لا سکتے ہیں، حتیٰ کہ وہ فوری طور پر روسی سپلائی کا ساتواں حصہ مارکیٹ میں لا سکتے ہیں۔
برینٹ آئل 12.4 فیصد کم ہوکر 112.15 ڈالر فی بیرل پر آگیا، جب کہ ڈبلیو ٹی آئی 11.4 فیصد کم ہوکر 109.59 ڈالر فی بیرل ہوگیا۔
دنیا کے دوسرے بڑے خام تیل کے برآمد کنندہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کے بعد دنیا نے روس پر تیل کی درآمد پر پابندی سمیت دیگر مالی پابندیوں کی صورت میں ان حملوں کا جواب دیا، اس وقت سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 30 فیصد سے زائد اضافہ ہوا اور یہ 2008 کی بلند ترین سطح یعنی 139 ڈالر فی بیرل پر پہنچ گیا۔
ٹریڈنگ کے پچھلے 6 دنوں میں برینٹ میں 28 فیصد کا اضافہ ہوا اور تیزی کی نشاندہی کرنےوالے ریلیٹو اسٹرینتھ انڈیکس سے ظاہر ہوا کہ مارکیٹ حصص کی فروخت کے لیے تیار تھی۔
باب یاوگر نے کہا کہ اس سطح پر یقیناً تھوڑا کمی آنے کی گنجائش موجود تھی، اس صورتحال میں خریدار ختم ہونے جا رہے تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو روسی تیل پر فوری پابندی عائد کر دی لیکن بڑے یورپی ممالک اس فیصلے میں شامل نہیں ہوئے، جس کی بڑی وجہ ان ممالک کا روسی تیل پر زیادہ انحصار ہے۔
برطانیہ نے کہا کہ وہ روسی درآمدات کو ختم کر دے گا جبکہ دیگر متعدد خریداروں نے روسی خام تیل خریدنا بند کر دیا ہے۔
مالیاتی ادارے جے پی مورگن کے مطابق روسی سمندری تیل کی تقریباً 70 فیصد فروخت کے لیے خریدار تلاش کرنے میں چیلنج کا سامنا ہے۔