اسلام آباد – پاکستانی سیاست عام حالات میں بھی ”کچھ بھی ممکن ہے“ کے کلیہ پر ہی چلتی ہے لیکن اپوزيشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد ملکی سیاست میں ایک طوفان برپا ہو گیا ہے، جس کے باعث اس کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال کے دھند میں مستقبل کے واقعات کا صحیح تعین کرنا سیاسی تجزیہ نگاروں کے لیے بھی ایک مشکل امر بن چکا ہے
علیم خان، جہانگیر ترین گروپ مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے میں تاحال ناکام
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رہنما علیم خان کی لندن میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف سے ملاقات کے ایک روز بعد جہانگیر ترین گروپ کے ناراض اراکین غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے علیم خان سے ملنے جا پہنچے
دونوں گروپوں کے درمیان ملاقات اس پس منظر میں ہوئی جب علیم خان، جہانگیر ترین کی عیادت کے بغیر لندن سے واپس آ گئے اور ترین گروپ کے ارکان نے کہا کہ وہ علیم خان کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار کے طور پر قبول نہیں کریں گے
ترین گروپ کے مرکزی رہنماؤں سعید اکبر نوانی اور عون چوہدری نے علیم خان سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی اور حکمران جماعت پی ٹی آئی میں دونوں گروپوں کے کردار پر تبادلہ خیال کیا
دورہ کرنے والے رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ دونوں گروپوں کو پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے جس نے مرکز اور پنجاب میں اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے سینئر رہنماؤں کے ساتھ ناروا سلوک کیا
ذرائع نے بتایا کہ علیم خان گروپ، جو ابھی تک اپنے ٹھوس نمبروں کے ساتھ منظر عام پر نہیں آیا ہے، علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار کے طور پر قبول کرنے سے انکار کیے جانے پر ترین گروپ سے ناراض ہے
علیم خان گروپ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ترین گروپ کی جانب سے فوری رابطہ علیم خان کی ناراضگی اور ان کی لندن میں جہانگیر ترین سے ملاقات نہ کرنے کے دانستہ اقدام کا نتیجہ ہے
7 مارچ کو جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر جانے سے پہلے علیم خان نے پی ٹی آئی کے وزرا اور ایم پی ایز کے لیے ظہرانے کا اہتمام کیا اور انہیں اپنی طاقت قرار دیا
تاہم متعدد وزرا اور ایم پی ایز نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو معزول کرنے کی کوشش میں علیم خان کا ساتھ دینے سے فوری طور پر انکار کردیا
علیم خان نے ابھی تک اپوزیشن، پی ٹی آئی گروپوں یا حکمران جماعت کے اتحادیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کے لیے اپنے گروپ کے نمبر نہیں ظاہر کیے
علیم خان کیمپ میں موجود ایک اور ذرائع نے کہا کہ ہم مناسب وقت پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے
موجودہ حکومت کے آغاز سے ہی علیم خان انہیں نظر انداز کیے جانے اور ’پیرا شوٹر‘ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ منتخب کرنے پر ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں
انہیں آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ قومی احتساب بیورو کے عتاب کا بھی سامنا کرنا پڑا، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ پارٹی کے اندر موجود ان کے ‘مخالفین’ کے کہنے پر بنایا گیا ہے
عثمان بزدار بھی متحرک
ترین گروپ نے (کل) پیر کو اپنی میٹنگ طے کی ہے، دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وزیر اعظم کی جانب سے پی ٹی آئی کے تمام ایم پی ایز کا ساتھ برقرار رکھنے کا ٹاسک سونپے جانے کے بعد پارٹی کی طاقت ظاہر کرنے کے لیے صوبائی وزرا اور ایم پی ایز کے ساتھ ملاقاتیں جاری رکھی ہوئی ہیں
وزیراعلیٰ آفس کے مطابق عثمان بزدار سے تیس سے زائد ایم پی ایز نے ملاقات کی اور ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، ایم پی ایز نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں
وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے والوں میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے اظہر عباس چانڈیہ، پی ٹی آئی کے ایم پی اے اشرف خان رند، سردار منصور علی خان، میاں علمدار عباس قریشی، نیاز حسین خان، عون حمید، غزین عباسی، سمیع اللہ چوہدری، ندیم قریشی، آصف مجید، لطیف انذر، سردار فاروق امان اللہ دریشک، سردار اویس دریشک، عبدالرحمن خان، چوہدری عادل پرویز گجر، گلریز افضل گوندل، عمر فاروق، رانا شہباز احمد، احسن سلیم بریار اور میاں فرخ ممتاز مانیکا شامل ہیں
وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے والوں میں پی ٹی آئی رہنما سلیم بریار، طاہر بشیر چیمہ اور سید عباس علی شاہ بھی شامل ہیں
حکومت جہانگیر ترین یا علیم خان کی حمایت ظاہر کرنے والے مختلف وزرا اور ایم پی ایز کو واپس لانے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن ساتھ ہی حکومت ترین گروپ کے سینئر رکن اجمل چیمہ کے کاروبار کے خلاف پولیس کارروائی کے ذریعے دباؤ کے حربے بھی استعمال کر رہی ہے اور ایم پی اے خرم لغاری کو ان کے خلاف مقدمات بھی یاد دلا رہی ہے
حکومت اور اتحادیوں میں بڑھتی دراڑوں سے اپوزیشن کو چند روز میں حکومتی اتحاد ٹوٹنے کی امید
مسلم لیگ (ق) کی مزاج میں بھی تلخی آچکی ہے کیونکہ اسے ابھی تک پی ٹی آئی یا اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کوئی قابل قبول پیشکش نہیں ملی
اب (ق) لیگ کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت پر اتحادیوں کے ساتھ مسائل حل کرنے میں ناکامی پر سخت تبصرہ کیا جارہا ہے
مسلم لیگ (ق) کا مطالبہ ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنایا جائے
اہم وفاقی وزیر داخلہ اور وفاقی وزیر آبی امور مونس الہٰی کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حکومتی اتحاد میں دراڑ نمایاں ہوگئی ہے
وزیرداخلہ شیخ رشید نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ایک سوال پر نام لیے بغیر پاکستان مسلم لیگ (ق) کو تنقید کانشانہ بنایا تاہم پنجاب کا حوالہ دے کر وضاحت بھی کردی
شیخ رشید نے کہا کہ ‘میں عمران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا ہوں، باقی کسی کا میں ذمہ دار نہیں ہوں، میں ان لوگوں کی طرح نہیں ہوں، جن کے پاس 5،5 ووٹ ہیں اور صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لیے بلیک میل کر رہے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں عمران خان کے ساتھ سایے کی طرح کھڑا ہوں، میں سچ کہہ رہا ہوں کہ ان کے لیے عمران خان نے بطور وزیراعظم کہا کہ میں سڑکوں پر آگیا تو بہت خطرناک ہوں اور واقعی خطرناک ہے’۔
شیخ رشید نے صحافی کے پوچھنے پر کہ پی ٹی آئی کے اتحاد میں تین صوبوں کی حکومتیں شامل ہیں اور آپ کا کس کی طرف اشارہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘میں پنجاب کی سیاست کے بارے میں بات کر رہا ہوں
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور وفاقی وزیر چوہدری مونس الہٰی نے ٹوئٹر پر شیخ رشید کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”میں شیخ رشید صاحب کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ اسی جماعت کے لیڈروں کے بزرگوں سے جناب اپنی اسٹوڈنٹ لائف میں پیسے لیا کرتے تھے“
اس معاملے سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے وزیراعظم عمران خان سے کہا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے متبادل کے طور پر پرویزالہٰی کا اعلان کریں
ان کا کہنا تھا کہ ”پاکستان مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کی بطور وزیر اعلیٰ اعلان کرنے کا پیغام وزیراعظم تک پہنچا دیا اور اس فیصلے سے پنجاب میں جہانگیر ترین گروپ کی بغاوت کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد ملے گی“
ذرائع نے بتایا کہ اس کے جواب میں پاکستان مسلم لیگ (ق) وزیراعظم کی حمایت کا کھلے عام اعلان کرے گی اور مرکز میں اپوزیشن کے قدم روکنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گی
ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم پنجاب میں وزیراعلیٰ کی سیٹ کے لیے چوہدری پرویز الہٰی کو نامزد کرنے کا فیصلہ وقت پر نہیں کرتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ (ق) دوسرے فیصلوں کے لیے آزاد ہے
خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کی سیٹوں کی تعداد 5 ہے اور عدم اعتماد کی تحریک کے لیے بہت اہم تصور کیے جارہے ہیں
اسی طرح درجنوں اراکین کے حمایت یافتہ باغی گروپ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانا چاہتا ہے اور اپنے گروپ میں سے کسی کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے پارٹی قیادت کے ساتھ لابننگ کررہا ہے
تاہم یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ امیدوار علیم خان نہیں ہوں گے بلکہ جہانگیر خان حتمی نام کا فیصلہ کریں گے
دوسری جانب مشترکہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کے اتحادیوں ایم کیو ایم پاکستان اور بی اے پی کے ساتھ ان کے مذاکرات میں ’نمایاں پیش رفت‘ سامنے آئی ہیں
اپوزیشن جماعتوں کے پی ٹی آئی حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات ’حتمی مرحلے‘ میں داخل ہو چکے ہیں، مشترکہ اپوزیشن کو امید ہے کہ حکمران اتحاد ’گھنٹوں نہیں تو چند دنوں میں‘ ٹوٹ جائے گا
اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کا حصہ بننے والے مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ حکومتی اتحادیوں بالخصوص مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم پاکستان اور بی اے پی کے ساتھ ہماری بات چیت آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے یہ اگر گھنٹوں نہیں تو چند روز کی بات ہے کہ وہ اتحاد چھوڑ کر ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے
انہوں نے کہا کہ اتحادیوں نے عمران خان سے علیحدگی اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا ہے لیکن دونوں فریقین کے درمیان ’کچھ معاملات‘ پر کام کیا جا رہا ہے
انہوں نے کہا کہ ’اتحادیوں کا خیال ہے کہ وہ اپوزیشن سے شرائط منوانے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں، کیونکہ اپوزیشن وزیراعظم عمران خان کو نکالنے کے لیے صرف پی ٹی آئی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی پر انحصار کرنے کے لیے پر اعتماد نہیں ہے‘
حکومت کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد تحریک عدم اعتماد کے دوران پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے ووٹوں کا شمار نہیں کریں گے، اتحادی اپوزیشن کے لیے مزید اہم ہوگئے ہیں
حزب اختلاف کے ایک اور اندرونی ذرائع نے کہا کہ اتحادی مشترکہ اپوزیشن کے ساتھ معاملات میں کچھ ’قابل اعتماد ضامن‘ رکھنے کے خواہاں ہیں
انہوں نے کہا کہ ماضی میں طاقتوں کے ضامن سامنے آتے اور اس طرح کے معاہدوں پر مہر لگا دیتے تھے لیکن اب اتحادی، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے حوالے سے ہوشیار ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسے ضامنوں کے بغیر اعتماد کی کمی ہے
وزیراعظم کی پرویز الٰہی سے ملاقات کا امکان
دوسری جانب وزیراعظم خان اتحادیوں کو حکومت کے ساتھ وفادار رکھنے کی آخری کوشش کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ان کی (آج) اتوار کو مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کا امکان ہے
مسلم لیگ (ق) وزیر اعظم سے پہلے ہی کہہ چکی ہے وہ تحریک عدم اعتمادکے سلسلے میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل عثمان بزدار کی جگہ وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے پرویز الٰہی کے نام کا اعلان کریں
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’اگر وزیراعظم اتوار کو پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لیے امیدوار کے طور پر پرویز الٰہی کے نام کا اعلان نہیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اہم اتحادی سے محروم ہوجائیں گے‘
مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم پی دونوں نے مبینہ طور پر وزیر اعظم کو پیغام پہنچا دیا ہے کہ انہیں اپوزیشن کی جانب سے انہیں حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی صورت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور سندھ کے گورنر کی عہدوں کے علاوہ پولنگ کے بعد کے دیگر انتظامات کی پیش کش ہوئی ہے.