جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا ’بدلہ‘ لینے والا ادھم سنگھ کون تھا؟

نیاز فاروقی

تاریخ تھی 13 مارچ 1940 اور دوپہر کا وقت تھا۔ پنجاب کے سابق لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈائر لندن کے کیکسٹن ہال میں تھے۔ اچانک ایک سکھ نوجوان ان کے قریب پہنچا اور انھیں گولی مارکر ہلاک کر دیا۔ گولی چلانے کے بعد اس نے بھاگنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور جائے واردات پر ہی موجود رہا

اس نوجوان نے بالآخر اپنا بدلہ لے لیا تھا، جس مقصد کے لیے وہ چھ برس قبل 1934 میں امرتسر سے لندن پہنچا تھا۔ برصغیر پر برطانوی سامراج کے قبضے کے خلاف کام کرنے والی غدر پارٹی کے اس رکن کا نام ادھم سنگھ تھا اور اس نے یہ قتل سنہ 1919 میں انڈین پنجاب کے جلیانوالہ باغ کے واقعے کے بدلے طور پر کیا تھا

ادھم سنگھ خود کو برطانوی حکومت کے حوالے کر کے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ انھوں نے ڈائر کو کیوں مارا لیکن اس ایک لمحے میں ہی وہ کسی کے لیے ہیرو تو کسی کے لیے ولن بن گئے تھے

جب انگلینڈ میں انہیں سزائے موت دی گئی تو ہندوستان میں وہ ’شہید اعظم‘ کے نام سے مشہور ہوئے

کیکسٹن ہال میں ان کی فائرنگ سے مزید تین لوگ زخمی بپی ہوئے تھے۔ اسی دن انھوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’میں نے احتجاج کرنے کے لیے گولی چلائی۔ میں نے لوگوں کو برطانوی سامراج کے تحت فاقہ کشی کے وجہ سے مرتے دیکھا ہے۔ احتجاج کرنے پر مجھے افسوس نہیں‘

ادھم سنگھ ذہنی طور پر تیار تھے کہ ان کے اس فعل کا نتیجہ ان کی موت پر ہی منتج ہو گا۔ انھوں نے کہا ’مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے مرنے میں کوئی اعتراض نہیں۔ بوڑھے ہونے تک مرنے کا انتظار کرنے کا کیا فائدہ؟ آپ کو جوانی میں ہی مرنا چاہیے، میں یہی کر رہا ہوں۔ میں اپنے ملک کے لیے مر رہا ہوں۔‘

ادھم سنگھ کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے اور ان کی نوجوانی امرتسر کے ایک یتیم خانے میں گزری تھی

بیس سال کی عمر میں انہوں نے جلیانوالہ باغ کا واقعہ دیکھا تھا، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ وہ سبھی غیر مسلح تھے، جو کہ بیساکھی کا تہوار منانے اور کانگریس کے رہنما سیف الدین کیچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری پر ہونے والے ایک پر امن احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے

ادھم سنگھ کی اس اجتماع میں موجودگی کے بارے میں میں فوجا سنگھ اپنی کتاب ’ایمیننٹ فریڈم فائٹرز آف پنجاب‘ میں لکھتے ہیں کہ ادھم سنگھ رتنا دیوی نام کی ایک عورت کے شوہر کو بچانے کے لیے وہاں گئے تھے جن کے جسم کی شناخت کے دوران ان کے دائیں بازو میں گولی لگی تھی

فوجا سنگھ مزید لکھتے ہیں کہ ’ادھر ہی ادھم سنگھ نے مرکزی مجرم مائیکل ڈائر کو مناسب سزا دینے کی قسم کھائی‘

اس واقعے کی تقریباً دو دہائیوں کے بعد ادھم سنگھ کو آخر کار اس قتل عام کا بدلہ لینے کا موقع ملا تھا۔ حراست میں لیے جانے کے بعد اپنے ہم وطنوں میں اتحاد کا پیغام دینے کے لیے انھوں نے اپنی شناخت ’رام محمد سنگھ آزاد‘ کے طور پر کی اور زور دیا کہ انھیں صرف اسی نام سے جانا جائے

صحافی انیتا آنند لکھتی ہیں کہ مائیکل ڈائر کے قتل کے فوراً بعد کم از کم اکتیس محکموں نے تحقیقات شروع کی کہ وہ کون ہیں لیکن ابتدائی طور پر کچھ زیادہ معلومات سامنے نہیں آئی

جس وقت ادھم سنگھ نے یہ قل کیا، اس وقت تک دوسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی

برطانیہ کے مخالفین نے بھی اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہا۔ نازی جرمنی کے پروپیگنڈہ کے وزیر جوسف گوئبل نے اعلان کیا کہ ڈائر ایک انتہائی بے رحم اور خونریز گورنر تھے۔ گوئبل نے مزید کہا کہ ’انھوں نے آخری جنگ کے دوران برطانیہ کے مفاد کے لیے پنجابیوں کو اپنا خون بہانے پر مجبور کیا تھا۔ یہ قتل انتقام تھا اور پر جواز تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ انڈیا میں وسیع پیمانے پر بغاوت ہونے والی ہے۔‘

آنند کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے لیے اس واقعے کے وجہ سے خطرناک امکانات کے خوف سے حکومت نے ادھم سنگھ کو ’لون وولف‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جسکا مطلب یہ تھا وہ کسی بڑی سازش کا حصہ نہیں تھے یا ان کی نظریاتی پشت پناہی نہیں تھی

لیکن حقیقت مختلف تھی۔ وہ سنہ 1924 سے غدر پارٹی کے رکن تھے، جو ایک عسکریت پسند تنظیم تھی اور سامراجی طاقتوں کے خلاف تھی

اس کے زیادہ تر ممبران امریکا میں رہائش پذیر ہندوستانی تھے۔ بھگت سنگھ کی اپیل پر ادھم سنگھ نے امریکا سے ہندوستان واپس آنے کا فیصلہ کیا لیکن جلد ہیں انہیں اسلحہ اور برطانیہ مخالف رسالے، غدر دی درری اور غدر دی گونج، کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور انھیں چار سال کی سزا سنائی گئی

وہ بھگت سنگھ اور ان کے نظریات سے متاثر تھے۔ مؤرخ جے ایس گریوال اور ایس کے پوری کے مطابق بھگت سنگھ کی پھانسی کے ایک سال بعد ادھم سنگھ کو بھگت سنگھ کی ایک چھوٹی تصویر ہاتھ میں لیے رقص کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا بلکہ انھوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ جس دن بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی، وہ بھی اسی دن مرنا چاہتے ہیں

جیل سے رہا ہونے کے بعد حکوت کی ان پر نظر تھی لیکن وہ کشمیر اور جرمنی کے راستے سنہ 1934 میں برطانیہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے

برطانیہ میں وہ لندن کے ایک گردوارہ میں اکثر جایا کرتے تھے، جہاں ان کی ملاقات ایک سابق انقلابی شیو سنگھ جوہال سے ہوئی جو کہ سنہ 1920 کی دہائی میں وہاں ہجرت کر چکے تھے۔ وہ دونوں اس قدر قریب ہو گئے کہ جب ادھم سنگھ ڈائر کو گولی مارنے کے بعد جیل میں تھے تو انھوں نے سب سے پہلا خط جوہال کو لکھا

اپنے خطوط میں وہ جوہال سے عدالت میں حلف نامے کے لیے ہیر وارث شاہ سمیت دیگر کتابیں بھیجنے کی درخواست کرتے تھے

انہوں نے برطانوی راج پر طنز کرتے ہوئے ان خطوط میں لکھا کہ وہ اب شاہی خاندان کے مہمان ہیں۔ انھوں نے ان خطوط میں مزید لکھا کہ انھیں اپنے دفاع کے لیے کسی وکیل کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ’پھندے کو اپنی دلہن بنانا چاہتے ہیں‘ جیسا کہ ان کے ہیرو بھگت سنگھ ’موت سے شادی کرنا چاہتے تھے۔‘

ان خطوط میں سے ایک میں ادھم سنگھ نے جوہال سے قرآن مانگا لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا کہ ’میں نے اپنا خدا انڈیا میں چھوڑ دیا لیکن میں نے سنا ہے کہ ایک انگریزی خدا ہے جسے میں نہیں سمجھتا ہوں اور میں گائے اور خنزیر کھاتا ہوں کیونکہ وہ یورپی ہیں۔‘

وہ کچھ خفیہ بات کہنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن شاید جوہال انھیں سمجھ نہیں پائے۔ انھوں نے قرآن اور شاعری کی کچھ کتابیں بھیج دیں۔ مایوس ہو کر سنگھ نے جوہال کے نام کا مذاق اڑاتے ہوئے پھر خط لکھا کہ ’مسٹر جاہل سنگھ، میں آپ کی کتابیں واپس بھیج رہا ہوں۔‘

جب ادھم سنگھ اپنی پسندیدہ ’کتاب‘ کو حاصل کرنے سے قاصر رہے تو انھوں نے جیل وارڈن کی مدد سے ایک خط باہر سمگل کیا۔ اس خط میں وہ زیادہ واضح تھے۔ اس کی پہلی چند سطریں انگریزی میں تھیں لیکن چونکہ حکومت تمام مواصلات کو پڑھتی تھی تو بقایا خط اردو میں تھا جو کہ وہاں انگریز پڑھنا نہیں جانتے تھے

انہوں نے لکھا کہ مذکورہ بالا انگریزی سطریں بیکار کی باتیں ہیں۔ کام کی بات یہ کہ انھیں ایک آری چاہیے جو جوہال ایک پرانی کتاب میں چھپا کر انھیں قید میں بھیجیں۔

لیکن حکومت اب تک محتاط ہو چکی تھی۔ عہدیداروں نے ان کا خط پڑھ لیا اور ادھم سنگھ کو ان کی ’کتاب‘ نہیں ملی لیکن اس سے حکومت کو یہ خدشہ ہوا کہ وہ خودکشی کرنا چاہتے ہیں اور ان سے ان کے مطالعہ کرنے والے چشمے کو بھی ضبط کر لیا گیا

وہ بھوک ہڑتال پر چلے گئے جو بیالیس روز تک ان کے پھانسی کے دن تک جاری رہی، سوائے اس کے کہ جب انہیں زبردستی کھلایا جاتا تھا

انہوں نے ایک ’کماری‘ کو بھی خطوط لکھے تھے لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ کون تھیں یا کیا تھا

آنند ایک خفیہ میمو کے حوالے سے جو کہ انڈین انٹلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر کو بھیجا گیا تھا لکتھی ہیں کہ جس صبح ادھم سنگھ نے ڈائر کو ہلاک کیا وہ ’ایگزٹ پرمٹ کی سفارش کے لیے‘ انڈیا آفس گئے تھے

اس میمو کے مطابق ’دراصل وہ وہاں انڈین مشیروں میں سے ایک، حسن سہروردی، سے ملنے گئے تھے لیکن وہ اس وقت وہاں نہیں تھے۔‘

وہاں سے روانگی کے دوران ادھم سنگھ نے ایک نوٹس بورڈ دیکھا جس میں 13 مارچ کی دوپہر کو ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن اور سنٹرل ایشین سوسائٹی کے ایک مشترکہ اجلاس کا اعلان کیا گیا تھا جس میں ڈائر آنے والے تھے۔ وہ سیدھے اس اجلاس میں پہنچ گئے

ڈائر اور دیگر مقررین اگلی صف میں بیٹھے تھے۔ سنگھ ہال کے دائیں حصے میں کھڑے ہو گئے۔ اجلاس ختم ہوتے ہی وہ تیزی سے آگے بڑھے اور اپنی بندوق کی تمام چھ گولیوں کو ان کے جسم میں خالی کر دیا

ان کے پاس سے مزید 25 گولیاں اور ایک چھری ضبط کی گئی

انڈیا میں مہاتما گاندھی نے ان کے اس فعل کو ’پاگل پن‘ کہا۔ شروعات میں نہرو نے بھی اس پر منفی ردعمل دیا لیکن بعد میں کہا کہ ادھم سنگھ نے ہماری ’آزادی کے لیے پھانسی کو گلے لگایا۔‘

تاہم کانگریس کے نوجوان رہنماؤں نے پارٹی کے سالانہ اجلاس میں سنگھ کی حمایت میں نعرے بازی کی اور پنجاب اسمبلی میں پارٹی کے نمائندوں نے ادھم سنگھ کی مذمت کرنے سے صاف انکار کر دیا

ان پر قتل کا مقدمہ شروع ہونے سے پہلے برطانوی حکومت کو تشویش تھی کہ ادھم سنگھ اس موقع کو اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے استعمال کریں گے

حکومت نے خبروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً حکومت ہند کے سیکرٹری آف سٹیٹ نے گورنر جنرل کو لکھا کہ خبر رساں ایجنسی ’روئٹرز کے ساتھ بات بن گئی ہے اور ہم سنسر شپ بیورو کے ساتھ مل کر دوسرے چینلز کے ذریعہ پیغامات کو روکنے کے لیے جو ممکن ہو سکتا ہے وہ کریں گے۔‘

جبکہ برطانوی حکومت نے بیانیے پر قابو پانے کی کوشش کی۔ ادھم سنگھ نے اپنے طرف سے کوئی کثر نہیں چھوڑی

انہیں احساس تھا کہ ان کے فعل کا نتیجہ عدالت میں کیا ہو گا۔ دونوں کے وکیلوں میں سے کسی نے بھی مقدمے کے دوران جلیانوالہ باغ خونریزی کا ذکر نہیں کیا

انہوں نے عدالتی کارروائی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی لیکن جیسے ہی جج نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ کچھ کہنا چاہیں گے، ادھم سنگھ متحرک ہو گئے

انہوں نے جیب سے ایک نوٹ نکالا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ ’میں انگریز عدالت میں ایک انگریز جیوری کے سامنے کھڑا ہوں۔ آپ لوگ انڈیا جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو آپ کو انعامات دیے جاتے ہیں اور آپ کو ہاؤس آف کامنز کا حصہ بنایا جاتا ہے لیکن جب ہم انگلینڈ آتے ہیں تو ہمیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے گالی دیتے ہوئے مزید کہا ’خیر، مجھے کوئی پرواہ نہیں لیکن جب تم ہندوستان آتے ہو، یہ حکمراں لوگ خود کو دانشور کہتے ہیں، وہ خونی ہیں اور بنا کسی ہچکچاہٹ کے انڈین طلبہ پر مشین گنوں کو فائر کرنے کا حکم دیتے ہیں۔‘

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ برطانوی عوام کے خلاف نہیں بلکہ انھیں انگلینڈ کے ورکرز کے لیے بڑی ہمدردی ہے۔ وہ صرف ’گندی برطانوی حکومت‘ کے خلاف ہیں

جج نے انہیں وہاں سے لے جانے کا حکم دیا لیکن وہ چیختے رہے کہ ’تم لوگ گندے ہو۔ تم ہم سے یہ نہیں سننا چاہتے کہ تم انڈیا میں کیا کر رہے ہو۔ درندے۔ درندے۔ درندے۔ برطانیہ، برطانیہ سامراج مردہ باد۔‘

جاتے ہوئے انہوں نے بیرسٹرز پر تھوک دیا اور اپنے نوٹ کو پھاڑ کر ہوا میں پھینک دیا

آنند لکھتی ہیں کہ ’دور سے ان کی آواز آتی رہی کہ انقلاب، انقلاب، انقلاب۔‘

برطانوی حکومت خبروں کو باہر جانے سے روکنے میں کافی حد تک کامیاب رہی۔ پریس نے ادھم سنگھ کے آخری الفاظ کو رپورٹ نہیں کیا۔ ان کے کیس سے متعلق بیشتر کاغذات کو سو سال تک سیل کرنے کا حکم دے دیا گیا

برطانوی حکومت کی برصغیر سے رخصتی اور اس کی تقسیم سے تقریباً سات سال قبل ادھم سنگھ کو 31 جولائی سنہ 1940 کو پھانسی دے دی گئی

ان کے بچے کھچے سامان کو ان کے دوست جوہال کو واپس کر دیا گیا لیکن ان کی راکھ نہیں دی گئی۔ سنہ 1974 میں برطانیہ نے اس وقت کی بھارتی حکومت کے اصرار پر اسے بھارت واپس لانے کی اجازت دی

’رام محمد سنگھ آزاد‘ کی آخری رسومات ایک پجاری، ایک مولوی اور ایک گرنتھی نے ادا کیں

ان کی راکھ کا ایک حصہ ستلج ندی پر بکھیر دیا گیا، دوسرا حصہ مختلف مذاہب سے وابستہ مقامات پر بکھیرا گیا اور باقی حصہ جلیانوالہ باغ میں رکھا گیا.

بشکریہ : بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close