ایک ایسے وقت جب بھارت کی طرف سے پاکستان کے اندر برہموس میزائل فائر کیے جانے کے واقعے پر طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے، امریکہ نے بھارتی موقف کی تائید کر دی ہے۔ دوسری جانب چین نے پاکستان کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ فریقین کو مشترکہ طور پر مل کر یہ معاملہ حل کرنا چاہیے.
گزشتہ ہفتے پاکستان نے بھارت پر اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا اور اس حوالے سے بطور احتجاج بھارتی حکام سے وضاحت طلب کی تھی۔ اس کے دو روز بعد بھارت نے یہ بات تسلیم کی کہ اس کا ایک میزائل غلطی سے فائر ہو گیا اور وہ پاکستان کے اندر جا گرا.
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا امریکا بھارت اور پاکستان پر حالیہ میزائل واقعے اور دیگر مسائل پر براہ راست بات چیت کرنے پر زور دے گا تو انہوں نے کہا، ’ہم تشویش کے معاملات پر بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے رہیں گے‘.
اس سے قبل پیر کو چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واقعے کی مشترکہ تحقیقات کے پاکستان کے مطالبے کی حمایت کی اور تمام مسائل پر دونوں پڑوسیوں کے درمیان براہ راست بات چیت کی ضرورت پر زور دیا تھا.
بھارت نے اس پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی وجوہات کے سبب یہ غلطی سرزد ہوئی اور اسی لیے اس کی اعلی سطح پر تفتیش کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے اور بھی بہت سی باتیں کہی جا رہی ہیں اور اس پر طرح طرح کے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں.
چینی ترجمان ژاؤ لیجیان نے بیجنگ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم متعلقہ ممالک سے جلد از جلد رابطہ اور بات چیت کرنے کے علاوہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں’.
انہوں نے بھارت اور پاکستان پر بھی زور دیا کہ وہ ’معلومات کے تبادلے کو مضبوط بنائیں اور اس طرح کے واقعات کے دوبارہ ہونے سے بچنے اور غلط حساب کتاب کو روکنے کے لیے بروقت اطلاع کا طریقہ کار قائم کریں‘.
چینی عہدیدار نے کہا کہ پاکستان اور بھارت ’جنوبی ایشیا کے دونوں اہم ممالک ہیں، جو علاقائی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں‘.
چین اور امریکہ کا موقف
پاکستان کی سرزمین پر بھارتی میزائل فائر کیے جانے کے اسی معاملے پر جب امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان سے سوال کیا گیا کہ آخر امریکہ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہو سکتی تو ترجمان نیڈ پرائس نے کہا، ”جیسا کہ آپ نے ہمارے بھارتی شراکت داروں سے بھی سنا ہے، ہمارے پاس ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ واقعہ ایک حادثے کے علاوہ کچھ اور بھی تھا.”
اس حوالے سے ایک دوسرے سوال کے جواب میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ”ہم اس بارے میں مزید معلومات کے لیے آپ کو یقیناً بھارتی وزارت دفاع سے رجوع کرنے کو کہیں گے۔ انہوں نے اس کی وضاحت کے لیے نو مارچ کو ایک بیان جاری کیا تھا۔ اس معاملے میں ہمارے پاس اس کے علاوہ کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے.”
پیر کے روز ہی جب ایک پاکستانی صحافی نے چینی وزارت خارجہ سے بھارتی میزائل کی ”حادثاتی فائرنگ” پر ان کے ردعمل کے بارے میں پوچھا تو چینی ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ چین نے اس حوالے سے متعلقہ معلومات کا نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے کہا، ”پاکستان اور بھارت دونوں جنوبی ایشیا کے اہم ممالک ہیں، جن پر علاقائی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.”
ان کا مزید کہنا تھا، ”چین دونوں ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ اس پر جلد از جلد مکالمہ اور رابطہ کریں اور غور سے واقعے کا جائزہ لیں، معلومات کے تبادلے کو تیز کریں، اور فوری طور پر رپورٹنگ کا طریقہ کار قائم کریں تاکہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں اور غلط فہمی اور غلط اندازے سے بچا جا سکے.”
واضح رہے کہ پاکستان نے بھارتی کی جانب سے غلطی تسلیم کرنے کے بعد اس واقعے کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ چونکہ میزائل پاکستان میں گرا اس لیے اس کی تفتیش دونوں ملکوں کو مل کر مشترکہ طور پر کرنی چاہیے۔ بھارت نے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے، تاہم چین کے بیان سے لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے موقف کا حامی ہے.