وہ مسافر جو رات کی ٹرین میں سوار ہو کر روم سے سلمونہ جاتے، انہیں صبح ہونے تک فیبریانو کے ایک چھوٹے اسٹیشن پر رکنا پڑتا، تاکہ وہ وہاں سے برانچ لائن پر اپنا سفرجاری رکھتے ہوئے سلمونہ پہنچ سکیں.
صبح سویرے ایک سیکنڈ کلاس کی حبس والی دھوئیں بھری بوگی میں، کہ جس میں پانچ مسافر رات سے ہی سوار تھے، ایک حزین و غم زدہ، بھاری بھرکم، بنڈل کی طرح بےڈھنگی خاتون سوار ہوئی۔ اس کے پیچھے ہانپتا کانپتا اور کراہتا اس کا شوہر بھی داخل ہوا، جو چھوٹے قد کا دبلا لاغر شخص تھا، اس کے چہرے پر موت کی سی سفیدی تھی، آنکھیں گول اور چمکیلی تھیں اور وہ خاصا متذبذب اور پریشان نظر آتا تھا۔ سیٹ پر بیٹھ جانے کے بعد اس شخص نے بڑی شائستگی سے ان مسافروں کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے ٹرین پر سوار ہونے میں اس کی بیوی کی مدد کی اور بوگی میں ان کے لیے جگہ بنائی۔ پھر وہ اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے کوٹ کا کالر نیچے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بڑے دھیمے انداز میں پوچھا:
”بیگم! کیا آپ ٹھیک ہیں؟“
جواب دینے کے بجائے اس کی بیوی نے اپنے کوٹ کا کالر دوبارہ اوپر کرلیا کہ جیسے وہ اپنا چہرہ چھپانا چاہتی ہو
”گندی دنیا…!“ اس شخص نے ایک مایوس مسکراہٹ کے ساتھ کہا
پھر اس شخص نے یہ ضروری جانا کہ وہ بوگی میں موجود دیگر مسافروں کو بتائے کہ وہ عورت قابل رحم ہے، کیونکہ یہ جنگ اس کے اکلوتے بیٹے کو اس سے دور لے جارہی ہے، ان کا بیٹا بیس سال کا ہے اور اس کے لیے ان دونوں نے اپنی تمام زندگی وقف کردی، حتیٰ کہ سلمونہ میں اپنا گھر چھوڑ کر روم آباد ہو گئے، جہاں ان کا بیٹا زیر تعلیم ہے۔ پھر انہوں نے اسے اس بات کی بھی اجازت دی کہ وہ خود کو رضاکارانہ طور پر جنگ کے لیے پیش کردے، اس یقین دہانی کے ساتھ کہ اسے ابتدائی چھ مہینے تک محاذ پر نہیں بھیجا جائے گا۔ مگر اب اچانک انہیں ایک تار موصول ہوا کہ ان کے بیٹے کو تین دن بعد محاذ پر بھیجا جارہا ہے اور انہیں کہا گیا کہ وہ اسے الوداع کہیں
لمبے کوٹ میں ملبوس خاتون، پیچ و تاب کھا رہی تھی اور کبھی کبھار کسی جنگلی جانور کی طرح غرا بھی رہی تھی۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ یہ تمام وضاحتیں ایسے لوگوں میں ذرا سی بھی ہمدردی پیدا نہیں کریں گی، جو خود اسی قسم کی پریشانی میں گرفتار ہیں
ان میں سے ایک شخص، جو بڑی توجہ سے گفتگو سن رہا تھا، بولا ”تمہیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمہارا بیٹا اب محاذ پر روانہ ہورہا ہے۔ میرا بیٹا اسی دن بھیج دیا گیا تھا، جس دن جنگ شروع ہوئی۔ وہ دو مرتبہ زخمی ہو کر آیا اور پھر محاذ پر بھیج دیا گیا“
”آپ میرے بارے میں کیا کہیں گے، میرے دو بیٹے اور تین بھتیجے محاذ پر ہیں…“ ایک اور مسافر نے کہا
”ہوں گے، لیکن ہمارا یہ اکلوتا بیٹا ہے“ اس شخص نے کہنے کی جسارت کی
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ ضرورت سے زیادہ توجہ دے کر اپنے بیٹے کو خراب کر سکتے ہیں اور اگر آپ کے دیگر بچے بھی ہیں تو آپ ان بچوں کی نسبت اس بچے کو زیادہ پیار نہیں دے سکتے۔ ماں باپ کا پیار کوئی روٹی نہیں کہ جسے برابر حصوں میں تقسیم کر کے بچوں کو دے دیا جائے۔ ایک باپ، بغیر کسی تخصیص کے، اپنی تمام تر محبت اپنے بچوں کو دیتا ہے۔ چاہے وہ ایک ہو یا دس… اگر آج میں اپنے دو بیٹوں کا کرب محسوس کر رہا ہوں تو میرا یہ کرب آدھا نہیں بلکہ دگنا ہے…!“
”ٹھیک ہے…. ٹھیک“ اس خاتون کے شوہر نے بوکھلاتے ہوئے کہا ”لیکن فرض کریں (خدانخواستہ آپ کے ساتھ ایسا ہو) کسی باپ کے دو بیٹے محاذ پر گئے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک مارا جائے تو اپنے باپ کی دلجوئی کے لیے ایک تو موجود ہوگا… جبکہ…..“
”ہاں…“ ، ایک اور شخص نے اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے کہا ، ”ایک بیٹا اس کی دلجوئی کے لیے بھی اور اس لیے بھی کہ اس بیٹے کی خاطر اس کے باپ نے زندہ رہنا ہے، جبکہ کسی باپ کا وہ بیٹا مارا جائے جو اکلوتا ہو تو باپ بھی مرسکتا ہے تاکہ وہ اپنے کرب کو ختم کرسکے۔ ان دو حالتوں میں سے کون سی بدترین ہے!؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میرا معاملہ تمہارے معاملے سے شدید تر ہے؟“
”فضول!“ ایک مسافر نے بات کاٹتے ہوئے کہا، وہ ایک موٹے جسم کا مالک شخص تھا اور اس کی آنکھیں قرمزی اور بے رونق تھیں۔ وہ ہانپ رہا تھا اور اس کی سوجی ہوئی آنکھوں سے اس کے اندر کا لاوہ ایک بے قابو شدت کے ساتھ باہر آتا محسوس ہوتا تھا کہ جسے اس کا بوڑھا جسم بمشکل سنبھالے ہوئے تھا ”فضول!“ وہ دوبارہ اپنے منہ کو اپنے ہاتھ سے چھپاتے ہوئے بولا، کیونکہ اس کے سامنے کے دو دانت جھڑ چکے تھے ’’یہ فضول گفتگو ہے، کیا ہم اپنے بچوں کو اپنے مفاد کی خاطر جنم دیتے ہیں؟“
تمام مسافروں نے انتہائی حیرت وپریشانی سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ شخص، جس کا بیٹا جنگ کے ابتدائی دن سے محاذ پر تھا، بڑے درد بھرے انداز میں بولا ”تم ٹھیک کہتے ہو، ہمارے بچے ہماری ملکیت نہیں، یہ ہمارے ملک کی ملکیت ہیں۔“
”بکواس!“ اس موٹے مسافر نے برجستہ جواب دیا ”جب ہم اپنے بچوں کو اس دنیا میں لا رہے ہوتے ہیں تو کیا ہم ملک کے بارے میں سوچتے ہیں؟ ہمارے بیٹے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ…. خیر، کیونکہ انہیں پیدا ہونا ہوتا ہے اور جب انہیں زندگی عطا کی جاتی ہے تو وہ ہماری زندگی بھی لے لیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا تعلق ان سے ہے، ان کا تعلق ہم سے قطعاً نہیں…! اور جب وہ بیس سال کی عمر میں پہنچتے ہیں تو وہ بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں، جیسے ہم اس عمر میں ہوا کرتے تھے“
ایک سکوت سا چھا گیا اور ہر شخص نے تسلیم کرتے ہوئے سر ہلایا، ”کیوں…‘‘ اس موٹے شخص نے گفتگو جاری رکھی، ”جب ہمارے بیٹے بیس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو کیا ہمیں ان کے احساسات وجذبات کا خیال نہیں رکھنا چاہیے؟ کیا یہ بات فطری نہیں کہ وہ اس عمر میں ملک کی محبت کو ہماری محبت پر ترجیح دیں؟ کیا یہ بھی فطری نہیں کہ وہ ہمیں ایسے بوڑھے سمجھتے ہوں، جو چل پھر نہیں سکتے اور جنہیں گھر پر ہی رہنا چاہیے؟ اگر ملک اپنی اہمیت و حیثیت رکھتا ہے اور یہ فطری ضرورت ہے، جیسے روٹی، کہ بھوکا مرنے سے بچنے کے لیے ہر شخص کو اسے کھانا پڑتا ہے، اسی طرح کسی نہ کسی کو ملک کے تحفظ کی خاطر مرنا پڑتا ہے۔ جب ہمارے بیٹے بیس سال کے ہوجائیں اور وہ محاذ پر جائیں تو اس وقت انہیں ہمارے آنسوؤں کی ضرورت نہیں ہوتی… کیونکہ وہ مرتے وقت شعلہ فشاں و شاداں رہنا زیادہ پسندکریں گے… تو اگر کوئی شخص زندگی کا ابتر پہلو دیکھے بغیر، اس کی بوریت کو محسوس کیے بغیر، اس کی کم مائیگی، اثر ربائی کی ترشی دیکھے بغیر ہی جوان اور شاداں مرجائے… تو اور اس کے لیے ہم کیا چاہ سکتے ہیں؟ لہٰذا رنج و ملال ختم کر کے ہر شخص کو خوش ہونا چاہیے، جیسے میں ہوں…. یا کم از کم خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے، جیسے میں کرتا ہوں…
کیونکہ میرے بیٹے نے مرنے سے پہلے مجھے ایک پیغام بھیجا کہ وہ بڑے اطمینان کی موت مر رہا ہے اور اس نے اپنی زندگی، اپنی خواہش کے مطابق، بڑے بہترین طریقے سے ختم کی۔ یہ وجہ ہے کہ میں نے ماتمی لباس نہیں پہنا….“
اس نے اپنے خاکستری رنگ کے کوٹ پکڑ کر ایسے جھٹک دیا، جیسے وہ اسے دکھانا چاہتا ہو؛ اس کے سامنے کے دو دانتوں کی خالی جگہ ہونے کی وجہ سے اس کا ہونٹ لرز رہا تھا، اس کی مرطوب آنکھیں ساکن تھیں، اس نے اپنی گفتگو کٹیلی آواز کے ساتھ ایک قہقہے پر ختم کی، جو شاید ایک سسکی تھی…
”بالکل ٹھیک… بالکل ٹھیک….“ دیگر لوگوں نے تائید کی
کوٹ میں ملبوس وہ خاتون جو ایک کونے میں بیٹھی یہ گفتگو سن رہی تھی…
گزشتہ تین ماہ سے… اسے اپنے شوہر اور اعزاء کے الفاظ میں اس چیز کی تلاش تھی، جو اس شدید غم و اندوہ میں اس کے اندر وہ جذبہ پیدا کر دے، جسے بروئے کار لا کر وہ اپنے بیٹے کو، موت کے لیے نہیں، بلکہ ایک خطرناک جگہ بھیجنے پر تیار ہوجائے۔ اس تمام گفتگو میں اسے ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملا… اور یہ دیکھ کر وہ مزید رنج میں مبتلا ہو گئی… جو اس کی سوچ کے مطابق اس کے دکھ درد کا ساجھی ہو۔
لیکن اب اس مسافر کی گفتگو نے اسے حیران اور حواس باختہ کردیا..
اسے یہ ادراک ہوا کہ وہ لوگ، جو اسے سمجھنے سے قاصر تھے، وہ غلطی پر نہیں تھے بلکہ وہ خود غلطی پر تھی، کیونکہ وہ ان والدین کے مقام تک نہیں پہنچ سکی، جو بغیر آہ و فغاں کیے، نہ صرف انہیں محاذ پر بھیجنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، بلکہ ان کی موت پر بھی کفِ افسوس نہیں ملتے۔
اس نے اپنا سر اٹھایا، کونے سے ہٹ کر ذرا آگے آئی، تاکہ اس موٹے شخص کی گفتگو کو توجہ سے سن سکے، جو وہ اپنے ساتھی مسافروں سے کر رہا تھا کہ کس طرح، خوشی خوشی اور بغیر کسی حسرت و ملال کے، اس کا بیٹا اپنے ملک پر قربان ہو کر ہیرو بن گیا… اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک ایسی دنیا میں آگئی ہے، جس کا اس نے کبھی خواب و خیال بھی نہ کیا، ایک ایسی دنیا جو اب تک اس کے لیے انجان تھی اور وہ یہ سن کر بہت اچھا محسوس کر رہی تھی کہ تمام لوگ اس بہادر باپ کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے، جو اپنے بیٹے کی موت کا قصہ بڑے ضبط واستقلال سے سنا رہا تھا
پھر وہ اچانک اس بوڑھے شخص کی طرف اس انداز سے بڑھی کہ جیسے اس نے وہ گفتگو بالکل نہ سنی ہو اور وہ کسی خواب سے بیدار ہوئی ہو، اور اس سے پوچھا:
”تو….. تو کیا تمہارا بیٹا واقعی مارا گیا؟“
ہر شخص اس خاتون کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ وہ بوڑھا شخص بھی اسے دیکھنے کے لیے مڑا اور اپنی بڑی، قرمزی، مرطوب اور خاکستری آنکھیں اس خاتون کے چہرے پر جما دیں۔ کچھ دیر اس نے جواب دینے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا… اور مسلسل اس خاتون کو دیکھتا رہا، جیسے اس احمقانہ اور بے محل سوال سے اسے ادراک ہوا کہ اس کا بیٹا واقعی اس دنیا سے چلا گیا…. ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا……
اس کا چہرہ بجھ گیا، حلیہ خوفناک حد تک بگڑ گیا… اس نے بڑی عجلت میں اپنی جیب سے رومال نکالا اور لوگ یہ دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوگئے کہ اس کا ضبط پاش پاش ہوگیا اور وہ بڑے دردناک اور دل خراش انداز میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا…..
وہ مسافر جو رات کی ٹرین میں سوار ہو کر روم سے سلمونہ جاتے، انہیں صبح ہونے تک فیبریانو کے ایک چھوٹے اسٹیشن پر رکنا پڑتا، تاکہ وہ وہاں سے برانچ لائن پر اپنا سفرجاری رکھتے ہوئے سلمونہ پہنچ سکیں.
صبح سویرے ایک سیکنڈ کلاس کی حبس والی دھوئیں بھری بوگی میں، کہ جس میں پانچ مسافر رات سے ہی سوار تھے، ایک حزین و غم زدہ، بھاری بھرکم، بنڈل کی طرح بےڈھنگی خاتون سوار ہوئی۔ اس کے پیچھے ہانپتا کانپتا اور کراہتا اس کا شوہر بھی داخل ہوا، جو چھوٹے قد کا دبلا لاغر شخص تھا، اس کے چہرے پر موت کی سی سفیدی تھی، آنکھیں گول اور چمکیلی تھیں اور وہ خاصا متذبذب اور پریشان نظر آتا تھا۔ سیٹ پر بیٹھ جانے کے بعد اس شخص نے بڑی شائستگی سے ان مسافروں کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے ٹرین پر سوار ہونے میں اس کی بیوی کی مدد کی اور بوگی میں ان کے لیے جگہ بنائی۔ پھر وہ اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے کوٹ کا کالر نیچے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بڑے دھیمے انداز میں پوچھا:
”بیگم! کیا آپ ٹھیک ہیں؟“
جواب دینے کے بجائے اس کی بیوی نے اپنے کوٹ کا کالر دوبارہ اوپر کرلیا کہ جیسے وہ اپنا چہرہ چھپانا چاہتی ہو
”گندی دنیا…!“ اس شخص نے ایک مایوس مسکراہٹ کے ساتھ کہا
پھر اس شخص نے یہ ضروری جانا کہ وہ بوگی میں موجود دیگر مسافروں کو بتائے کہ وہ عورت قابل رحم ہے، کیونکہ یہ جنگ اس کے اکلوتے بیٹے کو اس سے دور لے جارہی ہے، ان کا بیٹا بیس سال کا ہے اور اس کے لیے ان دونوں نے اپنی تمام زندگی وقف کردی، حتیٰ کہ سلمونہ میں اپنا گھر چھوڑ کر روم آباد ہو گئے، جہاں ان کا بیٹا زیر تعلیم ہے۔ پھر انہوں نے اسے اس بات کی بھی اجازت دی کہ وہ خود کو رضاکارانہ طور پر جنگ کے لیے پیش کردے، اس یقین دہانی کے ساتھ کہ اسے ابتدائی چھ مہینے تک محاذ پر نہیں بھیجا جائے گا۔ مگر اب اچانک انہیں ایک تار موصول ہوا کہ ان کے بیٹے کو تین دن بعد محاذ پر بھیجا جارہا ہے اور انہیں کہا گیا کہ وہ اسے الوداع کہیں
لمبے کوٹ میں ملبوس خاتون، پیچ و تاب کھا رہی تھی اور کبھی کبھار کسی جنگلی جانور کی طرح غرا بھی رہی تھی۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ یہ تمام وضاحتیں ایسے لوگوں میں ذرا سی بھی ہمدردی پیدا نہیں کریں گی، جو خود اسی قسم کی پریشانی میں گرفتار ہیں
ان میں سے ایک شخص، جو بڑی توجہ سے گفتگو سن رہا تھا، بولا ”تمہیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمہارا بیٹا اب محاذ پر روانہ ہورہا ہے۔ میرا بیٹا اسی دن بھیج دیا گیا تھا، جس دن جنگ شروع ہوئی۔ وہ دو مرتبہ زخمی ہو کر آیا اور پھر محاذ پر بھیج دیا گیا“
”آپ میرے بارے میں کیا کہیں گے، میرے دو بیٹے اور تین بھتیجے محاذ پر ہیں…“ ایک اور مسافر نے کہا
”ہوں گے، لیکن ہمارا یہ اکلوتا بیٹا ہے“ اس شخص نے کہنے کی جسارت کی
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ ضرورت سے زیادہ توجہ دے کر اپنے بیٹے کو خراب کر سکتے ہیں اور اگر آپ کے دیگر بچے بھی ہیں تو آپ ان بچوں کی نسبت اس بچے کو زیادہ پیار نہیں دے سکتے۔ ماں باپ کا پیار کوئی روٹی نہیں کہ جسے برابر حصوں میں تقسیم کر کے بچوں کو دے دیا جائے۔ ایک باپ، بغیر کسی تخصیص کے، اپنی تمام تر محبت اپنے بچوں کو دیتا ہے۔ چاہے وہ ایک ہو یا دس… اگر آج میں اپنے دو بیٹوں کا کرب محسوس کر رہا ہوں تو میرا یہ کرب آدھا نہیں بلکہ دگنا ہے…!“
”ٹھیک ہے…. ٹھیک“ اس خاتون کے شوہر نے بوکھلاتے ہوئے کہا ”لیکن فرض کریں (خدانخواستہ آپ کے ساتھ ایسا ہو) کسی باپ کے دو بیٹے محاذ پر گئے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک مارا جائے تو اپنے باپ کی دلجوئی کے لیے ایک تو موجود ہوگا… جبکہ…..“
”ہاں…“ ، ایک اور شخص نے اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے کہا ، ”ایک بیٹا اس کی دلجوئی کے لیے بھی اور اس لیے بھی کہ اس بیٹے کی خاطر اس کے باپ نے زندہ رہنا ہے، جبکہ کسی باپ کا وہ بیٹا مارا جائے جو اکلوتا ہو تو باپ بھی مرسکتا ہے تاکہ وہ اپنے کرب کو ختم کرسکے۔ ان دو حالتوں میں سے کون سی بدترین ہے!؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میرا معاملہ تمہارے معاملے سے شدید تر ہے؟“
”فضول!“ ایک مسافر نے بات کاٹتے ہوئے کہا، وہ ایک موٹے جسم کا مالک شخص تھا اور اس کی آنکھیں قرمزی اور بے رونق تھیں۔ وہ ہانپ رہا تھا اور اس کی سوجی ہوئی آنکھوں سے اس کے اندر کا لاوہ ایک بے قابو شدت کے ساتھ باہر آتا محسوس ہوتا تھا کہ جسے اس کا بوڑھا جسم بمشکل سنبھالے ہوئے تھا ”فضول!“ وہ دوبارہ اپنے منہ کو اپنے ہاتھ سے چھپاتے ہوئے بولا، کیونکہ اس کے سامنے کے دو دانت جھڑ چکے تھے ’’یہ فضول گفتگو ہے، کیا ہم اپنے بچوں کو اپنے مفاد کی خاطر جنم دیتے ہیں؟“
تمام مسافروں نے انتہائی حیرت وپریشانی سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ شخص، جس کا بیٹا جنگ کے ابتدائی دن سے محاذ پر تھا، بڑے درد بھرے انداز میں بولا ”تم ٹھیک کہتے ہو، ہمارے بچے ہماری ملکیت نہیں، یہ ہمارے ملک کی ملکیت ہیں۔“
”بکواس!“ اس موٹے مسافر نے برجستہ جواب دیا ”جب ہم اپنے بچوں کو اس دنیا میں لا رہے ہوتے ہیں تو کیا ہم ملک کے بارے میں سوچتے ہیں؟ ہمارے بیٹے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ…. خیر، کیونکہ انہیں پیدا ہونا ہوتا ہے اور جب انہیں زندگی عطا کی جاتی ہے تو وہ ہماری زندگی بھی لے لیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا تعلق ان سے ہے، ان کا تعلق ہم سے قطعاً نہیں…! اور جب وہ بیس سال کی عمر میں پہنچتے ہیں تو وہ بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں، جیسے ہم اس عمر میں ہوا کرتے تھے“
ایک سکوت سا چھا گیا اور ہر شخص نے تسلیم کرتے ہوئے سر ہلایا، ”کیوں…‘‘ اس موٹے شخص نے گفتگو جاری رکھی، ”جب ہمارے بیٹے بیس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو کیا ہمیں ان کے احساسات وجذبات کا خیال نہیں رکھنا چاہیے؟ کیا یہ بات فطری نہیں کہ وہ اس عمر میں ملک کی محبت کو ہماری محبت پر ترجیح دیں؟ کیا یہ بھی فطری نہیں کہ وہ ہمیں ایسے بوڑھے سمجھتے ہوں، جو چل پھر نہیں سکتے اور جنہیں گھر پر ہی رہنا چاہیے؟ اگر ملک اپنی اہمیت و حیثیت رکھتا ہے اور یہ فطری ضرورت ہے، جیسے روٹی، کہ بھوکا مرنے سے بچنے کے لیے ہر شخص کو اسے کھانا پڑتا ہے، اسی طرح کسی نہ کسی کو ملک کے تحفظ کی خاطر مرنا پڑتا ہے۔ جب ہمارے بیٹے بیس سال کے ہوجائیں اور وہ محاذ پر جائیں تو اس وقت انہیں ہمارے آنسوؤں کی ضرورت نہیں ہوتی… کیونکہ وہ مرتے وقت شعلہ فشاں و شاداں رہنا زیادہ پسندکریں گے… تو اگر کوئی شخص زندگی کا ابتر پہلو دیکھے بغیر، اس کی بوریت کو محسوس کیے بغیر، اس کی کم مائیگی، اثر ربائی کی ترشی دیکھے بغیر ہی جوان اور شاداں مرجائے… تو اور اس کے لیے ہم کیا چاہ سکتے ہیں؟ لہٰذا رنج و ملال ختم کر کے ہر شخص کو خوش ہونا چاہیے، جیسے میں ہوں…. یا کم از کم خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے، جیسے میں کرتا ہوں…
کیونکہ میرے بیٹے نے مرنے سے پہلے مجھے ایک پیغام بھیجا کہ وہ بڑے اطمینان کی موت مر رہا ہے اور اس نے اپنی زندگی، اپنی خواہش کے مطابق، بڑے بہترین طریقے سے ختم کی۔ یہ وجہ ہے کہ میں نے ماتمی لباس نہیں پہنا….“
اس نے اپنے خاکستری رنگ کے کوٹ پکڑ کر ایسے جھٹک دیا، جیسے وہ اسے دکھانا چاہتا ہو؛ اس کے سامنے کے دو دانتوں کی خالی جگہ ہونے کی وجہ سے اس کا ہونٹ لرز رہا تھا، اس کی مرطوب آنکھیں ساکن تھیں، اس نے اپنی گفتگو کٹیلی آواز کے ساتھ ایک قہقہے پر ختم کی، جو شاید ایک سسکی تھی…
”بالکل ٹھیک… بالکل ٹھیک….“ دیگر لوگوں نے تائید کی
کوٹ میں ملبوس وہ خاتون جو ایک کونے میں بیٹھی یہ گفتگو سن رہی تھی…
گزشتہ تین ماہ سے… اسے اپنے شوہر اور اعزاء کے الفاظ میں اس چیز کی تلاش تھی، جو اس شدید غم و اندوہ میں اس کے اندر وہ جذبہ پیدا کر دے، جسے بروئے کار لا کر وہ اپنے بیٹے کو، موت کے لیے نہیں، بلکہ ایک خطرناک جگہ بھیجنے پر تیار ہوجائے۔ اس تمام گفتگو میں اسے ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملا… اور یہ دیکھ کر وہ مزید رنج میں مبتلا ہو گئی… جو اس کی سوچ کے مطابق اس کے دکھ درد کا ساجھی ہو۔
لیکن اب اس مسافر کی گفتگو نے اسے حیران اور حواس باختہ کردیا..
اسے یہ ادراک ہوا کہ وہ لوگ، جو اسے سمجھنے سے قاصر تھے، وہ غلطی پر نہیں تھے بلکہ وہ خود غلطی پر تھی، کیونکہ وہ ان والدین کے مقام تک نہیں پہنچ سکی، جو بغیر آہ و فغاں کیے، نہ صرف انہیں محاذ پر بھیجنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، بلکہ ان کی موت پر بھی کفِ افسوس نہیں ملتے۔
اس نے اپنا سر اٹھایا، کونے سے ہٹ کر ذرا آگے آئی، تاکہ اس موٹے شخص کی گفتگو کو توجہ سے سن سکے، جو وہ اپنے ساتھی مسافروں سے کر رہا تھا کہ کس طرح، خوشی خوشی اور بغیر کسی حسرت و ملال کے، اس کا بیٹا اپنے ملک پر قربان ہو کر ہیرو بن گیا… اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک ایسی دنیا میں آگئی ہے، جس کا اس نے کبھی خواب و خیال بھی نہ کیا، ایک ایسی دنیا جو اب تک اس کے لیے انجان تھی اور وہ یہ سن کر بہت اچھا محسوس کر رہی تھی کہ تمام لوگ اس بہادر باپ کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے، جو اپنے بیٹے کی موت کا قصہ بڑے ضبط واستقلال سے سنا رہا تھا
پھر وہ اچانک اس بوڑھے شخص کی طرف اس انداز سے بڑھی کہ جیسے اس نے وہ گفتگو بالکل نہ سنی ہو اور وہ کسی خواب سے بیدار ہوئی ہو، اور اس سے پوچھا:
”تو….. تو کیا تمہارا بیٹا واقعی مارا گیا؟“
ہر شخص اس خاتون کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ وہ بوڑھا شخص بھی اسے دیکھنے کے لیے مڑا اور اپنی بڑی، قرمزی، مرطوب اور خاکستری آنکھیں اس خاتون کے چہرے پر جما دیں۔ کچھ دیر اس نے جواب دینے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا… اور مسلسل اس خاتون کو دیکھتا رہا، جیسے اس احمقانہ اور بے محل سوال سے اسے ادراک ہوا کہ اس کا بیٹا واقعی اس دنیا سے چلا گیا…. ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا……
اس کا چہرہ بجھ گیا، حلیہ خوفناک حد تک بگڑ گیا… اس نے بڑی عجلت میں اپنی جیب سے رومال نکالا اور لوگ یہ دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوگئے کہ اس کا ضبط پاش پاش ہوگیا اور وہ بڑے دردناک اور دل خراش انداز میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا…..