صدر علوی کے بیان کے بعد ملکی سیاست میں ایک اور بھونچال۔۔

ویب ڈیسک

”سب کو معلوم ہے کہ اس ملک میں کونسا ایسا طاقتور ادارہ ہے یا جو اس طرح کے دستخط کر سکتا ہے۔ ان دستخطوں کے پیچھے بھی ممکنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کا ہی ہاتھ ہے۔‘‘ کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ صدر علوی کے دعویٰ میں وزن ہے۔

صدر مملکت عارف علوی نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک ہلچل مچا دینے والا انکشاف کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے، کیونکہ وہ ان بلوں سے اتفاق نہیں کرتے

عارف علوی کے اس انکار اور ایمان مزاری کی گرفتاری کے بعد سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ اصل مقتدر قوت کون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کو ملک میں نادیدہ قوتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا عکاس قرار دیا جا رہا ہے

عارف علوی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں یہ انکشافات کیے۔ ٹوئٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے اسٹاف سے پوچھا تھا کہ بل دستخط کے بغیر پارلیمنٹ واپس بھیجے گئے ہیں یا نہیں اور یہ کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ بھیج دیے گئے ہیں

دوسری طرف پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی، سابق پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان زینب مزاری کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جو پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ سوشل میڈیا پر ایمان مزاری کی گرفتاری اور عدالت آمد کی وڈیوز بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہیں

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے بھی ایمان زینب مزاری کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ یہ گرفتاریاں ملک کی مقتدر قوتوں کے اشارے پر ہوئی ہے، جنہیں ایمان زینب مزاری اور علی وزیر نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ صدر عارف علوی کہ جعلی دستخط کے حوالے سے بھی پاکستان کے طاقتور ستونوں کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ شروع سے ہی طاقتور رہی ہے لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے اس کے اختیارات میں مزید اضافہ کر دیا ہے، جس میں مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی، اور جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان کا اہم کردار تھا

مبصرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نو مئی کے واقعات کے بعد بھی نادیدہ قوتوں کے اختیارات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ ایمان زینب مزاری کی گرفتاری اور صدر عارف علوی کے دعوے اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی بے احتساب طاقت کی عکاس ہیں

لشکری رئیسانی نے کہا، ”اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کر کے ملک کو کئی بحرانوں سے دوچار کر دیا ہے اور اب وہ اپنی غلطیوں پر کسی طرح کی بھی تنقید برداشت کرنا نہیں چاہتی اور ہر اختلافی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ اسی لیے ایمان زینب مزاری اور علی وزیر کو گرفتار کیا گیا ہے اور یقیناً اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے‘‘

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان بھی اسٹبلشمنٹ کی مخالفت کے بعد ان دنوں اٹک جیل میں ایک مقدمے میں قید بھگت رہے ہیں۔ خان پر دو سو کے قریب مقدمے درج کیے گئے ہیں

لشکری رئیسانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر عارف علوی کے دعوے میں وزن نظر آتا ہے، ”سب کو معلوم ہے کہ اس ملک میں کون سا ایسا طاقتور ادارہ ہے یا جو اس طرح کے دستخط کر سکتا ہے۔ ان دستخطوں کے پیچھے بھی ممکنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کا ہی ہاتھ ہے۔‘‘

صدر مملکت کے دعووں کے حوالے سے کئی حلقوں میں قانونی بحث بھی چھڑ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کئی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ مثلآ یہ کہ اگر صدر عارف علوی نے یہ دستخط نہیں کیے تو پھر یہ دستخط کس نے کیے ہیں؟

صدر عارف علوی نے فوری طور پر اس مسئلے کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ صدر عارف علوی نے ایوان صدر کے کسی ملازم یا اسٹاف رکن کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں کی؟

کئی مبصرین کے خیال میں صدر مملکت کا دعوی انتہائی سنگین ہے اور اس کی بھرپور تفتیش ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی بھرپور انکوائری ہونا چاہیے

جسٹس وجیہہ الدین احمد کہتے ہیں ”اگر صدر مملکت یہ دعوی کر رہے ہیں تو قانونی راستہ یہ ہے کہ وہ ایک اندرونی انکوائری ایوانِ صدر میں کرائیں اور ان لوگوں کی نشاندہی کروائیں جو دستخط کے عمل میں ملوث ہیں۔ اس کے لیے صدر کسی ایوانِ صدر کے افسر کو انکوائری افسر کے طور پر مقرر کر سکتے ہیں اور اس کو ایک خاص وقت میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔‘‘

جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق اس کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ صدر مملکت نگراں حکومت سے اس کی انکوائری کا مطالبہ کریں اور تیسری صورت میں سپریم کورٹ اس معاملے کا از خود نوٹس لے۔‘‘

دوسری جانب حکومت کی طرف سے صدر عارف علوی کے ان الزامات کی تردید کی جا رہی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے وزارت انصاف اور قانون کا اس پر نقطہ نظر بیان کیا، جس کے مطابق ”جب کوئی بل صدر مملکت کو بھیجا جاتا ہے تو آئین کے مطابق وہ منظوری دیتے ہیں یا اپنے مخصوص مشاہدات یا اعتراضات کے ساتھ اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیتے ہیں، لیکن ان دونوں شرائط میں سے کسی کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ بلکہ صدر نے جان بوجھ کر بل کی منظوری میں تاخیر کی۔ بل کو مخصوص مشاہدات یا منظوری کے بغیر بھیجنے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح کا عمل آئین کی روح کے خلاف ہے۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر صدر کو بلوں پر کوئی اعتراض تھا تو وہ یہ اعتراض لگا کر بلوں کو واپس بھیج سکتے تھے، جیسا کہ انہوں نے حال ہی میں اور ماضی میں کیا تھا، وہ اس حوالے سے کوئی پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔ یہ بہت تشویش ناک بات ہے کہ صدر نے اپنے ہی افسران پر بے اعتمادی کا اظہار کیا ہے۔ صدر کو اپنے اقدامات کی ذمہ داری قبول کرنا چاہیے۔‘‘

صدر عارف علوی کے حالیہ بیان کے بعد یہ معاملہ زیر بحث ہے کہ اب متنازع آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کا سٹیٹس کیا ہے؟ یہی سب سے بڑا سوال ہے کہ آیا دونوں ایوانوں سے منظور یہ بل صدر کے دستخط کے بغیر قانون بن گئے ہیں یا نہیں؟

پاکستان میں قانون سازی کے لیے کیا صدر کے دستخط ہونا ضروری ہیں اور اگر صدر کوئی بھی قانونی راستہ اختیار نہ کریں تو کیا کوئی بل خود ہی قانون بن جاتا ہے؟

ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے ذرا یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ایوانِ صدر میں ایک فائل آخر چلتی کیسے ہے

ایوانِ صدر سے وابستہ رہنے والے ایک سابق افسر نے بتایا ہے کہ پرائم منسٹر ہاؤس اور پریزیڈنسی یعنی ایوانِ صدر کا اسٹاف دو ڈپارٹمنٹس میں منقسم ہوتا ہے

ان میں سے پہلا ڈپارٹمنٹ ’انٹرنل ونگ‘ کہلاتا ہے، جس کی سربراہی صدر اور وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کرتا ہے۔ ملٹری سیکرٹری عموماً ایک ون سٹار فوجی افسر ہوتا ہے، جسے بریگیڈیئر کہا جاتا ہے

ملٹری سیکرٹری کے ماتحت ڈپٹی ملٹری سیکرٹری اور ان کے ماتحت تین اے ڈی سیز ہوتے ہیں، جو تینوں مسلح افواج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے ماتحت ایک ٹیم سکیورٹی افسران و عملہ اور ایک ٹیم پروٹوکول آفیسرز اور عملے پر مشتمل ہوتی ہے

انٹرنل ونگ کا کام صدر کے ذاتی امور چلانا، ان کی سکیورٹی، اندرونِ ملک اور بیرونِ دورے اور ملاقاتیں وغیرہ منظم رکھنا ہوتا ہے

ایوانِ صدر کی دوسری ونگ کی سربراہی سینیئر ترین بیورکریٹ افسر یعنی سیکرٹری ٹو پریذیڈنٹ کرتے ہیں۔ یہ 21ویں گریڈ کے سرکاری افسر ہوتے ہیں۔ ان کے ماتحت ایک مکمل سیکرٹریٹ ہوتا ہے جس میں ایڈیشنل سیکرٹریز، جوائنٹ سیکرٹریز، ڈپٹی سیکرٹریز اور دیگر دفتری عملہ شامل ہوتا ہے

کسی بھی قسم کی فائل جس پر صدرِ مملکت کے دستخط یا منظوری چاہیے ہو، وہ سب سے پہلے ایوان صدر کے اسٹاف میں شامل سیکشن آفیسر کے پاس پہنچتی ہے جو ان افسران کی فہرست میں سب سے آخر میں آتے ہیں

سیکشن آفیسر اس فائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ اب اس فائل میں دائیں جانب اس درخواست، ایکٹ کا متن درج ہوتا ہے اور اس کی تمام تر دستاویزات نتھی کی جاتی ہیں۔

اس فائل کی بائیں جانب منٹ شیٹ یا نوٹس فار کانسیڈریشن (این ایف سی) چسپاں کیا جاتا ہے، جہاں سیکشن آفیسر اس فائل سے متعلق مختصر انداز میں لکھتے ہیں کہ یہ فلاں فائل ہے جو قومی اسمبلی، سینیٹ یا فلاں وزارت سے آئی ہے اور یوں اسے اپروول کے لیے اسسٹنٹ سیکرٹری کو بھیج دیا جاتا ہے۔

یہاں سے فائل جوائنٹ سیکرٹری، پھر ڈپٹی سیکرٹری اور پھر سیکرٹری ٹو پریذیڈینٹ کے پاس پہنچتی ہے جو یہ فائل صدر کے پاس لے جاتے ہیں۔ ان تمام مراحل کے دوران اس فائل پر نوٹس لکھے جاتے ہیں، اس کو جانچا جاتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کمی کی صورت میں وہ پوری کی جاتی ہے یا متعلقہ وزارت کو واپس بھجوائی جاتی ہے۔

صدر کے پاس پہنچنے کے بعد اگر وہ اس پر تصدیق کی مہر ثبت کر دیں تو کام مکمل ہو جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ ’ڈس اپروول‘ کے ساتھ واپس بھیجی جاتی ہے۔

کسی بھی فائل کی واپسی بھی اسی چین آف کمانڈ کے تحت ہوتی ہے جس سے وہ پہلے صدر کے دفتر تک پہنچی تھی۔ سیکشن آفیسر فائل واپس ملنے پر اعتراضات کے ساتھ اسے متعلقہ ادارے، محکمے، وزارت یا پارلیمنٹ بھیج دیتے ہیں۔

وزارتوں یا دیگر اداروں سے صدر کے پاس دستخط کے لیے پہنچنے والی فائلز میں کئی ٹیکنیکل مسائل ہوسکتے ہیں جنھیں پورا کرنے کے لیے ایوان صدر کے عملے اور متعلقہ وزارتوں کے درمیان خط و کتابت جاری رہتی ہے۔

البتہ قومی اسمبلی یا سینیٹ سے پارلیمانی امور کا ذیلی محکمہ متعلقہ بل کو پہلے پرائم منسٹر ہاؤس بھیجتا ہے جہاں سے یہ بل صدر کو بھیجا جاتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 75 میں کسی بھی بل پر صدر کے دستخط ہونے اور نہ ہونے کی صورت میں لائحہ عمل درج ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل کے مطابق صدر کے پاس جب بھی کوئی بل جاتا ہے تو ان کے پاس دو راستے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اس بل کو منظور کرتے ہوئے اس پر دستخط کر دیں اور یوں یہ ایکٹ ایک قانون بن جاتا ہے۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اس پر دستخط نہ کریں اور اسے ترامیم کی درخواست کے ساتھ واپس پارلیمان بھیج دیں۔

خیال رہے کہ یہ سب کرنے کے لیے صدر کے پاس 10 دن کا وقت ہوتا ہے۔ اور مَنی بل کے علاوہ کوئی بھی بل واپس بھجوایا جا سکتا ہے۔

اسی شق میں آگے چل کر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب صدر یہ بل دستخط کے بغیر واپس بھیج دیں تو یہ بل اب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا جہاں اس پر مزید بحث ہوگی۔

اکثریتی ووٹ سے منظور ہونے کے بعد اب یہ بل ایک بار پھر وزیراعظم ہاؤس سے ہوتا ہوا ایوان صدر پہنچے گا۔ مشترکہ اجلاس سے آنے والے اس بل پر صدر کو دس دن کے اندر دستخط کرنا ہوتے ہیں اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں 10 دن کے بعد یہ بل خودبخود ہی قانون میں تبدیل ہوجاتا ہے اور صدر کے دستخط کی ضرورت نہیں رہتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدر کے دستخط کے بغیر کوئی بل قانون بن جاتا ہے؟ اس وقت یہی وہ اہم نقطہ ہے جس پر بحث کی جارہی ہے

پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والی سینیئر صحافی نوشین یوسف کہتی ہیں کہ اس معاملے پر آئین خاموش ہے کہ مشترکہ اجلاس میں بل واپس نہ جانے کی صورت میں آیا یہ قانون بن جائے گا۔

وہ کہتی ہیں ”یہاں آئین میں کچھ کنفیوژن ہے۔ جب صدر بل پر دستخط کریں یا واپس بھیجیں تو دس دن میں مشترکہ اجلاس بلانا لازم ہے. آئین اس پر تو واضح ہے کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد یہ بل صدر کے دستخط نہ ہونے کی صورت میں بھی خود بخود قانون بن جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسا صرف مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد ہوگا۔ لیکن اگر مشترکہ اجلاس میں یہ بل پیش ہی نہیں ہوا تو کیا تب بھی یہ قانون کی شکل اختیار کر سکتا ہے، اس پر آئین خاموش ہے“

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کی شق دو دراصل شق اول کے سب کلاز بی سے متعلق ہے جو صدر کی جانب سے بل کی واپسی اور اس کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہونے کے بارے میں ہے۔

نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم کے مطابق صدر مملکت کی طرف سے دونوں بلز پر کوئی قانونی راستہ اختیار نہ کرنے کی وجہ سے اب یہ دونوں ترمیمی بلز قانون بن گئے ہیں

تاہم سابق وفاقی وزیر قانون علی ظفر نگراں وزیر قانون کی رائے سے متفق نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر صدر غلطی سے بھی کوئی قانونی راستہ اختیار نہ کریں تو بھی یہ بل قانون نہیں بن جاتا جب تک کہ اسے دوبارہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے سامنے پیش نہ کیا جائے۔

ان کے مطابق مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد اگر صدر 10 دن تک کوئی بھی قانونی رستہ اختیار نہ کریں تو پھر ایسی صورت میں وہ بل قانون بن جاتا ہے۔

نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے کہا ہے کہ صدر عارف علوی نے دونوں ایوانوں سے منظور آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں ترامیم پر ’کوئی راستہ اختیار نہیں کیا‘ لہذا دونوں بلز اب قانون بن چکے ہیں۔

تاہم علی ظفر کے مطابق ابھی نگراں حکومت ان بلز کو قانون نہیں بنا سکتی۔ ان کے مطابق عام انتخابات کے بعد جو پارلیمنٹ معرض وجود میں آئے گی اب یہ بلز اس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے سامنے پیش کیے جا سکیں گے اور پھر اگر صدر دستخط نہ بھی کریں تو یہ پارلیمانی منظوری کے بعد 10 دن بعد قانون بن جائے گا۔

آئینی اور انتخابی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ایوان صدر کے عملے نے بل دستخط کر کے بھیج دیے ہیں یا ویسے ہی وقت پورا ہونے پر یہ فرض کر لیا گیا کہ منظوری ہوچکی ہے۔

ان کے مطابق ابھی یہ وضاحت باقی ہے کہ کیا یہ صدر کی حکم عدولی ہوئی ہے یا عملے نے غیر قانونی طور پر دستخط کر کے جعل سازی کی ہے۔ ان کے مطابق اگر جعل سازی ہوئی ہے تو پھر صدر کو ’خدا سے معافی مانگنے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔‘

رواں سال کے آغاز میں سلمان اکرم راجہ نے اس بارے میں نامہ نگار اعظم خان سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویسے تو خیال یہی کیا جاتا ہے کہ صدر کا عہدہ محض ایک ’ڈاکخانہ‘ ہے مگر ان کو حاصل آئینی اختیارات پر اگر نظر دوڑائی جاتے تو وہ حکومت کے کئی ضروری معاملات کو مختصر مدت کے لیے لٹکا سکتے ہیں اور اہم فیصلوں میں تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت جب صدر کے پاس منظوری کے لیے کوئی بل بھیجا جاتا ہے تو وہ دس دن تک اس پر اپنی رائے دینے کا اختیار رکھتے ہیں، اور منی بل (بجٹ) کے علاوہ 10 دن بعد بھی صدر پاکستان اس بل کو واپس بھیج سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں قانون سازی کی منظوری کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانا ضروری ہو جاتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے یہ مثال دی کہ کسی بل کی منظوری میں تحریک انصاف کے سینیٹ میں ارکان مشترکہ اجلاس میں مزید تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔ ’اگر مشترکہ اجلاس منعقد ہو بھی جائے تو ایسی صورت میں بل کی سادہ اکثریت سے منظوری سے قبل وہ طویل تقریروں کے ذریعے ایسے اجلاس کو مزید طوالت دے سکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق اگر حکومت کسی اور جماعت کی ہی ہو تو پھر صدر کا عہدہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر زلفی بخاری نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اب اس معاملے پر سپریم کورٹ کا رُخ کرے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close