کراچی میں بڑھتے جرائم کے نیندیں اڑا دینے والے اعداد و شمار

نیوز ڈیسک

کراچی – سلیم احمد کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی سے ہے، وہ ایک نجی کمپنی میں نوکری کرتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقے میں انٹرنیٹ اور فون کی تاروں کی دیکھ بھال کریں۔ اس سلسلے میں انہیں اپنی حدود میں آنے والے علاقے میں مسلسل سروے کرنا پڑتا ہے

اسی ضرورت کے پیش نظر سلیم احمد نے دفتر سے قسطوں پر موٹر سائیکل لی تاکہ وہ باآسانی اپنا کام کر سکیں، لیکن نئی موٹر سائیکل کچھ روز ہی ان کے پاس رہ سکی

ایک روز وہ محض چند لمحوں کے لیے اپنی نئی موٹر سائیکل دفتر کے باہر کھڑی کر کے اندر گئے تو ان کے واپس آنے تک وہ چوری ہو چکی تھی

سلیم احمد کہتے ہیں”میرا دفتر میٹھادر پولیس اسٹیشن سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ دفتر کے باہر گارڈز بھی موجود ہوتے ہیں، اس کے باوجود چور باآسانی میری موٹر سائیکل لے گئے“

انہوں نے پولیس کے پاس شکایت بھی درج کروائی لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ وہ دوبارہ سے پیدل ہو گیے ہیں اور چوری شدہ موٹر سائیکل کی قسطیں بھی ادا کر رہے ہیں

یہ صرف سلیم احمد اکیلے کی کہانی نہیں ہے، کراچی کا ہر شہری تقریباً کسی نہ کسی جرم کا شکار ہے، اور ان جرائم میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ مہینے شہر میں اٹھانوے افراد کو جرائم پیشہ لوگوں نے گولی مار کر زخمی کر دیا جبکہ پانچ افراد کو قتل کر دیا گیا

اس سے قبل جنوری کے مہینے میں کراچی میں ٹی وی پروڈیوسر اطہر متین سمیت دس لوگ ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بنے

ترجمان کراچی پولیس ایس ایس پی عارف عزیز کا شہر میں بڑھتی جرائم کی وارداتوں پر کہنا ہے کہ ’پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ایک کے بعد دوسری جرائم کی لہریں اٹھتی ہیں اور ان کے پھیلنے میں پولیس کی کوتاہی بھی شامل ہوتی ہے۔‘

کچھ عرصہ قبل تک کراچی میں مختلف علاقے مختلف نوعیت کے جرائم کے لیے مخصوص تھے۔ ہر علاقے کا اپنا ایک گینگ تھا۔ سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ عناصر کی پناہ گاہ بن چکی تھیں. پھر شہر میں امن و امان کے لیے ایک آپریشن کیا گیا اور اس کے کچھ عرصہ بعد تک صورتحال مجموعی طور پر بہتر رہی۔ لیکن اب پھر جرائم پیشہ افراد کئی نئے طریقوں سے سرگرم دکھائی دیتے ہیں

کراچی پولیس کے سابق ڈپٹی چیف سی پی ایل سی مراد سونی کا کہنا ہے ”جرائم کی وارداتوں میں اضافہ تو ہوا ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان میں تشدد کا عنصر بھی بڑھ گیا ہے. پہلے چوری ڈکیتی، لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کرنے والے گولی مارنے اور جان لینے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن اب واردات کے لیے آنے والے جرائم پیشہ افراد کسی کی بھی جان لے لیتے ہیں“

واضح رہے کہ آج کل اسٹریٹ کرائم میں سفید کرولا گینگ اور رکشہ گینگ کے نام بار بار آ رہے ہیں

اسی نوعیت کے گروہوں کی جانب سے کی گئی وارداتوں کے اعداد و شمار نے کراچی پولیس اور دیگر حکام کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔
پولیس اور ریسکیو سمیت دیگر ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق سال 2019 میں چوالیس افراد ڈکیتی کی مزاحمت پر مارے گئے تھے جبکہ دو سو بیاسی افراد زخمی ہوئے تھے

اس طرح 2020 میں اکیاون افراد کو مارا گیا اور 332 افراد زخمی کیے گئے

2021 میں ڈکیتوں نے 72 افراد کی جان لے لی اور 445 افراد کو زخمی کیا۔ اس کے علاوہ 25 ہزار سے زائد موبائل فون چھینے اور چوری کیے گئے

رواں سال کے ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں اب تک سولہ افراد کی جان لی جا چکی ہے اور ایک سو سے زائد افراد کو ڈکیتیوں کے دوران زخمی کیا گیا ہے

ایک عام اندازے کے مطابق اگر ایک فون کی مالیت پچیس ہزار رکھی جائے تو گذشتہ برس کراچی کے شہریوں سے صرف موبائل فون کی مد میں 63 کروڑ روپے سے زائد رقم چوروں اور ڈکیتوں کے ہاتھ لگی ہے

جرائم کے گڑھ

پولیس ریکارڈ کے مطابق شہر قائد کے تین اضلاع میں امن و امان کی صورتحال زیادہ خراب ہے

ترجمان پولیس ایس ایس پی عارف عزیز نے بتایا کہ ’کراچی کے ضلع کورنگی، شرقی اور ضلع وسطی میں اس وقت وارداتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ شاہ فیصل کالونی میں بھی نمایاں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’شہر میں 75 سو افراد ایسے موجود ہیں جو جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔‘

عارف عزیز کے بقول ’ان افراد میں ایک بڑی تعداد کراچی سے باہر کے لوگوں کی ہے اور ان میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی گروہ نمایاں ہیں۔ وارداتوں میں ملوث کئی ایسے جرائم پیشہ افراد بھی گرفتار ہوئے ہیں جو سندھ کے دیگر اضلاع اور جنوبی پنجاب کے رہنے والے ہیں۔‘

تاہم کراچی یونیورسٹی کے شعبہ جرمیات سے وابستہ ڈاکٹر نائمہ سعید سمجھتی ہیں کہ اتنے بڑے شہر میں ہونے والے جرائم کا سارا بوجھ محض غیر مقامی افراد پر نہیں ڈالا جا سکتا

وہ کہتی ہیں ’کراچی ایک میٹروپولیٹن شہر ہے۔ اور دنیا بھر میں میٹروپولیٹن شہروں میں غیر مقامی افراد ہوتے ہیں اس کی ایک بڑی مثال دبئی سب کے سامنے ہے، جہاں غیر مقامی افراد ایک بڑی تعداد میں ہیں لیکن جرائم کے واقعات اس طرح رونما نہیں ہوتے‘

ڈاکٹر نائمہ سعید کا خیال ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری دراصل جرائم کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ اس کے ساتھ منشیات کے عادی افراد بھی ان جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔

اگرچہ بدلتے وقت کے ساتھ جرائم پیشہ افراد زیادہ بے رحم ہو رہے ہیں اور جدید طریقے اپنانے کے ساتھ ساتھ وارداتوں کے دوران لوگوں کو قتل کرنے سے بھی ذرا نہیں چوکتے، لیکن پولیس ان سے نمٹنے کے لیے اپنے طور پر موثر اقدامات کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہے

ان کوششوں میں سے ایک جرائم پیشہ افراد کی ای ٹیگنگ بھی ہے

ای ٹیگنگ کا نظام

ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کے مطابق کراچی میں جرائم کے خاتمے کے لیے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے عادی مجرموں کی ای ٹیگنگ کی تجویز کی باضابطہ طور منظوری دے دی ہے

اس نظام کے تحت کسی بھی مجرم کے جرم دہرانے پر اس کے ساتھ کم سے کم دو سال تک الیکٹرانک ڈیوائس لگائی جائے گی، جو اس کی براہ راست نگرانی کرے گی

ملزم کو ضمانت صرف ایسا حلف نامہ جمع کرانے پر دی جائے گی، جس میں وہ ایک مخصوص علاقے میں رہنے کی یقین دہانی کرائے گا۔ اس دوران جی پی ایس کے ذریعے اس کے ساتھ لگے ڈیوائس کی لائیو مانیٹرنگ کی جاتی رہے گی اور ملزم کو مخصوص علاقے تک ہی نقل و حرکت کی اجازت ہوگی

لیکن نائمہ سعید اس کو ایک مؤثر نظام نہیں سمجھتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ای ٹیگنگ کا نظام کراچی میں موثر نہیں ہوسکے گا۔ شہر میں ٹیلی کمیونیکیشن کا نظام اس طرح نہیں کہ یہ سسٹم کامیاب ہو سکے۔ یہ اداروں کے لیے ایک مشکل ٹاسک ہوگا‘

ان کا کہنا ہے ’شہر میں بے شمار گنجان آباد علاقے ہیں جہاں پولیس کو پیٹرولنگ میں کئی بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کراچی کی آبادی کے لحاظ سے پولیس کی نفری بھی ناکافی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close