گلگت بلتستان: دسمبر میں منائی جانے والی انوکھی رسم ’نسالو‘ کیا ہے

ویب ڈیسک

گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی درختوں سے پتوں کے گرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس خطے میں خزاں کا موسم بھی سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتا ہے اور بڑی تعداد میں ہر سال سیاح خزاں کے موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں

دسمبر کے پہلے ہفتے میں بالائی علاقوں میں تمام درختوں کے پتے گر جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خطے میں تمام درخت سوکھ گئے ہیں لیکن اگلے سال پھر ان درختوں پر پتے اگنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔یہاں کے بالائی علاقوں میں درجہ حرارت منفی پندرہ سے بیس ڈگری تک گر جاتا ہے اور یہاں موجود جھیلیں جم جاتی ہیں

اس سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے یہاں کے لوگوں نے یہ حل بھی نکالا کہ پرانے زمانے میں یہاں کے لوگ نومبر اور دسمبر کے مہینے میں خود کو گرم رکھنے کے لئے یاک یا بیل کو ذبح کر کے اس کے گوشت کو ایک اسٹور میں سکھانے کے بعد اس کو اسٹاک کر لیتے تھے اور اپریل تک اس گوشت کو استعمال کرتے تھے۔ یہ گوشت خراب بھی نہیں ہوتا تھا

جس گھر میں یاک یا بیل کو ذبح کیا جاتا تھا اس دن گھر کا سربراہ اپنے تمام ہمسایوں کو اپنے گھر کھانے پر بلاتا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس گھرمیں کوئی شادی ہو رہی ہے

یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج کے جدید دور میں بھی اس خطے کے عوام نے اپنے آباء واجداد کی اس رسم کو برقرار رکھا ہوا ہے اور اس زمانے میں ہر گھر میں فریج اور دیگر سہولیتں موجود ہیں مگر گلگت بلتستان کے عوام اس رسم کو، جسے مقامی زبان میں ‘نسالو’ کہا جاتا ہے، مناتے چلے آرہے ہیں

یوں، یہ رسم جہاں روایتی تقاریب کی بحالی کا سبب بنتی ہے وہیں علاقائی ہم آہنگی کا وسیلہ بھی ہے۔ اس رسم میں بڑے جانوروں کو ذبح کرکے اس کا گوشت سُکھایا جاتا ہے تاکہ مارچ اپریل کے مہینوں میں خوراک کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے

نسالو کے لیے جانور کو ذبح کرنے کے موقعے پر رشتہ داروں، عزیز و اقارب و محلہ داروں کو بھی جمع کیا جاتا ہے اور ان کے لیے خصوصی دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

نسالو کے لیے ذبح کیے جانے والے جانور کو صفائی کے بعد گھر کے مخصوص مقام، جسے ڈنگو کہتے ہیں، میں لٹکایا جاتا ہے اور یہ گوشت کئی مہینوں تک محفوظ ہو جاتا ہے

گلگت بلتستان کے معروف شاعر و محکمہ برقیات جی بی کے سیکریٹری ظفر وقار تاج کہتے ہیں ”گلگت بلتستان کے تمام بالائی علاقوں میں اس طرح کی رسومات صدیوں سے چلی آرہی ہیں۔ ان علاقوں میں موسم سرما اتنا سخت ہوتا ہے کہ اس میں کوئی اناج نہیں اُگ سکتا ہے جس کی وجہ سے انسانوں کے علاوہ جانوروں کو بھی خوراک کی قلت درپیش رہتی ہے۔ اس لیے اس قحط کی صورت حال سے بچنے کے لیے موسم سرما میں جانوروں کو ذبح کرکے نسالو کیا جاتا ہے تاکہ آگے آنے والے مزید سخت موسم میں خوراک کو ذخیرہ کیا جا سکے“

دسمبر کا مہینہ ان رسومات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہر وادی نے شروع سے اپنے درجہ حرارت اور موسمی صورتحال کے تحت مخصوص ایام کا انتخاب کیا ہوتا ہے اور ان ایام سے ایک دن بھی آگے پیچھے ناغہ ہوجائے تو جانور کا گوشت محفوظ نہیں ہوتا ہے

غذر کی تحصیل اشکومن میں ایک ہی روز میں رسم نسالو منائی جاتی ہے۔ اس دن ہزاروں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ علاقے کا نمبردار ایک دن مقرر کرتا ہے اس روز ہر گھر میں ایک جانور کو ذبح کر کے گھر کا مالک نہ صرف اپنے رشتے داروں اور ہمسایوں کو اپنے گھر بلاکر کھانا کھلاتا ہے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے گھر میں جاکر بھی اس رسم کی نہ صرف مبارک باد دیتا ہے بلکہ شام کا کھانا ان کے گھر کھاتا ہے

بالائی علاقوں میں رسم نسالو نومبر کے آخری ہفتے میں شروع ہوتی ہے اور اس رسم کی ادائیگی 20 دسمبر تک چلتی ہے

سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں کے لوگ اپنے مال مویشیوں کو فروخت کرنے کے لئے شہر لاتے ہیں۔ سب سے زیادہ مانگ یاک کی ہوتی ہے۔ اس جانور کا گوشت بہت میٹھا ہوتا ہے اور صاحب حیثیت لوگ یاک کا ‘نسالو’ کرتے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں ایک یاک کی قیمت ڈیڑہ لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان ہوتی ہے مگر یہاں کے لوگ اس رسم کی ادائیگی کے لئے ایک سے دو لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں

دسمبر تک گائے یا دوسرے جانوروں کو بھی خوراک ملتی ہے تو ان کی بھی صحت اچھی ہوتی ہے، اس لیے ان کو ذبح کرکے سخت حالات کے لیے گوشت تیار کیا جاتا ہے

صحافی منظر شگری کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں صرف گوشت کو محفوظ کرنے کا تصور نہیں بلکہ لوگ اپنے پھلوں، سبزی اور اناج کو بھی سکھا کر محفوظ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں اب بھی سوکھی سبزیوں، پھلوں اور اناج کا تصور پایا جاتا ہے بلکہ گلگت بلتستان کے خشک پھل یعنی ڈرائی فروٹ اس علاقے کی پہچان بن چکے ہیں اور یہاں سے دوسرے علاقوں میں کاروباری مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں

گلگت سے تقریباً چالیس کلومیٹر فاصلے پر واقع دلکش اور خوبصورت وادی، وادی بگروٹ، میں یہ رسم سالانہ بگروٹ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام منعقد کی جاتی ہے

راکاپوشی، دیران پیک، لیلیٰ پیک، اور دوسرے مشہور چوٹیوں کے سامنے اس رسم کا انعقاد کیا جاتا ہے

صحافی منظر شگری کے مطابق بگروٹ میں ایک دن مختص کیا جاتا ہے جو 13 دسمبر یا اس سے کچھ آگے پیچھے ہوتا ہے۔ اس کے تاریخ کا تعلق بھی شینا کلینڈر سے ہے، اسی لیے جی بی میں شینا بولنے والے تمام علاقوں میں اس کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے

وادی بگروٹ میں ثقافتی و روایتی چیزیں آج بھی محفوظ ہیں۔ اس فیسٹیول کا آغاز اِشپِری سے ہوتا ہے جس کا مطلب صدقہ ہوتا ہے، جس میں گھر کے خشک پھل اور دیگر کھانے پینے کا سامان ہوتا ہے

تمام گاؤں والے اشپری لے کر کمیونٹی سینٹر میں جمع ہوتے ہیں اور مہمانوں کے ہمراہ نوش کرتے ہیں

اس سال ماضی کے برعکس فیسٹیول میں ثقافتی و روایتی رسومات کو بھی شامل کرلیا گیا اور رسمِ شاپ، جو کہ دعائیہ رسم ہوتی ہے، دائل جو روحانی ایک کردار ہوتا ہے، اس کے علاوہ وائلڈ لائف کے تحفظ کے لیے بھی پروگرامات رکھے گئے

منظر شگری کے مطابق دائل کی جو روحانیت ہے اس کا مرکز راکاپوشی پہاڑ کا بیس کیمپ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے بگروٹ کا علاقہ اس تصور کے حوالے سے بھی مشہور ہے

بگروٹ میں دلکش پہاڑوں کے دامن میں روایتی کرداروں پر مشتمل خاکے اور روایتی دھنوں میں نہ صرف مقامی لوگوں بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مہمانوں نے بھی رقص کے جوہر دکھائے

نسالو فیسٹیول میں شینا زبان میں گانے والے گلوکاروں نے بھی شرکت کی جس میں حاضرین نے روایتی رقص کیا

گلگت بلتستان میں ایک اندازے کے مطابق رسم نسالو کے دوران پچاس ہزار سے زائد جانوروں کو اس رسم کے دوران ذبح کیا جاتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ علاقے میں بجلی اور دیگر سہولتیں ہونے کے باوجود یہاں کے لوگوں نے اس قدیم رسم کو آج تک برقرار رکھا ہوا ہے

نومبر میں جب اس خطے کے بالائی علاقوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گرتا ہے تو رسم نسالو کا آغاز ہوتا ہے اور دسمبر کے آخر تک یہ رسم جاری رہتی ہے۔ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے اس کو ایک اسٹور میں لٹکا دیا جاتا ہے اور اپریل تک اس گوشت کو حسب ضرورت استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ یاک کا ہی نسالو کریں۔ اگرچہ مہنگائی کے اس دور میں ڈیڑہ سے دو لاکھ روپے کا ایک یاک خریدنا مشکل ہے اس کے باوجود گلگت بلتستان میں سالانہ رسم نسالو کے دوران دس سے پندرہ ہزار تک یاک اس رسم کے دوران ذبح ہوتے ہیں

اس رسم کے حوالے سے غذر کی تحصیل اشکومن کے نمبردار علی مرزا محمد کا کہنا تھا کہ یہ رسم صدیوں پرانی ہے اور اب تک یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ اس رسم کی ادائیگی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ تمام گاؤں اور علاقے کے لوگوں کو مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے، جس سے نہ صرف اتحاد و اتفاق میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ بھائی چارے کو بھی فروغ ملتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں آج کے اس جدید دور میں ہرقسم کی سہولتیں ہونے کے باوجود یہاں کے عوام نے اپنی ثقافت کو نہیں چھوڑا ہے اور یہاں کے عوام کے اتحاد واتفاق کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ آج بھی اپنے آباء واجداد کی صدیوں پرانی رسموں کو مناتے ہیں، جو زندہ قوموں کی ایک اہم پہچان ہے

نمبردارعلی مرزا محمد کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں صرف رسم نسالو ہی نہیں کئی دیگر تہوار بھی ہیں، جو یہاں کے عوام مناتے چلے آرہے ہیں اور یہ سلسلہ کم نہیں ہوا بلکہ نوجوان نسل بھی اس رسم کو منانے میں بہت خوشی محسوس کرتی ہے۔ آج کے اس دور میں بھی اگر ہمیں ایک جگہ مل بیٹھنے کا موقع ملے اور ایسے موقعوں میں ایک دوسرے کا دکھ درد سننے کا موقع ملے تو اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوسکتی ہے

گلگت بلتستان میں نومبر اور دسمبر کا مہینہ رسم نسالو کا ہوتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس دور افتادہ علاقے میں ان دو مہینوں میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو اجہاں کسی کے گھر میں گوشت نہ پکتا ہو۔ شاید یہاں کی ثقافت اب تک زندہ رہنے کی ایک اہم وجہ یہاں منائے جانے والے یہ تہوار ہیں جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام نے آج بھی اپنی ثقافت کو زندہ رکھا ہوا ہے جو زندہ قوموں کی ایک پہچان ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close