اسلام آباد – آئی ایم ایف کی تجویز ہے کہ ایک لاکھ چار ہزار روپے ماہانہ سے دس لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہ پانے والوں سے ایک ہی شرح یعنی 30 فیصد کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جائے
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز کو ٹیکس اور معیشت کے ماہرین نے ایک ایسے طبقے سے زیادتی کے مترادف قرار دیا ہے، جو پہلے ہی مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کی شکار ہے
خیال رہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان اس وقت چھ ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے ساتویں نظر ثانی جائزے کے سلسلے میں مذاکرات کر رہے ہیں، جس کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے تاکہ اس کے تحت پاکستان کو اگلی قسط جاری کی جا سکے
آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے قرضے کے حصول کے لیے پاکستان نے ماضی میں بھی کچھ شرائط کو پورا کیا تاکہ اس کے تحت اضافی ٹیکس کو اکٹھا کیا جا سکے اور کچھ شرائط پر پاکستان کی جانب سے تاحال عمل درآمد نہیں کیا گیا
وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ملک میں پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں کو آئندہ مالی سال کے بجٹ تک منجمد کرنے کے لیے ٹیکس کی شرح کم یا بالکل ختم کر دی گئی، جس پر آئی ایم ایف نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور جس کے باعث تازہ ترین مذاکرات میں کوئی پیش رفت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے
تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے اب تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈالنے کا کہا جا رہا ہے
اس تجویز کے تحت نہ صرف ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کے لیے کہا گیا ہے بلکہ ان پر ٹیکس کی شرح میں رد و بدل کی تجویز بھی دی گئی ہے تاکہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اضافی ٹیکس اکٹھا کر کے اپنے مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنا سکے
پاکستان کی وزارت خزانہ کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکس اور ان کی سلیبز میں ردو بدل آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے تاہم اُنھوں نے کہا ”یہ کوئی نئی تجویز نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی آئی ایم ایف اس کے بارے میں کہہ چکا ہے“
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو تجویز دی گئی ہے کہ 50 ہزار سے ساڑھے 62 ہزار تک ماہانہ تنخواہ لینے والوں پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کیا جائے
یہ شرح ٹیکس اس وقت ماہانہ ایک لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں پر عائد ہے۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ 79 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والوں پر 10 فیصد کے حساب سے ٹیکس لیا جائے، جو اس وقت ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ آمدن والوں سے حاصل کیا جاتا ہے
آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ایک لاکھ چار ہزار تک تنخواہ پانے والوں سے 20 فیصد کے حساب سے ٹیکس لیا جائے جبکہ ایک لاکھ چار ہزار روپے ماہانہ سے 10 لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہ پانے والوں سے ایک ہی شرح یعنی 30 فیصد کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ اس وقت 30 فیصد ٹیکس کی شرح ایسے افراد کے لیے ہے جو 41 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں
وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے رابطہ کرنے پر بتایا ”آئی ایم ایف کا تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانے اور سلیبز کا مطالبہ پرانا ہے۔ جب ڈاکٹر حفیظ شیخ وزیر خزانہ تھے تو اس وقت یہ مطالبہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد نئے وزیر خزانہ شوکت ترین آئے تو رواں سال مارچ کے چھٹے نظر ثانی میں اسے مؤخر کر دیا گیا تھا۔ جو ٹیکس بڑھانے کی تجویز آئی ہے، اس پر اگر کچھ ہوا تو اگلے مالی سال کے بجٹ میں ہی ہو سکتا ہے“
تاہم اُنہوں نے کہا کہ حکومت ایسا فیصلہ لے گی کہ جس میں ٹیکس تو زیادہ اکٹھا ہو تاہم اس کے ساتھ یہ بھی دیکھے گی کہ تنخواہ دار طبقے پر اضافی بوجھ نہ پڑے
مزمل اسلم نے کہا کہ ٹیکس سلیبز میں تو رد و بدل ہو سکتا ہے تاہم حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ تنخواہ دار طبقے کو اضافی ٹیکس سے محفوظ رکھا جا سکے
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ٹیکس سال 2021ع میں تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والے بارہ لاکھ سے زیادہ افراد نے ٹیکس گوشوارے جمع کروائے، جبکہ اِس وقت پچاس ہزار تک ماہانہ تنخواہ پانے والے ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں
ٹیکس امور کے ماہر اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابقہ عہدیدار ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں ”تنخواہ دار طبقے سے جس شرح پر اس وقت ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، وہ مناسب ہے اور اس میں مزید اضافہ اس طبقے میں ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہو گی، جو موجودہ حالات میں مہنگائی کی وجہ سے مالی مسائل کا شکار ہیں۔ انکم ٹیکس کے تصور کے مطابق جب آمدن بڑھتی ہے تو ٹیکس بھی زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے تاہم جب آمدن میں اضافہ نہ ہو اور ٹیکس کی شرح بڑھ جائے تو ٹیکس ادا کرنے والے مالی مشکلات سے دوچار ہوں گے“
ان کا کہنا تھا ”اس وقت مہنگائی کی جو شرح ہے، اس میں ایک لاکھ تک تنخواہ پانے والا بھی لوئر مڈل کلاس میں شمار ہوتا ہے اور ایسے حالات میں جب یہ تجویز آئے کہ یہ زیادہ ٹیکس ادا کرے، اور حکومت اسے قبول کر لے تو یہ اس طبقے کے ساتھ ظلم ہوگا“
ڈاکٹر اقبال نے کہا ”حکومت کو اس تجویز کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات صحیح ہے کہ زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جائے اور اس کے لیے موجودہ حکومت کوشش بھی کر رہی ہے تاہم اس کے لیے دوسرے ذرائع کو دیکھنا پڑے گا تاکہ تنخواہ دار طبقے کو اضافی ٹیکس سے بچایا جا سکے“
ڈاکٹر اقبال کا کہنا ہے ”اگر کوئی شخص سالانہ پانچ کروڑ یا اس سے زائد تنخواہ لے رہا ہے اور اسے 30 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے تو یہ اس کے لیے کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا، تاہم تجویز کے مطابق اگر ایک لاکھ چار ہزار سے دس لاکھ ماہانہ تنخواہ دار طبقے کو اسی شرح سے ٹیکس ادا کرنا پڑے تو یہ اس طبقے کی آمدنی کو بری طرح متاثر کرے گا“
ٹیکس امور کے وکیل وحید شہزاد بٹ کے مطابق ملک میں ایک لاکھ ماہانہ آمدن والے کو ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا ”چھ لاکھ سالانہ آمدن تک ٹیکس ادائیگی کی چھوٹ ہے۔ ایک کاروباری شخص جب ایک لاکھ ماہانہ اور بارہ لاکھ سالانہ کماتا ہے تو ٹیکس استثنیٰ کے لیے اخراجات دکھا کر اپنی آمدنی کو چھ لاکھ تک ظاہر کر کے ٹیکس سے بچ جاتا ہے، تاہم تنخواہ دار شخص جب بارہ لاکھ سالانہ کماتا ہے تو اس کا ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے کیونکہ یہ ٹیکس ایٹ سورس کاٹا جاتا ہے“
انہوں نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے اضافی بوجھ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ”اگر ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو وہ فی الحال نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ فنانس ایکٹ کا حصہ ہوتا ہے جو بجٹ کا حصہ ہوتا ہے“
ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بھی ٹیکس لینے کے لیے کم از کم حد بارہ لاکھ سالانہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ”موجودہ مہنگائی کے دور میں چھ لاکھ تک کی چھوٹ سے کوئی خاص ریلیف نہیں ملتا اس لیے اسے بڑھانا چاہیے تاہم ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس سلیبز کی تعداد زیادہ ہے اور اسے کم کرنا چاہیے“
آئی ایم ایف کی جانب سے تنخواہ دار طبقے پر زیادہ ٹیکس کی شرح اور سلیبز میں ردوبدل کی تجویز نہ ماننے کی صورت میں پاکستان کے لیے مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر معاشی امور ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا ”پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بیرونی ادائیگیاں ہے جب کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہت تیزی سے کمی آئی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنے کی وجہ سے پاکستان کے لیے دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضے اور امداد کی فراہمی ہوتی ہے“
فرخ سلیم نے کہا ”اب اس وقت زرمبادلہ کی صورتحال یہ ہے کہ تین مہینے کی درآمدات کے لیے بھی یہ ناکافی ہیں جب کہ پاکستان کو درآمدات بھی کرنی ہیں اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔“
ڈاکٹر فرخ نے کہا کہ ’آئی ایم ایف مالیاتی ڈسپلن اور مالی خسارہ کم کرنے کے لیے کہتا ہے کہ آمدن بڑھائیں اور اخراجات کم کریں اور آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھانی پڑتی ہے تاہم جب ٹیکس کی شرح بڑھتی ہے تو معیشت سست روی کا شکار ہوتی ہے اور ٹیکس نہ بڑھائیں تو ملک کے لیے معاشی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’یہ ایک شیطانی چکر ہے جس میں پاکستان پھنسا ہوا ہے۔‘
ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق ’آئی ایم ایف سے پروگرام کے لیے جب شرائط طے ہوئیں اور اب ہم انہیں نہیں مان رہے تو اس کے لیے ہمیں پھر اس کا جواز بھی فراہم کرنا ہوگا‘
انہوں نے کہا ”آئی ایم ایف ٹیکس بڑھانے کی بات کرتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کی ٹیکس چھوٹ کو ختم کریں جو مراعات یافتہ طبقے کو حاصل ہیں تاکہ وہاں سے پیسہ اکٹھا کر کے تنخواہ دار طبقے کو اضافی ٹیکس سے بچایا جا سکے“