یونان کشتی حادثہ: کوٹلی کا وہ گاؤں، جہاں کہرام بپا ہے۔۔

ویب ڈیسک

خوشحال خان آزاد کشمیر میں کیل سیکٹر کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والوں میں اُن کا بھتیجا شبہاز محمود اور تین پڑوسی چوہدری آزاد، چوہدری ناصر اور نبیل بٹ بھی شامل ہیں

خوشحال خان بتاتے ہیں ”میرا بھتیجا شہباز محمود سعودی عرب میں حجام کا کام کرتا تھا اور وہاں پر اچھے خاصے پیسے کما لیتا تھا مگر پھر اس نے یورپ جانے کا منصوبہ بنایا اور سعودی عرب میں رہتے ہوئے ہی معاملات طے کر لیے“

انہوں نے کہا ”شہباز کو اس کے والد نے منع کیا، والد ہی نہیں بلکہ سب جاننے والوں نے منع کیا تھا کہ یہ کام نہ کرو۔. مگر وہ لگ بھگ دو ماہ پہلے سعودی عرب سے واپس (پاکستان) آیا، گھر میں صرف پانچ دن رہا اور پھر یورپ کے سفر پر روانہ ہو گیا“

خوشحال کے مطابق ان کے بھتیجے شہباز کے دو بچے ہیں اور وہ اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا

انہوں نے کہا کہ ان کا بھتیجا بھی اُسی کشتی پر سوار تھا جسے یونان کے قریب حادثہ پیش آیا۔ شہباز نے کشتی پر روانہ ہونے سے قبل اپنے گھر والوں کو اس بابت آگاہ کیا تھا

یاد رہے کہ 14 جون کو جنوبی یونان کے ساحل پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا تھا، جسے یورپ میں تارکینِ وطن کو پیش آنے والے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ یونان نے اس واقعے کے بعد تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا

کشتی ڈوبنے کے اس واقعے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، 104 افراد کو بچایا جا چکا ہے جبکہ سینکڑوں افراد اب بھی لاپتہ ہیں کیونکہ یونان میں پاکستانی سفارتخانے کے اہلکاروں کے مطابق جس جگہ کشتی ڈوبی ہے، وہاں سمندر انتہائی گہرا ہے

انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ یونان کے مقامی ذرائع خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد چھ سو تک جا سکتی ہے

اب تک جن 104 افراد کو بچایا گیا ہے، ان میں 12 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں، جن کا تعلق گجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات اور آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے

رپورٹس کے مطابق اس کشتی پر ساڑھے سات سو سے زیادہ افراد سوار تھے، جن میں سے سو کے لگ بھگ بچے ہو سکتے ہیں

یونان میں کشتی حادثے میں آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے کیل سیکٹر کے علاقے کے متعدد نوجوان سوار ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مقامی لوگ اس بارے میں متفرق اعداد و شمار بتا رہے ہیں

تاہم برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کوٹلی میں تین ایسے خاندانوں سے رابطہ کیا، جن کے قریبی رشتہ داروں کو خدشہ ہے کہ ان کے پیارے اس کشتی پر سوار تھے اور اب وہ لاپتہ ہیں

کوٹلی کے رہائشی محمد مبشر نے بتایا ”میرے چچا آفتاب قاسم اور ایک قریبی عزیز انعام شفاعت ماہ رمضان کے بعد اٹلی کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ پہلے پاکستان سے لیبیا پہنچیں گے، جس کے بعد ان کی منزل اٹلی تھی۔ وہ کافی عرصے سے گھر سے نکلے ہوئے تھے اور گاہے بگاہے اپنی خیریت سے آگاہ کرتے رہے تھے۔ چند دن قبل ہمیں اطلاع ملی کہ اُن کو لیبیا میں مسائل کا سامنا ہے اور فی الحال وہ لیبیا ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد پتا چلا کہ انعام شفاعت کشتی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئے ہیں جبکہ آفتاب قاسم ابھی بھی لیبیا میں ہیں۔ جب ہمیں اس حادثے کا پتا چلا تو ہم نے آفتاب قاسم سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ وہی کشتی ہے، جس میں انعام شفاعت سوار تھا“

محمد مبشر بتاتے ہیں کہ ان کے لیبیا میں موجود کزن آفتاب قاسم نے یہ بھی بتایا کہ اس کشتی میں کشمیر کے علاقے کیل سیکٹر کے کافی لوگ سوار تھے۔ انھیں تعداد کا اندازہ نہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ کشتی میں سوار کافی نوجوانوں کا تعلق ان ہی کے علاقے سے تھا اور وہ سب تقریباً ساتھ ہی اپنے علاقے سے نکلے تھے

مبشر نے بتایا کہ گذشتہ دو روز سے ان کا لیبیا میں موجود آفتاب قاسم سے بھی رابطہ قائم نہیں ہو رہا ہے

محمد مبشر کہتے ہیں کہ انھوں نے گاؤں کے لوگوں سے بات کی ہے اور ان کو جو تفصیلات موصول ہوئی ہیں، ان کے مطابق کیل سیکٹر کے ایک گاؤں سے کافی تعداد میں افراد یورپ جانے کے لیے نکلے تھے

کوٹلی ہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے مقصود نگڑیال نے بتایا کہ انھیں خدشہ ہے کہ اس کشتی پر ان کے پانچ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ علاقے کے دو درجن کے لگ بھگ افراد سوار ہو سکتے ہیں

مقصود نگڑیال نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں حسیب اور عدنان بشیر کو بچا لیا گیا ہے۔ ’حسیب اور عدنان ہمارے ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘

مقصود نے دعویٰ کیا کہ اُن کی بچنے والے دونوں نوجوانوں سے بات ہوئی ہے جنھوں نے بتایا ہے کہ ’ہمارے علاقے کے تیس نوجوان کشتی پر سوار تھے۔‘

مقصود نگڑیال کا کہنا تھا کہ ان لاپتہ افراد میں ان کے خاندان کے پانچ قریبی لوگ موجود ہیں جن میں شہباز محمود (چچا زاد بھائی)، حمید حسین (داماد)، خادم حسین (تایا زاد)، یوسف حسین (چچا زاد بھائی) اور مسکین (تایا زاد بھائی) شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں یونان سے کوئی اچھی اطلاعات موصول نہیں ہو رہی ہیں۔ ’یونان سے ہمیں کوئی زیادہ معلومات بھی نہیں مل رہی ہیں، ہماری ابتدائی معلومات کا ذریعہ دو بچ جانے والے نوجوان ہی ہیں جو نام لے کر بتا رہے ہیں کہ کون کون کشتی میں سوار تھا، یہ سب ہمارے اپنے لوگ ہیں۔‘

مقصود نگڑیال کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے کے نوجوان لگ بھگ دو ماہ سے اس سفر پر روانہ ہوئے تھے، یہ اس سے پہلے لیبیا میں پھنسے ہوئے تھے

قصود نگڑیال نے کہا ”اس وقت ہمارے علاقے میں سوگ کا عالم ہے۔ ہر گھر میں ماتم ہے اور بیشتر ایسے گھرانے ہیں، جہاں خواتین اور بزرگوں کو اب تک اس حادثے کی اطلاع نہیں دی گئی کیونکہ لوگوں کے دلوں میں اب بھی یہ امید ہے کہ شاید ان کے پیارے بچ گئے ہوں یا اس کشتی پر سوار ہی نہ ہوئے ہیں“

علاقے کی ایک سماجی شخصیت نے بتایا ”چند ماہ قبل ہی ہمارے علاقے میں کچھ مقامی ایجنٹوں کے ذریعے سے لوگوں کو بیرونی ممالک بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس میں مقامی ایجنٹ اور کچھ دوسرے ایجنٹ ہر بندے سے بیس لاکھ سے لے کر پچیس لاکھ روپے تک وصول کر رہے تھے۔ اپنے بچوں کو یورپ بھیجنے کے لیے کئی لوگوں نے اپنے جمع پونجی، زمین، گھر کا زیور تک فروخت کر دیا تھا۔ میں ایسے لوگوں سے بھی رابطہ میں ہوں، جنہوں نے یہ سب کرنے کے لیے قرض لیا تھا۔“

کیل سے تعلق رکھنے والے خوشحال خان کے مطابق ”ہمارے ایک پڑوسی چوہدری ناصر کی کہانی کافی دل دکھا دینے والی ہے۔ ناصر اپنے علاقے میں ویلڈنگ کا کام کرتا تھا مگر پھر ہمارے علاقے کے چند نوجوان کچھ عرصہ قبل یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو وہ بھی ان سے متاثر ہوا اور اُدھار پکڑ کر ایک ایجنٹ کو پیسے دے دیے۔ وہ کوئی دو ماہ پہلے یورپ جانے کے لیے نکلا تھا۔ اس کے گھر سے نکلنے کے چند ہفتوں بعد اس کے پانچ سالہ بیٹے کی وفات ہو گئی۔ ہمارے سارے علاقے میں تو مشہور ہے کہ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے کیونکہ وہ کام کے دوران بھی اپنے والد کے ساتھ دکان پر ہی ہوتا تھا اور علاقے میں مشہور ہو گیا کہ بیٹا باپ کی جدائی برداشت نہیں کر سکا“

خوشحال خان نے مزید بتایا ”جب بیٹے کی وفات ہوئی تو اس وقت چوہدری ناصر لیبیا میں تھے اور چاہتے تھے کہ وطن واپس آ جائیں مگر ان کا پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات ایجنٹ کے پاس تھے۔ ناصر کو اس کے بیٹے کی نماز جنازہ لائیو کال کے ذریعے دکھائی گئی۔ اس موقع پر وہ رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ جس بیٹے کے لیے اتنی مشکلات سہہ رہا ہوں اب وہ ہی نہیں رہا تو میں یورپ جا کر کیا کروں گا“

انھوں نے کہا کہ ناصر کی یورپ جانے والی کشتی میں سوار ہونے سے دو دن پہلے اپنے رشتہ داروں سے بات ہوئی تھی مگر اب وہ لاپتہ ہے۔

ادہر یونان میں پاکستانی سفارتخانے نے بارہ پاکستانیوں کے ریسکیو کیے جانے کی تصدیق کی ہے

ایتھنز میں پاکستانی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ ان کی ایک ٹیم نے پیلوس شہر کے جنوب میں ڈوبنے والی کشتی کے بارے میں متعلقہ یونانی حکام سے رابطہ کیا۔ سفارتخانے کے مطابق ایک ٹیم نے وہاں کا دورہ کر کے ابتدائی معلومات حاصل کی ہیں

سفارتخانے نے کالاماٹا شہر میں بچائے جانے والے بارہ پاکستانی باشندوں سے ملاقات کی ہے۔ سفارتخانے کے مطابق جن افراد کو بچایا گیا ہے ان میں دو کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقے کوٹلی سے ہے، جن میں محمد عدنان بشیر اور حسیب الرحمان شامل ہیں

اس کے علاوہ محمد حمزہ، ذیشان سرور (گجرانوالہ)، عظمت خان (گجرات)، محمد سنی اور زاہد اکبر (شیخوپورہ)، مہتاب علی (منڈی بہاؤالدین)، رانا حسنین (سیالکوٹ)، عثمان صدیق (گجرات) شامل ہیں جبکہ عرفان احمد اور عمران آرائیں فی الحال مقامی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

جمعرات کے دن ایسے تین پاکستانی نژاد شہری جو اس حادثے کی خبر سن کر یونان کے ساحل پر پہنچے تھے اور ان کا دعوی تھا کہ ان کے رشتہ دار بھی اس کشتی پر سوار تھے، جو اب لاپتہ ہیں

امدادی کارکن اب بھی اس سمندری علاقے کی تلاش کر رہے ہیں جہاں کشتی جنوب مغربی ساحل سے تقریباً پچاس سمندری میل کے فاصلے پر الٹ گئی تھی، کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کی امیدیں کم ہوتی جا رہی ہیں

یہ کشتی لیبیا کی بندرگاہ توبروک سے اٹلی جا رہی تھی جس دوران یہ سمندر میں غرقاب ہو گئی۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی تصاویر میں کشتی کی ڈیکس کو لوگوں سے بھرا ہوا دکھایا گیا ہے۔ کالاماتا جنرل ہسپتال کے ایک سینیئر ڈاکٹر کے مطابق کشتی پر 100 بچے سوار تھے

ہیڈ آف کارڈیالوجی ڈاکٹر ڈاکٹر منولس ماکاریس کے مطابق ’(زندہ بچنے والوں) نے ہمیں بتایا کہ کشتی کے نچلے حصے میں بچے موجود تھے۔ بچے اور خواتین۔‘

انھوں نے کہا کہ دو زیر علاج بچ جانے والوں نے انھیں اپنے اندازے کے مطابق اعداد و شمار بتائے ہیں۔ ’ایک مریض نے مجھے بتایا کہ کشتی پر لگ بھگ 100 بچے تھے۔ دوسرے مریض نے کہا کہ 50 کے لگ بھگ۔ اس لیے میں سچ نہیں جانتا، لیکن یہ (بچے) بہت ہیں۔‘

ڈاکٹر ماکاریس نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اس واقعے میں 600 سے زیادہ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کشتی پر سوار تمام افراد کی صحیح تعداد 750 تھی۔

انھوں نے کہا کہ لاپتہ ہونے والے کچھ مصری بچوں کے اہلخانہ نے انھیں اپنے نوجوان رشتہ داروں کی تصاویر بھیجی تھیں اور امید ہے کہ وہ ان کا علاج کرنے کے بعد شناخت کے عمل کے دوران انھیں پہچان لیں گے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ایک المیہ تھا۔ ’یورپ میں ہر ایک کو اس صورتحال کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ ہر کسی کو کچھ کرنا ہے تاکہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔‘

یونان کے ایک چینل نے ایک رپورٹر نے ایک زندہ بچ جانے والے سے پوچھا کہ کیا جہاز میں 100 بچے تھے، جس پر زندہ بچ جانے والے نے جواب دیا: ”ہاں۔“

یونانی حکومت کے ترجمان الیاس سیکانتارس نے کہا ”یہ معلوم نہیں ہے کشتی پر کتنے لوگ سوار تھے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ کئی اسمگلر لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بند کر دیتے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close