اجمل پہاڑی اور ان جیسے ملزمان کی رہائی اور پولیس کی بے بسی کی کہانیاں

ویب ڈیسک

کراچی – قد : 6’5 ، جسم : مضبوط ، رنگت : گندمی ، بالوں کا رنگ : سیاہ ، آنکھوں کا رنگ: سیاہ ، شناختی علامت : بائیں ہاتھ پر چوٹ کا نشان ، جرم : ایک سو گیارہ قتل!

پولیس، فوج اور خفیہ اداروں پر مشتمل ’جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم‘ (جے آئی ٹی) کی مشترکہ تفتیش اور خود اجمل پہاڑی کے اپنے اعترافات پر مبنی رپورٹ میں یہی درج ہے، جبکہ یوٹیوب پر بھی دس برس سے موجود ایک وڈیو میں خود اجمل پہاڑی بھی یہی اعترافات کرتے دیکھے جاسکتے ہیں

کراچی کے کئی تھانوں میں درج قتل و غارت اور دہشت گردی کے درجنوں مقدمات میں بھی اجمل پہاڑی مرکزی ملزم نامزد ہیں۔ لیکن یہی اجمل پہاڑی 5 فروری 2022ع کو سکھر جیل سے رہا کر دیے گئے۔ اجمل پہاڑی وہ واحد شخص نہیں، جو طویل عرصے تک حراست میں رہنے کے بعد رہا ہوئے ہیں، اس کی ایک طویل فہرست ہے

پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے چیئرمین اور کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال کہتے ہیں ہے”میری کوششوں سے اب تک چار سو سے زیادہ ایسے افراد حراستی مراکز سے ’بازیاب‘ یا جیل سے رہا ہوچکے ہیں“

لیکن جہاں ایسے افراد کی ’بازیابی‘ یا رہائی کو ان کے اہلِ خانہ سراہ رہے ہیں، وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ سیاسی شخصیات یا جماعتیں اپنی مقبولیت کے لیے تشدد میں مبینہ طور پر ملوث رہنے والے ان افراد کو رہا یا بازیاب کروا کے شہر کو ایک بار پھر قتل و غارت اور تشدد کی سیاست میں تو نہیں جھونک رہیں؟ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ رہا یا ’بازیاب‘ ہونے والے یہ افراد دوبارہ جرائم ، لاقانونیت یا قتل و غارت کی جانب مائل نہیں ہوں گے؟

لیکن ایسے افراد کی رہائی یا ’بازیابی‘ کے بعد کیا ہوسکتا ہے، اس بحث سے قبل یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا اِن افراد کی گمشدگی یا گرفتاری سے پہلے کیا ہوا تھا؟

کیا اجمل پہاڑی اور ان جیسے افراد پر سیاسی انتقام یا مخالفت کی بنیاد پر مقدمات قائم کیے گئے؟ کیا یہ اعترافات اور مقدمات سچ نہیں تھے؟

اگر قانون نافذ کرنے والے ایک نہیں بلکہ سات مخلتف اداروں کے اعلیٰ تفتیش کارروں کے سامنے قتل و غارت کی سینکڑوں وارداتوں کے یہ ہولناک اعترافات سچے تھے، تو پھر ایسے ملزمان کو ضمانت یا رہائی کیسے مل جاتی ہے؟

پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عدالت میں انھیں مجرم ثابت کیوں نہیں کر پاتے؟ اس حوالے سے سوالات کا طویل سلسلہ ہے، جو جوابات کا تقاضا کرتا ہے

سابق ڈائریکٹر جنرل، فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ڈی جی، ایف آئی اے) سعود احمد مرزا، کراچی پولیس کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ان سوالات کا جواب ’نظام کی کمزوریوں‘ میں تلاش کرنا ہوگا. ثبوت و شواہد ’غائب‘ ہو جاتے ہیں، گواہان عدالتوں میں اپنے بیان سے ’منحرف‘ ہو جاتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پولیس کے تفتیش کار موقع سے ثبوت و شواہد سائنسی طریقے اور جدید انداز میں محفوظ حالت میں جمع نہیں کر پاتے۔“

سعود احمد مرزا کا کہنا ہے ”ایسی وجوہات کی بنیاد پر استغاثہ عدالت میں اپنا موقف ثابت کرنے میں ناکام ہو جائے تو عدالت سے ملزم کو شبہے کا فائدہ مل جاتا ہے اور ضمانت یا رہائی ممکن ہو جاتی ہے“

وہ کہتے ہیں ”چلیں، یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ گواہان منحرف ہو سکتے ہیں لیکن آپ (پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے) اگر فنگر پرنٹ نہ لیں فرانزک ایویڈینسز (ثبوت و شواہد سائنسی طریقے سے) جمع نہ کریں تو کیسے ثابت کریں گے مجرم اور جرم کے تعلق کو؟ پولیس تفتیش صحیح کر لے ثبوت و شواہد محفوظ کر لے تو کچھ ہو سکتا ہے۔“

ان کا کہنا ہے ”بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ثبوت و شواہد بھی ہوتے ہیں مگر کسی ایک انتہائی معمولی سی غفلت یا محض کوئی خانہ پری نہ ہونے کی وجہ سے بھی عدالتوں سے ملزمان کو شک کا فائدہ دیا جاتا رہا ہے۔ پھر گواہان کے تحفظ کا کوئی طریقۂ کار نہیں ہے نظام میں۔“

انہوں نے کہا ”میں آپ کو مثال دیتا ہوں۔ میں ایس ایس پی (کراچی سینٹرل) تھا تو سپیشل برانچ میں ایک سب انسپکٹر (ایس آئی) پراچہ کام کرتے تھے۔ اُن کا گھر نیو ٹاؤن تھانے میں تھا۔ اور اُن کے برادرِ نسبتی کی شادی تھی۔ ایس آئی پراچہ نے ڈرائیور کو گاڑی بھجوانے کے لیے تین ہٹّی بھیجا۔ دہشت گردوں (ارشد کے ٹو وغیرہ) کو پتہ چل گیا اور ڈرائیور کو احساس ہوا کہ وہ گھیرے میں آرہا ہے تو وہ تو گاڑی چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ جب کافی دیر تک گاڑی گھر نہیں پہنچی تو خود ایس آئی پراچہ گاڑی اور ڈرائیور کی تلاش میں تین ہٹی پہنچے۔ جہاں تب تک اُن کی گاڑی کے پاس دہشتگرد گھات لگا چکے تھے. ایس آئی پراچہ کے پہنچنے پر قاتلوں نے انہیں اغوا کیا اور موٹر سایئکل پر بیٹھا کر ’چونا ڈپو‘ کے قریب لے جا کر گولی مار کر قتل کر دیا۔ قتل کے بعد میں وہاں پہنچا تو خوفزدہ ڈرائیور بھی کسی طرح نمودار ہوا۔ مقدمہ اسی ڈرائیور کی مدعیّت میں درج ہوا تو میں نے کئی بار ڈرائیور سے بھی پوچھا کہ کیا تمہیں پولیس پروٹیکشن درکار ہے؟“

وہ بتاتے ہیں ”میں نے چاہا کہ اسے پولیس کی حفاظت فراہم کی جائے کئی بار معلوم کرنے پر بھی اس ڈرائیور نے کہا نہیں سر! میں تو تھانے میں ہی رہتا ہوں۔ مجھے ضرورت نہیں ہے۔ مقدمہ درج ہونے کے ایک ہفتے کے اندر ہی وہ ڈرائیور اغوا ہو گیا اور اگلے دن پی آئی بی کالونی کے نالے سے اس کی لاش ملی“

”قتل کے وقت ڈرائیور اپنے سونے والے کپڑے پہنے تھا یعنی اُسے گھر سے اغوا کیا گیا تھا اور گھر تھانے کے اندر واقع تھا۔ اب سوچیں کہ تھانے کے اندر سے پولیس اہلکار کو اغوا کر کے قتل کردیا گیا۔ اسی پر بس نہیں ہوا۔ کچھ دن بعد جب اس مقتول ڈرائیور کا بھائی پی آئی بی کالونی کے قریب اپنی دکان پر بیٹھا تھا تو موٹر سایئکل سوار دہشت گردوں نے اس بھائی کو بھی گولیاں مار کر قتل کردیا“

سعود مرزا نے سوال کیا کہ اب جہاں ایک پولیس اہلکار کو اغوا کر کے قتل کر دیا جائے، پھر گواہ ڈرائیور کو تھانے سے اغوا کر کے قتل کر دیا جائے، پھر اس کے بھائی کو دکان پر مار دیا جائے، وہاں آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ لوگ عدالت میں آئیں گے اور کسی کے خلاف گواہی دینے پر آمادہ ہوں گے؟

کراچی کے علاقے لیاری میں ایس پی تعینات رہنے والے سابق پولیس افسر فیاض خان بھی سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ میں خدمات انجام دے چکے ہیں. فیاض خان بھی ایسی ہی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں ”صولت مرزا، اجمل پہاڑی، سعید بھرم، رئیس ممّا یہ ایسے ہائی پروفائل ٹارگٹ کلرز تھے، جن کے نیٹ ورک تب بھی چلتے رہتے تھے جب یہ جیل میں قید ہوتے تھے“

فیاض خان کہتے ہیں ”گواہان کا قتل کروا دیا، پولیس اہلکاروں کو مار ڈالا۔ کراچی جیل کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ امان اللّہ نیازی کا قتل محض اسی لیے ہو گیا تھا کہ انھوں نے صولت مرزا کے ’سیل‘ کی تلاشی لے کر موبائل فونز اور دیگر اشیا برآمد کرلیں تھیں۔ پولیس افسر ہی قتل ہوجائیں تو کیا عام شہری ایسے لوگوں کے خلاف گواہی دینے کے لیے عدالتوں میں آ سکتے ہیں؟“

انہوں نے کہا ”ایک اے ایس آئی یا ایس آئی کے پیچھے ڈیپارٹمنٹ کس حد تک ہے کھڑا رہتا ہے؟ حکومت بدلتی ہے تو نامی گرامی پولیس افسران تک ’عتاب‘ میں آ جاتے ہیں، سب انسپکٹر کی سطح پر تو افسر بے چارہ اپنے ’رسک‘ پر تفتیش یا کام کرتا ہے نہ مالی مدد ہوتی نہ سرکاری حمایت کہ تفتیش بے خوف ہو کر کی جائے یا افسر جرات مندی سے کام کر سکے۔ پھر عدالتوں میں جو سلوک پولیس، مدعی یا گواہ سے ہوتا ہے وہ دیکھ لیں۔ لوگ کام کاج چھوڑ کر برسوں عدالت کے چکر ہی لگاتے رہتے ہیں کہ جج صاحب نہیں ہیں، ملزم جیل سے نہیں آ سکے۔ جان کا خوف الگ ہوتا ہے“

انہوں نے کہا کہ ”لوگوں کا اعتماد بھی قائم نہیں ہو پاتا اپنے اداروں پر انھی وجوہات کی بنا پر تو وہ بھی کورٹ کچہری سے کتراتے ہیں۔ پھر سزاؤں کا تناسب دیکھ لیں۔ چاہے کوئی بھی وجہ ہو بدعنوانی یا نظام کا بگاڑ سزا نہیں ہو پاتی۔ ملزم سو یا پچاس کیسز میں ملوث ہو تو اتنے وسائل ہی نہیں ہوتے پولیس ڈپارٹمنٹ کے پاس۔ 14 دن کا ریمانڈ ملتا ہے۔ سو کیسز کی تفتیش کیسے کر لے گا پولیس افسر 14 دن میں؟“

فیاض خان نے سوال کیا کہ 100 کیسز کے گواہان کہاں سے ڈھونڈے؟ ڈھونڈ بھی لے تو عدالت تک کیسے لائے انہیں؟ نہ مالی مدد ملتی ہے، نہ پیشہ ورانہ تعاون پھر کیسے نظام کام کرے گا؟

اجمل پہاڑی کون ہیں؟

1990ع کی دہائی میں جب کراچی لسانی، سیاسی اور فرقہ وارانہ تشدد کے بد ترین دور سے گزر رہا تھا تب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے کئی افسران کے نزدیک دہشت کی ’علامت‘ بن جانے والے اجمل پہاڑی کا اصل نام محمد اجمل صدیقی ہے

وہ 20 اگست 1970ع کو ناظم آباد نمبر 4 میں پیدا ہوئے اور اپنے والدین منظور حسین اور سعید النِسا کے چھ بیٹوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ مکان نمبر 11 سیکٹر A/7 اورنگی ٹاؤن نمبر 1 اور بعد ازاں R-42 بلاک ’کے‘ نارتھ ناظم آباد کے رہائشی رہے

میٹرک تک تعلیم کے بعد انہوں نے پارکنگ کے ٹھیکیدار کا پیشہ اختیار کر لیا۔ اجمل پہاڑی شادی شدہ اور تین بیٹیوں کے والد ہیں۔ خود اُن کے پانچ میں سے دو بھائی پولیس اہلکار ہیں جن میں سے ایک (جے آئی ٹی کی تفتیش کے وقت) ٹریفک پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل اور دوسرے عزیز آباد پولیس میں کانسٹیبل تھے

سنہ 1983 میں اجمل پہاڑی کا خاندان اورنگی ٹاؤن منتقل ہوگیا۔ اس کے بعد 1988 میں انھوں نے گورنمنٹ سیکنڈری سکول وسطانیہ ناظم آباد نمبر 7 سے میٹرک کیا اور 1996 میں اُن کی شادی (فوزیہ اجمل سے) ہوگئی

1986ع میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے ایریا انچارج ماسٹر اسد کی ترغیب پر اجمل پہاڑی یونٹ 130 اورنگی ٹاؤن میں بطور کارکن شامل ہوئے

اسی برس بنارس علی گڑھ کالونی میں مہاجر آبادی پر پشتون النسل جرائم پیشہ عناصر کے حملے کے ردِعمل میں اجمل پہاڑی پر زبردستی ہڑتال کروانے اور جلاؤ گھیراؤ کی کارروائیوں میں شریک رہنے کے الزامات ہیں

1989ع میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں انھیں ناظم آباد کے علاقے سے گرفتار کرلیا گیا تو وہ ایک برس کے لیے جیل چلے گئے

1992ع تک ان پر جلاؤ گھیراؤ کی کئی دیگر کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے اور اس دوران پندرہ سے بیس گاڑیاں بھی نذرِ آتش کیں

پولیس کے مطابق اپنی شناخت چھپانے کے لیے اجمل پہاڑی نے عدنان، محمد حسین اور شاہنواز جیسے کئی فرضی نام بھی اختیار کیے

بھارت میں تربیت

اجمل پہاڑی کے بارے میں دوران حراست بننے والی جوائنٹ انوسٹیگینشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کے مطابق اجمل پہاڑی کا دعویٰ ہے کہ وہ 1996ع میں ایم کیو ایم لندن سیکریٹریٹ سے ندیم نصرت (سابق کنوینر ایم کیو ایم) کے کہنے پر اپنے ساتھی ذیشان پی آئی بی والا کے ساتھ سنگاپور پہنچے اور مصطفیٰ مارکیٹ (دراصل مصطفیٰ سینٹر) میں واقع ایک ہوٹل میں قیام کیا لیکن انھیں علم نہیں تھا کہ انہیں کس مقصد کے لیے سنگاپور بلوایا گیا ہے

رپورٹ کے مطابق رابطہ کرنے پر ندیم نصرت نے جنوبی افریقہ سے جمیل عرف جمّی کو اُن کے پاس بھیجا جس نے تین روز بعد انھیں ویزا دلوا کر سنگاپور ائیر لائن سے انڈیا بھجوا دیا

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دلی ائیرپورٹ پر (کراچی سے مفرور اور مطلوب ملزم) سنّی نے اُن کا استقبال کیا اور پندرہ روز تک ایک گھر میں مہمان رکھنے کے بعد بس کے ذریعے تین چار گھنٹے کی مسافت پر واقع جنگل میں قائم ایک تربیتی مرکز (ٹریننگ کیمپ) پہنچا دیا

اجمل پہاڑی کے دعوے کے مطابق ٹریننگ کیمپ میں پہلے ہی ایم کیو ایم کے ساتھی نورا (شاہ فیصل کالونی والا)، ظفر ٹینشن (بفر زون والا)، راجو (نارتھ ناظم آباد والا)، اور شاکر چھوٹا (اورنگی ٹاؤن والا) موجود تھے جہاں انڈین آرمی سے تعلق رکھنے والے پانچ تربیت کاروں راج، سورج، روی، سلیم اور (ایک جس کا نام یاد نہیں) نے انہیں ایک ماہ تک مختلف ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی

فروری/مارچ 1997 میں سنّی نے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے لیے ایک گائیڈ مہیا کیا جس کی رہنمائی میں وہ دلی سے بھارتی پنجاب پہنچے پھر رات نو بجے سرحد عبور کر کے شکر گڑھ میں داخل ہوئے

بھارتی گائیڈ انہیں پک اپ کے ذریعے لاہور پہنچا کر خود واپس چلا گیا اور اجمل پہاڑی ذیشان کے ساتھ ریل کے ذریعے کراچی واپس پہنچ گئے، جہاں راجو کے علاوہ بھارت میں ساتھ تربیت کرنے والے باقی سب ساتھیوں سے ان کی کئی بار ملاقاتیں ہوتی رہیں

ندیم نصرت کی تردید

ندیم نصرت کہتے ہیں کہ وہ اجمل پہاڑی نامی کسی شخص سے کبھی بھی نہیں ملے. ندیم نصرت ان تمام الزامات سے انکار کرتے ہیں

وہ کہتے ہیں کہ ’میری تو اجمل پہاڑی نامی کسی شخص سے کبھی کوئی ملاقات یا بات چیت ہی نہیں ہوئی۔‘

ندیم نصرت نے بتایا کہ ’اس زمانے میں تو یہ فیشن بن گیا تھا کہ بکری کا بچّہ بھی مرجائے تو الزام میرے اور الطاف بھائی کے سر لگا دیا جاتا تھا۔ میڈیا پر اور بھی لوگ لائے گئے اور انہوں نے بھی ایسے ہی ’اقبالی بیانات‘ دیے۔ یہ خالصتاً پروپیگنڈہ تھا۔‘

ندیم نصرت نے، جو الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد اب سیاسی تنظیم ’وائس آف کراچی‘ کے سربراہ ہیں، کا مزید کہا تھا کہ جب طارق میر (سابق رہنما ایم کیو ایم، لندن) نے لندن میں برطانوی پولیس کی سامنے بھارتی افراد سے ملاقات اور پیسوں کے لین دین کا اعتراف کیا تب بھی ان کا نام کہیں نہیں آیا

’میں کبھی کسی جلاؤ گھیراؤ یا تشدد میں ملوث نہیں رہا کبھی کوئی ثبوت سامنے نہ آ سکا۔ یہ تو بہت آسان ہے کہ کوئی کسی کو کوئی فون کر کے کہے کہ میں ندیم نصرت بول رہا ہوں یا ندیم نصرت نے مجھے احکامات دیے۔‘

قتل و غارت، دہشتگردی

2010ع میں مرتب ہونے والی جے آئی ٹی رپورٹ میں اجمل پہاڑی نے مختلف قتل کے واقعات کا اعتراف کیا اور انھوں حکام کو یہ بھی بتایا کہ ہر قتل انھوں نے کس کے حکم پر کیا۔ مندرجہ ذیل فہرست ان کے اعتراف شدہ قتل کے واقعات کی ہے:

1993 میں انہوں نے اپنے ساتھی (اور بعد ازاں پولیس مقابلے میں خود بھی ہلاک ہو جانے والے) آصف زیدی کے حکم پر (پولیس مقابلے ہی میں مارے جانے والے ساتھی) سعید نیگرو کے ساتھ مل کر اورنگی ٹاؤن میں پولیس افسر اے ایس آئی عارف شاہ کو قتل کیا

1994ع میں آصف زیدی ہی کی ہدایت پرقمر ٹیڈی کے ہمراہ اورنگی ٹاؤن نمبر 7 میں ایم کیو ایم حقیقی کے کارکن شانی کو قتل کیا

1994ع میں ہی لندن سے ایم کیو ایم کے سینئیر رہنما محمد انور کے حکم پر قطر ہسپتال اورنگی ٹاؤن کے قریب انھی ساتھیوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے دو کارکنان اصغر اور یٰسین کو قتل کردیا۔ (محمد انور اب تو دنیا میں نہیں رہے مگر بی بی سی پیشہ ورانہ ذمہ داری سمجھتی ہے کہ اُن کا موقف بھی ان تفصیلات میں شامل کیا جائے۔ محمد انور جب تک زندہ رہے مجھ سے گفتگو کی کئی نشستوں میں ہر بار اپنے خلاف دہشتگردی سمیت تمام الزامات کو ایسی بے بنیاد اور گمراہ کن مہم کا حصہ قرار دیتے رہے جس کا مقصد (محمد انور کے مطابق) پارٹی کی سیاسی مخالفت اور اس کے رہنماؤں کی کردار کشی تھا۔ لندن کے ایک ہسپتال میں کینسر سے نبرد آزما محمد انور نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بھی مجھ سے گفتگو کے کئی ادوار میں ہمیشہ ایسے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی۔)

1994ع میں اپنے ساتھیوں ناصر، نایاب، راشد شیخ، ساجد، سعید نیگرو (یہ پانچوں افراد خود بھی بعد ازاں پولیس مقابلوں میں مارے گئے اور انہی کے ہمراہ پاک کالونی میں ایم کیو ایم حقیقی کے سیکٹر آفس پر حملہ کر کے حقیقی کے چودہ کارکنان کو قتل کیا

1995ع میں آصف زیدی کے حکم پر دلاور اور سعید نیگرو کے ساتھ پاک کالونی میں حقیقی کے کارکن جمال کو قتل کیا گیا۔ لیکن جمال کی ہلاکت دلاور کی گولی سے ہوئی. 1995ع میں پولیس مقابلے میں اپنے ساتھی فاروق دادا کی ہلاکت کے بعد اپنے ساتھیوں صدیق بچا، آصف زیدی، سعید نیگرو معین اور دلاور کے ساتھ مل کر اورنگی ٹاؤن نمبر 1 سے نیشنل کوچ اغوا کر کے اللّہ والا کالج کے قریب لے گئے۔ اس مسافر کوچ میں بیس سے پچیس لوگ سوار تھے۔ ان میں سے بارہ پنجابی مسافروں کو دوسروں سے علیحدہ کر کے قتل کردیا گیا۔‘

1995ع میں آصف زیدی کے حکم پر ساتھیوں دلاور اور جاوید کے ہمراہ اورنگی ٹاؤن نمبر 13 میں ایک نامعلوم بنگالی لڑکے کو پولیس کا ’مخبر‘ ہونے کے شبہے میں قتل کردیا۔‘

1995ع میں قمر ٹیڈی دلاور اور سعید نیگرو کے ہمراہ اورنگی ٹاؤن نمبر 1 پیپلز پارٹی کے رہنما اقبال ماما کو قتل کیا

1995ع میں احتشام، منا اور قمر ٹیڈی کے ہمراہ اورنگی ٹاؤن D-1 ایریا میں حقیقی کے کارکن عابد کو قتل کیا۔ احتشام کو بعد میں وسیم باس نے قتل کردیا جبکہ منا پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
1995 میں سعید گنجا کے ہمراہ اورنگی ٹاؤن نمبر 1 میں پولیس کے ایک قافلے سے اچانک سامنا ہوجانے پر حملہ کر کے دو اہلکاروں (کانسٹیبلز) کو قتل اور اے ایس آئی کو زخمی کردیا

1996ع میں احتشام اور صدیق ماما کے ساتھ اورنگی ٹاؤن کے قطر ہسپتال کے قریب نجمی پان والا کو ’مخبری‘ کے شبہے میں قتل کیا

1996ع میں راشد شیخ، ناصر، نایاب اور ساجد کے ساتھ سندھ سیکریٹریٹ بلڈنگ پر آٹھ راکٹ فائر کیے

1997ع میں ندیم نصرت کی ہدایت پر احتشام اور کاشف کے ساتھ اورنگی ٹاؤن میں مسلم لیگی رہنما زہیر اکرم ندیم کو قتل کیا

1997ع میں ہی ندیم نصرت کے حکم پر احتشام ، کلیم اور فیصل لمبا کے ساتھ نارتھ ناظم آباد میں پولیس افسر ڈی ایس پی شمیم کو قتل کیا

پولیس سربراہ کی تصدیق

اجمل پہاڑی کے ہاتھوں ڈی ایس پی شمیم کے قتل کی تصدیق سعود احمد مرزا نے بھی کی جو 1997ع میں کراچی کے سب سے حساس (اور تب الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا گڑھ اور جائے پیدائش سمجھے جانے والے) ضلع وسطی میں بطور ایس ایس پی پولیس کی قیادت کر رہے تھے

وہ بتاتے ہیں کہ ’اجمل پہاڑی جیسے کی کیا بات کریں؟ ڈی ایس پی شمیم کو بھی اسی گروہ نے مارا تھا۔ وہ میرے ہی ڈی ایس پی تھے۔ انھیں تو اُن کے گھر میں کود کر جوان بیٹے کے سامنے قتل کردیا گیا۔ ڈی ایس پی شمیم کا ’گناہ‘ یہ تھا کہ نواز شریف حکومت ایم کیو ایم کی حمایت چاہتی تھی اور اس کے لیے ایم کیو ایم کی شرط تھی کہ کارکنان پر درج تمام مقدمات واپس لیے جائیں

لیکن اُس وقت کی پولیس اور انتظامیہ کی قیادت میں بعض افسران نے تجویز دی کہ جن مقدمات میں پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے یا دیگر سرکاری اہلکار قتل کیے گئے ہیں وہ واپس نہ لیے جائیں

سعود مرزا کے مطابق اس تجویز کے تحت ہی ڈی ایس پی شمیم ایسے ہی مقدمات کی فہرست بنا رہے تھے جن میں پولیس یا سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو قتل کیا گیا۔ لیکن حالت یہ تھی کہ ابھی ایسے فیصلے ہوتے بھی نہیں تھے کہ دہشتگردوں کے پورے نیٹ ورک تک ساری تفصیل پہنچ جاتی تھی اور یہی ڈی ایس پی شمیم کا قصور بن گیا

دبئی میں محمد انور سے ملاقات

رہائی کے قریباً دو ماہ بعد محمد انور نے لندن سے فون کرکے اجمل پہاڑی کو دبئی بلوایا۔ ’فندق ہوٹل‘ میں ہونے والی اس ملاقات میں محمد انور نے مخالفین کا ’صفایا‘ کرنے کے لیے کراچی میں مختلف ’ٹیمز‘ بنانے کی ہدایات اور ممکنہ ’ٹارگٹس‘ (اہداف) کی ایک فہرست بھی دی

ٹارگٹ کلرز کا نیٹ ورک

اجمل پہاڑی نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ محمد انور کی ہدایت کے مطابق کراچی واپسی پر کئی ٹیمز بنائی گئیں جس کے تحت بلدیہ میں رحمٰن، انور، نسیم اور علی عرف غنی اورنگی ٹاؤن میں کلیم، زبیر، ارشد، کاشف ڈیوڈ، راشد، محمد علی، اور فجی جبکہ پاک کالونی میں دلاور، انور، فرحان، اور رضوان، لیاقت آباد میں مانی، شانی، عبید کے ٹو، وسیم باس، علی عرف غنی، ساجد، ڈاکٹر رشید، عاصم اور عابد لائنز ایریا میں علی گنجا، عارف، ببلو، ظفر اور ساجد جبکہ لیاری/ رنچھوڑ لائن میں نعیم ملا، طاہر لمبا، رضوان، عارف اور سلیم پر مبنی ٹیمز بنائی گئیں

’ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری

اجمل پہاڑی نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ ان ’نئی‘ ٹیمز کو مختلف ’ذمہ داریاں‘ سونپی گئیں جن کے مطابق ایم کیو ایم کے خلاف کام کرنے والے اپنے ہی کارکنوں اور حقیقی کے کارکنان کا ’صفایا‘ اجمل پہاڑی کی اپنی ٹیم کی ذمہ داری تھی جبکہ ایک اور ٹیم میں جاوید بندھا، سلیم بلوچ، غلام پٹنی، آصف بڈھا، آصف قدوس، ثنا اور علی تھے جن کے ذمے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے کارکنان کا قتل تھا

ان کے بقول تیسری ٹیم اشتیاق پولیس والا کے ماتحت تھی جس میں عبید کے ٹو رافع، شاویر تھے جو پولیس میں ایم کیو ایم کے مخالفین کے قتل کے لیے بنائی گئی تھی جبکہ آغا حسن گروپ بھی تشکیل دیا گیا تھا جس میں سہیل بھورا، فجی اور لیاقت آباد کے کچھ ساتھی شامل تھے

یہ ٹیم سپاہ صحابہ سمیت مذہبی جماعتوں کے کارکنان کے قتل کے لیے بنائی گئی تھی۔ ٹارگٹ کلنگ کے لیے کوڈ ورڈز میں پیغام رسانی کی جاتی مثلاً ’فائل خرید لو‘ ،’پے منٹ لے لو‘، ’پلاٹ پرچیز کرلو‘ اور اسی طرح احکامات دیے جاتے تھے

جے آئی ٹی کیا ہوتی ہے؟

سابق ڈی جی ایف آئی اے سعود مرزا کے مطابق متعلقہ افسران جب ضروری سمجھتے ہیں تو وہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے تحت صوبائی محکمۂ داخلہ سے جے آئی ٹی کی تشکیل کی درخواست کرتے ہیں

وزارت داخلہ کے احکامات پر ہی عموماً آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور پولیس کی سپیشل برانچ کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ اعلیٰ تفتیش کار ملزم سے مشترکہ پوچھ گچھ کے بعد تین میں سے کوئی ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں یعنی آیا ملزم بلیک ہے؟ گرے یا وائٹ ہے؟

بلیک کا مطلب ہے پوری طرح عادی، ملوث یا متحرک جرائم پیشہ شخص، گرے وہ ہیں جن کے بارے میں شکوک و شبہات تو بہت زیادہ ہوں مگر ان کا جرم سے تعلق ثابت کرنے کے لیے مواد کم ہو یا ثبوت و شواہد نہ میسر ہوں وائٹ وہ ہوتے ہیں جنہیں یہ تفتیش کار ’کلئیر‘ (غیر ملوث) قرار دے دیں۔‘

کیا ’اعترافات‘ تشدد سے کروائے جاتے ہیں؟

سابق ایس ہی فیاض خان کہتے ہیں کہ یہ جو روایتی تصور ہے کہ ’تھرڈ ڈگری‘ یا تشدد کے ذریعے ’اگلوایا‘ یا منوایا جاتا ہے یہ ہائی پروفائل کیسز میں کسی حد تک غیر مؤثر اس لیے ہوجاتا ہے کہ ملزم کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جن سے مخاطب ہے انھیں تو پہلے ہی سے بہت سی معلومات ہیں لہٰذا جھوٹ بولنے یا اگر مگر کرنے سے معاملہ خراب ہی ہوسکتا ہے

تشدد سے تو بعض اوقات تفتیش کاروں کی بھی کامیابی کا امکان کم یا نقصان کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ ملزم مار سے بچنے کے ڈر سے اگر جھوٹ بولنے لگے گا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے حقائق تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے

فیاض خان نے بتایا کہ اجمل پہاڑی ایک ہائی پروفائل ٹارگٹ کلر رہا ہے۔ ٹارگٹ کلرز کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہوتے ہیں۔ آپس کی چپقلش ہو یا کوئی بھی وجہ ہو اُن کی معلومات خاموشی سے پولیس یا خفیہ اداروں تک پہنچ جاتی ہیں۔ پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اپنے ’مخبروں‘ کا بھی ایک جال ہر محلے ہر محکمے ہر جماعت ہر گروہ ہر شعبے میں ہوتا ہے۔‘

جی آئی ٹی کی قانونی حیثیت

لیکن کراچی پولیس کے موجودہ سربراہ ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن کہتے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہوتی

سی سی پی او کراچی غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تو جان جاتے ہیں کہ ملزم بلیک ہے؟ گرے یا وائٹ؟ مگر عدالت اعترافی بیانات کو بطور ثبوت تسلیم نہیں کرتی

’جے آئی ٹی میں کسی کے بلیک قرار دیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ کورٹ اس کو سزا بھی دے دے گی۔ جے آئی ٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔‘

سی سی پی او کراچی غلام نبی میمن نے کہا کہ کراچی میں امن و امان کی جو صورتحال برسوں جاری رہی اس کے بھی اثرات ہیں

سیاسی پہلو بھی رہا ہے پولیسنگ کے معاملات میں۔ جس کی وجہ سے ماضی میں پولیس پر اعتماد میں جو خلا دراڑ یا کمی تھی اُسے بھرنے کے لیے جے آئی ٹی کلچر آیا۔ یعنی پولیس کے موقف کو مزید اعتبار دینے کے لیے جے آئی ٹی کا سلسلہ شروع ہوا

انھوں نے کہا کہ اجمل پہاڑی کے معاملے میں نہ مدعی تھانہ گواہ ملتا تھا بس کاغذی کارروائی ہوتی تھی، اب یہ کمی پوری کررہے ہیں

جے آئی ٹی کے بعد کسی ملزم کو سزا ہو یا نہ ہو، رہائی ضرور ہوسکتی ہے۔ اجمل پہاڑی کی رہائی اسی کی ایک مثال ہے اور شہر کے سیاسی و سماجی حلقے اجمل پہاڑی جیسے افراد کی رہائی پر تشویش کے ساتھ ساتھ خوف کا اظہار بھی کررہے ہیں

یہ ایسا معاملہ ہے کہ لوگ نجی گفتگو میں بھی دبے دبے لہجے میں بات کر رہے ہیں۔ اور وہ بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر

پسِ پردہ ہونے والی گفتگو میں کئی شخصیات کا کہنا کہ کوئی ضمانت نہیں کہ جرائم میں ملوث افراد رہائی کے بعد پھر دوبارہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں گے اور اگر ایسے افراد واپس جرائم میں ملوث ہوتے ہیں تو پھر نہ صرف بڑی مشکل سے قائم کیا جانے والا شہر کا امن و امان خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ تشویشناک حد تک بڑھ جانے والے ’سٹریٹ کرائمز‘ کی وجہ سے شہری مزید مسائل و مشکلات میں بھی گھِر سکتے ہیں

اُن کے خیال میں ایسے افراد کو رہا کروا کر مقبولیت حاصل کرنے کا جوا تو پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال جیسے سیاستداں کھیل رہے ہیں، لیکن ہارنے کی قیمت پورے شہر کو ادا کرنا پڑسکتی ہے

کراچی کے بیٹوں کو بھی موقع دیں

لیکن مصطفیٰ کمال ان تمام خدشات اور مخالفانہ خدشات اور الزامات کو رد کرتے ہیں

مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ’کوئی ایک فرد بھی کسی جیل سے چھڑوا کر نہیں لایا گیا۔ جو لوگ جیل میں تھے ان کے مقدمات چل رہے ہیں

اگر عدالتی کارروائی میں وہ سماعت کے بعد استغاثہ کی جانب سے الزام ثابت نہ کر پانے پر رہا ہورہے ہیں تو وہ تو عدالتی کارروائی سے رہا ہورہے ہیں۔ ہاں، کچھ لوگ ’مسنگ پرسنز‘ تھے اور ایک دو نہیں کئی کئی برس سے لاپتہ تھے۔‘

مصطفیٰ کمال نے اس کی توجیہ پیش کی کہ ’ہم تین مارچ 2016ع کو واپس آئے تو ہم نے اُسی دن یہ بات کی تھی کہ جس طرح سے ’آپ‘ لوگوں کو بلوچستان میں پہاڑوں سے اتار کر ان سے اینٹی ایئر گرافٹ گن واپس لے کر انھیں کور کمانڈر کے ہاتھوں سے گلُدستہ پیش کرواتے ہیں، اُن کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں وزیراعلیٰ صاحب ٹی وی پر انھیں کئی لاکھ روپے کا لفافہ پیش کرتے ہیں، اور اسی طرح خیبر پختونخواہ میں جو خودکش بمبار یا اُن کے ماسٹر مائینڈز پکڑے جاتے ہیں تو بحالی کے مراکز میں رکھنے کے بعد واپس معاشرے میں ضم ہونے کی اجازت دی جاتی ہے یا تحریک طالبان پاکستان کو معافی کی پیشکش کردی جاتی ہے تو میں نے اجمل پہاڑی اور صولت مرزا کا نام لے کر کہا تھا کہ یہ بھی اپنی ماں کے پیٹ سے قاتل پیدا نہیں ہوئے تھے کسی نے انہیں دہشت گرد بنایا۔ ان کراچی کے بیٹوں کو بھی تو کسی نے لازمی طور غلط راستے پر ڈالا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ کراچی والے بھی بلوچ عسکریت پسندوں یا پختون شدت پسندوں کی طرح ’پیدائشی‘ طور پر وطن دشمن یا جرائم پیشہ نہیں تھے بس انہیں بھی کسی نے غلط راہ سجھائی اور یہ اس راستے پر جا نکلے۔ تو جس طرح سے آپ نے پاکستان بھر کے نوجوانوں کو مواقع دیے ہیں کراچی کے نوجوانوں کو بھی ایک موقع دیجیے۔‘

’میں یہی بات میڈیا، جلسے، مجمع، بند کمرے میں اور ’پاکستان چلانے والوں‘ سے یہ بھی کہتا رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ ہماری کوشش سے ایک ایک، دو دو کر کے تجرباتی بنیادوں پر کچھ لوگوں کو سہولت ملی اور وہ واپس آ کر رول ماڈل بنے دوسروں کے لیے تو یہ تو ایک کامیاب کیس سٹڈی بن گئے۔ پاکستان کا اثاثہ بن گئے

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ’اب تک چار سو سے زیادہ لوگ رہا یا ’بازیاب‘ ہوکر اپنے گھروں کو واپس آچکے ہیں جن کے اہل خانہ برسوں سے اُن کی شکل دیکھنے کو ترس رہے تھے۔ اب اگر آج کراچی میں پچیس تیس لوگ روز نہیں مرتے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب ریاست کی اسی پالیسی کی وجہ سے ہے

مصطفیٰ کمال نے اپنا موقف بیان کیا کہ ’اگر میں کسی کو چھڑوا کر اپنے پاس ایسی کام کرواؤں تو میں مجرم ہوں لیکن اگر میں اپنی قوم کے کسی فرد کو کسی غلط راستے سے واپس لا کر اس ملک کا امن پسند شہری بنا رہا ہوں تو کیا برائی ہے؟ معاشرے اور قوم کو تو اس خدمت پر مجھے سراہنا چاہئیے۔‘

ایسے لوگوں کے دوبارہ جرائم کی جانب مائل ہونے کے امکان پر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ’لوگ میرے پاس اپنے لاپتہ بچوں کو ڈھونڈنے آتے ہیں۔ مجھے ایسے لوگوں کو بازیاب اور رہا کرواتے ہوئے چھ سال ہو گئے اور چھ برس میں کوئی ایک بھی ’فاؤل‘ نہیں ہوا کوئی ایک بھی دوبارہ جرم سے نہیں جڑا۔ پورا پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ششدر ہے اس کامیابی پر۔ ورنہ مجھے دکھائیں ایک بھی ایسا کیس۔ لندن پولیس کے سامنے اعترافی بیان کے بعد تو یہ ثابت شدہ بات ہے کہ یہاں را کے ایجنٹ اپنا کام کررہے تھے۔ ہم نے تو پاکستان کو بچایا ہے۔ سب ’لاپتہ` افراد کو مار کر تو نہیں پھینکا جاسکتا تو میں نے تو انہیں راستہ دیا اس مسئلے کو حل کرنے کا‘

لاپتہ افراد کی رہائی کے معاملے پر ایم کیو ایم پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار بھی مصطفیٰ کمال کے ہم آواز ہیں. وہ کہتے ہیں ’یہ مطالبہ تو سب کا رہا ہے چاہے وہ 22 اگست 2016ع سے پہلے کی ایم کیو ایم ہو یا بعد کی کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کروایا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن پر مقدمات ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے۔ مگر جو لوگ پانچ یا چھ سال سے لاپتہ ہیں اور محلے والوں کے مطابق ان کو قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کے لوگ لے گئے تھے تو پھر اُن کو آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت منصفانہ اور شفاف انداز سے مقدمات کے لیے عدالتوں میں پیش کریں اور چوبیس گھنٹے کے اندر پیش کیا جانا چاہیے۔‘

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ پھر عدالتیں سزا دیں تو وہ سزا نافذ کردی جائے اور رہا کریں تو انہیں رہا کر دیا جائے۔ لیکن اگر آپ نے اُن پر چھ سال بعد بھی کوئی مقدمہ نہیں بنایا ہے اور آپ کے پاس ثابت کرنے کو کچھ نہیں ہے تو پھر انہیں گھر جانے دیں

’جو لوگ بازیاب ہوئے یا واپس آئے ان میں سے زیادہ تر تو سیاسی طور پر غیر فعال ہو چکے ہیں۔ اب جو جیل میں ہیں وہ بھی چھ یا آٹھ سال سے جیل میں ہیں تو یا تو مقدمے کا فیصلہ کریں عدالتی کارروائی سے یا اگر استغاثہ کمزور ہے تو انہیں رہا کردیں۔‘

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے کچھ واقعی مجرم ہوں انہیں سزا دیں اگر ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ گیہوں کے ساتھ گھن پیسیں گے تو پھر ساری قانونی و عدالتی کارروائی سیاسی لگنے لگتی ہے۔ اصل میں جو ہمارا نظام عدل و انصاف ہے اس کا اعتبار متاثر ہوا ہے۔‘

فاروق ستار کہتے ہیں ”عزیر بلوچ کا بھی تو کوئی نام سنا تھا آپ نے۔ انہیں بھی تو ضمانتیں مل رہی ہیں۔ ویسے کتنے لاپتہ ہیں؟ تو اگر آپ نے بلوچستان میں یا کے پی میں ’ایمنسٹی‘ دی تو کراچی میں یہی معیار رکھیں کہ یہ بھی پاکستان کے بچے ہیں ان کو ہم گلے لگاتے ہیں۔ پاکستان کے ریاستی، سیاسی یا اداروں کا کوئی سربراہ ایک دفعہ کہے تو صحیح ایسا پھر دیکھیں وہ کس طرح پاکستان کی دل و جان سے تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close