بیجنگ – چین میں افغانستان کے موضوع پر ٹرائیکا پلس اجلاس منقعد کیا جا رہا ہے، جس میں پاکستان، چین، روس، امریکا کے علاوہ طالبان قیادت بھی شرکت کر رہی ہے
اجلاس میں افغانستان کی موجودہ سیاسی اور اقتصادی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف بھی یوکرین پر روسی حملے کے بعد اپنے پہلے سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے ہیں
روسی وزیر خارجہ چینی صوبے اُن ہُوئی کے دارالحکومت تنژی میں افغانستان سے متعلق دو روزہ بات چیت میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس ملاقات میں امریکا ، طالبان حکومت، چین اور پاکستان کے حکام بھی شامل ہوں گے
جبکہ اس دورے کے دوران لاوروف اپنی چینی ہم منصب وانگ یی سے بھی ملاقات کریں گے
یوکرین پر روسی حملے کے بعد چین نے روس کی حمایت کی ہے اور روسی حملے کی مذمت کرنے سے انکار کیا ہے۔ چین کے مطابق امریکا اور اس کا نیٹو اتحاد تنازعے کی اصل وجہ ہیں۔ یہ تناؤ اس ٹرائیکا ملاقات پر حاوی نظر آ رہا ہے، جس میں میزبان چین نے روس کے علاوہ پاکستان اور امریکا کو بھی مدعو کیا ہے
چین ٹرائیکا ملاقات کے علاوہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے نمائندوں کی ایک ملاقات کی بھی میزبانی کر رہا ہے۔ پاکستان سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق اس گروپ کا مقصد طالبان قیادت کو ایک کثیرالقومی حکومت کے قیام، اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے، انسانی حقوق، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے احترام کرنے پر قائل کرنا ہے
اگرچہ چین نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن امریکا کی طرح چین نے طالبان پر کڑی تنقید نہیں کی ہے۔ چین افغانستان کے استحکام اور ترقی میں مرکزی کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتا ہے
چین طالبان سے یہ یقین دہانی بھی چاہتا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر چین کی مسلم ایغور اقلیت کے ارکان کو کسی بھی طرح کی سرگرمی کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ بیجنگ کو شک ہے کہ ایغور سنکیانگ میں چینی حکومت کا تختہ الٹنے کو کوشش کر سکتے ہیں
واضح رہے کہ چینی وزیر خارجہ نے طالبان سے ملاقات کے لیے گزشتہ ہفتے کابل کا دورہ کیا تھا
ایشیائی امور کے تجزیہ کار ہنری اسٹوری کا کہنا ہے کہ بیجنگ اس طرح کی کانفرنسوں کی میزبانی کے ذریعے طالبان کو چین اور دیگر پڑوسیوں سے سفارتی شناخت ملنے کے امکانات بڑھا سکتا ہے
دوسری جانب چین کو افغانستان کے وسیع ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے مواقع کی بھی تلاش ہے۔ خاص طور پر ‘مس عینک’ کان، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تانبے کے ذخیرے کی دنیا کی سب سے بڑی کان ہے
کولمبیا یونیورسٹی کے سیاسیات کے ماہر الیگزینڈر کولی کہتے ہیں ”ان ملاقاتوں میں چین اپنے آپ کو افغانستان میں انسانی امداد اور اقتصادیات کے سرکردہ چیمپیئن کے طور پر پیش کرے گا اور افغان حکومت کے اثاثوں اور اکاؤنٹس کو غیر منجمد کرنے کا مطالبہ کرے گا“