کیا آپ نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو رہے ہیں؟

ڈاکٹر خالد سہیل

ہم سب بیک وقت دو دنیاؤں میں زندگی گزارتے ہیں
ایک باہر کی دنیا دوسری اندر کی دنیا
ایک خارج کی دنیا دوسری داخل کی دنیا
ایک حقیقی دنیا دوسری خیالی دنیا
ایک حقائق کی دنیا دوسری تصورات کی دنیا

ہمارے ظاہری اعمال ہمارے باطنی جذبات و خیالات کو متاثر کرتے ہیں اور ہمارے داخلی احساسات و نظریات ہمارے خارجی اعمال کو تشکیل دیتے ہیں

ہم ساری عمر ان دو دنیاؤں میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جو لوگ توازن رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ ذہنی طور پر صحتمند کہلاتے ہیں اور جو یہ توازن قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں انہیں لوگ دیوانہ کہتے ہیں

بعض لوگ زندگی کا توازن قائم کرنے کی کوشش میں ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ مسائل کو سلجھانے کی کوشش میں خود الجھ جاتے ہیں اور نفسیاتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس بحران کو عوام نروس بریک ڈاؤن کا نام دیتے ہیں اور ماہرین نفسیات اس کے لیے PSYCHOSIS کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس سائیکوسس کی مثالیں شیزوفرینیا اور بائی پولر دس آرڈر کی ذہنی بیماریاں ہیں

جب کوئی شخص دیوانگی کا شکار ہو جائے تو اس کے ارد گرد کے لوگ اور اس کے عزیز و اقارب حیران و پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس شخص کے ساتھ کیا سلوک کریں کیونکہ بقول شاعر
؎ دیوانے کے ہمراہ بھی رہنا ہے قیامت
دیوانے کو تنہا بھی تو چھوڑا نہیں جاتا

ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے میں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ خارجی اور داخلی دنیاؤں میں توازن قائم رکھنا ایک پیچیدہ اور گنجلک عمل ہے جو ہم سب ہر وقت لاشعوری طور پر کر رہے ہوتے ہیں۔ جب وہ توازن بگڑنے لگتا ہے تو انسان ذہنی طور پر لڑکھڑانے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگتا ہے

ذہنی بیماری کی کیا علامات ہیں؟

میں عام فہم زبان میں اس مشکل ذہنی مسئلے کی وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا۔ امید ہے اس سے آپ کو انسانی ذہن کے بلیک باکس میں جھانکنے اور انسانی نفسیات کے کچھ راز جاننے کا موقع ملے گا

آئیں دو صحتمند دوستوں کا مکالمہ سنیں:

ہیلو سلیم آپ کینیڈا سے کب تشریف لائے؟
میں دو ہفتے پہلے لاہور آیا تھا۔
خیریت؟
میری کزن کی شادی تھی۔
کیسی رہی؟
کووڈ وبا کی وجہ سے بہت کم لوگ شامل ہو سکے۔
آپ کو چائے پیش کروں؟
ضرور کیوں نہیں؟
کیسی چائے؟
کشمیری چائے۔ برسوں سے وہ چائے نہیں پی۔

اب ہم دو دوستوں کی گفتگو کا تجزیہ کرتے ہیں:

جب پہلا دوست بات کرتا ہے اور سوال پوچھتا ہے تو دوسرا دوست جواب دینے سے پہلے لاشعوری طور پر چند سیکنڈوں میں چند اقدام سے گزرتا ہے

پہلا قدم۔ وہ اپنے حواس خمسہ سے حالات کا جائزہ لیتا ہے
آنکھوں سے دوست کو دیکھتا ہے اس کے چہرے کے تاثرات پڑھتا ہے
کانوں سے اس کی آواز سنتا ہے اس کے الفاظ کو سمجھتا ہے
دوسرا قدم۔ وہ اس کے سوال کے بارے میں سوچتا ہے غور کرتا ہے
تیسرا قدم۔ وہ اس سوال میں چھپے جذبات کو محسوس کرتا ہے

چوتھا قدم۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ کیا اس سوال کا جواب دینا چاہیے یا نہیں اور اگر دینا چاہیے تو کن الفاظ میں اور کس لہجے میں

پانچواں قدم۔ پھر وہ اپنے دوست کے سوال کا جواب دیتا ہے

جواب سننے کے بعد پہلا دوست بھی ان ہی پانچ مراحل سے گزرتا ہے اور دونوں دوستوں کا مکالمہ جاری رہتا ہے اور یہ مکالمہ چند سالوں کے بچھڑے دوستوں میں چند منٹوں نہیں بلکہ چند گھنٹوں تک جاری رہ سکتا ہے

لیکن اگر ایک دوست نفسیاتی بحران اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو چکا ہے اور ذہنی توازن کھو چکا ہے تو وہ مکالمہ یہ صورت بھی اختیار کر سکتا ہے

〰️〰️〰️

ہیلو سلیم آپ کینیڈا سے کب تشریف لائے؟

آپ نہیں جانتے کہ میں کینیڈا ڈرائی نہیں پیتا میں تو کوک کا شوقین ہوں بلکہ کبھی کبھی کوکین کا شوق بھی کر لیتا ہوں

کیا لاہور آنے کی کوئی خاص وجہ تھی؟
میں کوئی خاص آدمی نہیں ہوں میں عام انسان ہوں میں عوام میں سے ہوں خواص میں سے نہیں
آپ کو چائے پیش کروں؟
چاہے چائے دیں چاہے کوفی دیں سب کافی ہے بلکہ سب ناکافی ہے
آپ کچھ ذہنی طور پر پریشان دکھائی دیتے ہیں؟
پریشان ہاں کالج میں ہمارے ایک استاد ہوتے تھے ان کا نام پریشان خٹک تھا
〰️〰️〰️

امید ہے ان چند جملوں سے آپ کو نفسیاتی مریض کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔ نفسیاتی طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذہنی مریض کی ان علامات کی کیا وجوہات ہیں؟

جب ہم کسی کلاس میں اپنے ڈاکٹری اور نرسنگ کے طلبا و طالبات کو نفسیاتی بیماریوں کے راز سکھا رہے ہوتے ہیں تو ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ذہنی مریض کا ذہن پانچ اقدام میں سے کسی بھی قدم پر لڑکھڑا سکتا ہے یا وہ ایک سے زیادہ اقدام پر لڑھک سکتا ہے اور گفتگو کا سلسلہ کسی بھی وقت بے ترتیب ہو سکتا ہے

پہلے قدم پر حواس خمسہ کا نفسیاتی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ایسا مریض غیبی آوازیں سن سکتا ہے یا ایسی غیر معمول چیزیں دیکھ سکتا ہے جو دوسروں کو دکھائی نہیں دیتیں۔ نفسیات کی زبان میں ہم اس مسئلے کو hallucinationsکا نام دیتے ہیں جو problems of perceptionکی نشاندہی کرتے ہیں

دوسرے قدم پر سوچ اور فکر کا نفسیاتی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ایسا مریض منطقی انداز سے نہیں سوچ سکتا اور بے ترتیب اور غیر منطقی باتیں کرنے لگتا ہے۔ وہ الفاظ میں اتنا کھو جاتا ہے کہ معنی سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ جیسے کینیڈا سے مشروب کینیڈا ڈرائی اور کوک کا خیال اور کوک سے کوکین کا تعلق بناتا ہے۔ اسی طرح کوفی سے کافی اور ناکافی کا رشتہ جوڑ لیتا ہے۔ ہم اس مسئلے کوproblems of thinkingکا نام دیتے ہیں

(دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اگر الفاظ سے کھیلنے والا انسان ذہین اور صحتمند ہے اور شاعرانہ مزاج کا حامل ہے تو وہ اس چیز کو اپنی شاعری میں ردیف قافیہ کے چناؤ سے مثبت طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے)

تیسرے قدم پر جذبات کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ایسا مریض خوشی کے موقع پر دکھی اور غم کے موقع پر شاد ہو سکتا ہے۔ ہم اس عارضے کوproblems of feeling کا نام دیتے ہیں

چوتھے قدم پر فیصلہ کرنے کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ایسا مریض یہ سمجھ سکتا ہے کہ لوگ میرے خلاف ہیں مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نفسیات کی زبان میں اس عارضے کو delusion اور paranoia کا نام دیتے ہیں جو problems of judgement کی نشاندہی کرتا ہے

پانچویں قدم پر ذہنی مریض غیر معمولی حرکات و سکنات کر سکتا ہے۔ وہ اپنے والد کی وفات پر زور زور سے قہقہے لگا سکتا ہے اور امتحان کی کامیابی پر دھاڑیں مار کے رو سکتا ہے اور لوگوں کو حیران و پریشان کر سکتا ہے۔ ہم ایسے اعمال کو
problems of behaviour and inappropriate behaviour
کا نام دیتے ہیں

میں نے یہ عوارض اپنے موقف کی وضاحت کے لیے لکھے ہیں تا کہ آپ کو ذہنی مریض کی نفسیاتی دشواریوں کا اندازہ ہو سکے

جیسے کوئی جسمانی طور پر کمزور ’زخمی یا بیمار شخص بار بار لڑکھڑا کر زمین پر گر سکتا ہے اسی طرح ایک ذہنی مریض گفتگو میں بار بار ذہنی طور پر پٹڑی سے اتر سکتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ جسمانی طور پر بیمار انسان ہمیں زمین پر گرتا دکھائی دیتا ہے تو ہمارے دل میں اس کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھرتے ہیں جبکہ ذہنی مریض ایک معمہ‘ ایک بجھارت اور ایک پہیلی بن جاتا ہے۔ وہ ہمیں حیران اور پریشان کرتا ہے کیونکہ ہمیں اس کا بیمار ذہن دکھائی نہیں دیتا اور ہم اس سے ہمدردی کرنے کی بجائے اس کی بے ترتیب گفتگو پر ہنستے ہیں۔ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور بچے اسے گلی میں پتھر مارتے ہیں۔ اور کچھ پیار کرنے والے ایسے بھی ہیں جو اس مریض کو کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جانے کی بجائے اسے کسی پیر فقیر یا بابے کے پاس گنڈا تعویز کرانے یا جن اتروانے لے جاتے ہیں

سائنس ’طب اور نفسیات کی تحقیق نے ہمیں بتایا اور سکھایا ہے کہ جسمانی بیماریوں کی طرح ذہنی بیماریاں بھی دماغ اور ذہن کی بیماریاں ہیں جن کا علاج:
ادویہ
تعلیم
تھراپی
اور ہمدردانہ رویے
سے کیا جا سکتا ہے

ذہنی مریض بھی کامیاب علاج سے صحتمند ہو سکتے ہیں اور دوبارہ ایک کامیاب خاندانی ’سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ وہ علاج سے دوبارہ اپنی خارجی اور داخلی دنیاؤں کا کھویا ہوا ذہنی توازن نہ صرف قائم کر سکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں

اکیسویں صدی میں یہ ہم سب کی سماجی ذمہ داری ہے ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو گھروں ’سکولوں اور کالجوں میں ذہنی صحت اور بیماری کے بارے میں تعلیم دیں تا کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں دانشمندانہ فیصلے کر سکیں اور اپنے عزیزوں کو گنڈا تعویز کی بجائے ایسا سائنسی اور طبی علاج فراہم کر سکیں جو ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ میرے نفسیاتی کالم ایسی ہی ذہنی تعلیم کو عوام تک پہنچانے کی ایک عاجزانہ اور درویشانہ کوشش ہیں

میں ایک دفعہ پھر ’ہم سب‘ کے مدیران اور قارئین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو میری اس ادنیٰ کوشش کو سراہتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کو جہالت کی تاریکیوں سے علم و آگہی کی روشنی تک لانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

انسانی ارتقا کا عمل نہ صرف سست رو ہے بلکہ ہر موڑ پر قربانیوں کا متقاضی بھی ہے۔ اس سفر میں وہ لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو صبر ’تحمل‘ بردباری کے ساتھ ساتھ ایک میراتھون رنر کی استقامت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں.

نوٹ: ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کا یہ مضمون ادارہ ہم سب اور مصنف کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close