بیرونی سازش کا نظریہ: پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر بھارتی میڈیا میں کیا چل رہا ہے؟

ویب ڈیسک

کراچی – پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال بھارت میں بھی خبروں اور بحث و مباحثوں کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ بیشتر بھارتی چینلوں پر بیٹھے تجزیہ کار یہ توقع کر رہے تھے کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کی صورت میں عمران خان کی حکومت گر جائے گی اور اپوزیشن جماعتیں نئی حکومت بنائیں گی

عدم اعتماد کی تحریک مسترد ہونے اور قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کی خبر ملک کے سبھی چینلوں اور اخبارات کی شہ سرخی تھی

پیر کے روز پاکستان کی سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت شروع ہوتے ہی سبھی چینلوں نے اسلام آباد سے موصول ہونے والی خبریں نشر کرنی شروع کر دی تھیں

عمران خان ان چند پاکستانی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں بھارت میں عمومی طور پر مقبولیت تو حاصل ہے لیکن ان کے بارے میں بھارتی رویہ دوہرے پن کا شکار ہے

قبل ازیں انہیں بھارت سے تعلقات کے معاملے میں اتنا سخت گیر نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان کے بارے میں بھارت کا رویہ کافی حد تک سرد مہری کا رہا ہے

بھارت اور پاکستان کے تعلقات عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کی مدت میں مکمل سرد مہری کا شکار رہے۔ مختلف بھارتی چینلوں اور تجزیہ کاروں کے تبصروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں عمران خان کی جگہ اپوزیشن کی حکومت قائم ہونے کے امکانات سے خوشی ہوگی

لیکن جب عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کا اعلان کر دیا تو بھارت کے بعض حلقوں میں مایوسی چھا گئی اور ان حلقوں میں اب بھی یہ امید کی جا رہی ہے کہ شاید سپریم کورٹ عمران خان کے فیصلے کو مسترد کر دے اور عدم اعتماد کی ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دے۔ اور اس طرح اپوزیشن کی حکومت قائم ہونے کی راہ ہموار ہو جائے

بھارت میں مایوسی سے متعلق پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی بات کی، جسے بھارت کے ایک ہندی اخبار نے بھی شائع کیا۔ ہندی اخبار کے مطابق قومی اسمبلی کے تحلیل کیے جانے پر شیخ رشید نے کہا: ‘خاص طور سے بھارت میں ماتم چھایا ہوا ہے۔ بھارت کے 72 چینل اس فیصلے کے بعد ماتم کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد سب سے زیادہ مایوسی بھارت میں آئی ہے۔’

اس حوالے سے معروف ہندی نیوز ویب سائٹ لوک مت کے ایڈیٹر رنگناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ ”پاکستان کی صورتحال انڈین ایلکٹرانک میڈیا کے لیے کسی تھرِلر سے کم نہیں جبکہ پرنٹ میڈیا کے لیے ہمارے حساس پڑوس میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بہت اہمیت کا حامل ہے“

انہوں نے کہا ”عمران خان کی جانب سے تھیوکریٹک پاکستان کے آئیڈیا کے ساتھ طویل اور مسلسل چھیڑ چھاڑ کی تاریخ رہی ہے اور ‘کشمیر کے نام نہاد کاز’ کے ساتھ ان کا جنون بھی انڈیا کے لیے پریشانی کا باعث رہا ہے“

اس کے برعکس جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامی ممالک پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر محمد سہراب کہتے ہیں ”ابھی جو عمران خان کی قیادت والی حکومت ہے یا تھی، اسے فرانسیسی کے ایک لفظ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ لفظ بیٹینوا ہے، یعنی آج جو ممالک کی اکثریت ہے، لوگ ہیں، پاپولر میڈیا ہے، انٹیلیجنسیا ہے وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے، اس سے بچنا چاہیے یعنی اس سے نفرت کرنی چاہیے“

انہوں نے کہا ”اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کی فارن پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی ہو، دونوں میں اس نے خود مختاری اور قومی مفادات کے عناصر کو داخل کیا ہے۔ اور یہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے اندر اکنامک اور فیوڈل مافیا کو پسند نہیں کیونکہ حکومت کی انہیں سپورٹ نہیں ہے یا حکومت کی پالیسی سے انہیں فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ اسی لیے وہ بس بدظن ہیں“

پروفیسر محمد سہراب کا کہنا تھا ”پاکستان کے شہریوں کی اپنی پسند ناپسند ہو سکتی ہے لیکن اگر وہاں کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو وہاں کی حزب اختلاف عام زبان میں کسی ‘گڑھ’ کی طرح ہے، جس میں مولانا فضل الرحمان جیسے لوگ شامل ہیں جو خود کے بارے میں مسلمانوں کا رہنما ہونے کا دعوی کرتے ہیں“

انھوں نے مزید کہا کہ ”پاکستان کی داخلی صورتحال زیادہ خراب ہے بنسبت اس کی خارجی صورت حال کے، جہاں وہ بظاہر اپنے روایتی موقف سے دور ہو رہا ہے اور روس اور چین کے قریب ہو رہا ہے“

اسی بارے میں انڈین تھنک ٹینک ‘انڈین کاؤنسل آف ورلڈ افیئرز’ میں سینیئر فیلو فضل الرحمان کہتے ہیں کہ جہاں تک شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ’انڈین میڈیا میں ماتم چھایا ہوا ہے‘ تو یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ انڈین میڈیا میں اس پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں

انہوں نے کہا ”اور جس طرح سے گذشتہ بیس تیس سال کے دوران بھارت پاکستان کے رشتے رہے ہیں، اس میں پاکستان میں کوئی بھی چيز ہو، اس میں بھارتی میڈیا کی بہت دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کے الٹ بھی بات درست ہے“

انھوں نے کہا ”میڈیا اپنے ایجنڈے کے تحت وہاں کی صورتحال کو پیش کرتا ہے تاکہ اپنے ناظرین پر یہ واضح کر سکے کہ وہ پڑوس کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے لیکن اس کے ‘حکومت یا اسٹیبلشمنٹ پر کیا اثرات ہوتے ہیں’ یہ بہت بڑا سوال ہے“

ان کا کہنا تھا ”پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، عمران خان کی حکومت کے حوالے سے یا نواز شریف کے حوالے سے یا موجودہ بحران کے حوالے سے، اس پر حکومت ہند کی تو اپنی نظر ہو سکتی ہے لیکن میڈیا جو کچھ پیش کررہا ہے یا جو باور کرانا چاہتا ہے، اس سے یہاں کے عوام کو کوئی سروکار نہیں ہے“

انھوں نے کہا ”جب سے عمران خان آئے ہیں، اس وقت سے بھارت پاکستان میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ بھارت میں کہیں نہ کہیں یہ احساس ہے کہ اب دوڑ میں پاکستان کہیں بہت پیچھے چھوٹ چکا ہے۔ سفارتکاری، سیاست، اسٹریٹیجی اور اکانومی یہ چار چیزیں ہیں، جس سے کسی ملک کے گراف کا پتہ چلتا ہے، اس میں بھارت بہت آگے ہے“

لیکن پاکستان میں رہ کر بھارتی میڈیا کے لیے ایک زمانے تک صحافت کرنے والے سینیئر صحافی امت بروا کا کہنا ہے ”بھارت میں پاکستان کے متعلق سمجھ کی کمی ہے“

امت بروا نے کہا ”ایسا نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بالکل تعطل ہے۔ عمران خان کے آنے کے بعد سے اگرچہ سربراہان کے درمیان بات نہیں ہوئی ہے لیکن بات بیک چینلز سے ہو رہی ہے۔ اور اس کی مثال ایل او سی پر بلا اشتعال فائرنگ کا رکنا ہے“

پروفیسر سہراب نے کہا ”عمران خان نے جس طرح بھارت کی خارجہ پالیسی کی تعریف کی، بدقسمتی سے اسے ہمارا میڈیا خود مثبت انداز میں پیش نہیں کر پایا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس کے پس پشت کون سی ذہنیت ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس طرح ہمارے ایک پہلو پر ہمارا روایتی حریف ہمارے حق میں بول رہا ہے، کم سے کم اسے ہمارے یہاں ہماری انٹیلیجنسیا، ہمارے میڈیا میں بہتر مقام دینا چاہیے تھا“

اس پس منظر میں پروفیسر سہراب کا کہنا تھا ”امریکا اور امریکا کے حلیف، چاہے وہ دنیا کے کسی خطے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ صرف پاکستان کے اندر ہی حکومت کی تبدیلی کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا واضح طور پر منصوبہ ہے، ترکی میں حکومت تبدیل کرنا، جہاں کہیں بھی مسلمان (حکمراں) کی پالیسی سے انہیں اتفاق نہیں ہے، وہاں کے حکمران کو بدلنا۔ یہ پالیسی بائیڈن حکومت کی نہیں ہے بلکہ یہ وار آن ٹیرر اور وار آن اسلامک ٹیرر کی اسکرپٹ لکھی گئی ہے، اس اسکرپٹ کے اندر ہی یہ بہت واضح طور پر ہے کہ، اس کے دو پہلو ہیں، ایک عسکری پہلو ہے، جہاں لڑائی ہو رہی ہے اور ہوگی اور دوسرا مسلم ممالک اور مسلم معاشرے میں ہر طرح کے فتنے اور ہر طرح کی مزاحمت کو فروغ دینا ہے۔ ایک طرح کی سول وار (خانہ جنگی) کی فضا پیدا کرنی ہے“

پروفیسر سہراب کہتے ہیں ”یہ ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ کوئی بھی ملک داخلی سطح پر جتنا عدم استحکام کا شکار ہوگا، کمزور ہوگا، انہیں حکومت پر دباؤ ڈالنے میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔ اس طرح آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں کسی بھی مسلم ملک میں اگر شورش ہے تو ایسا نہیں کہ وہاں براہ راست بیرونی مداخلت نہیں ہے، واضح طور پر ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ 2016ع میں جو ترکی میں تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کا ریموٹ کنٹرول کہاں تھا“

انھوں نے مزید کہا ”بدقسمتی یہ ہے کہ ترکی ہو یا کوئی اور مسلم ملک، وہاں کے داخلی عناصر خود اس میں شامل ہیں۔ میں کوئی سازشی نظریہ نہیں پیش کر رہا ہوں، بلکہ یہ واضح ہے کہ در پردہ جو عوامل کام کر رہے ہیں، وہ بہت طاقتور ہیں اور پاکستان کے تناظر میں بھی یہ درست ہے. ایسے میں یہ کہوں گہا کہ عمران خان کی جو ‘غلطی’ ہے وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے داخلی اور خارجی پالیسی میں اپنی خودمختاری کے عناصر کو بحال کیا ہے، جو کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہے“

یہ کئی برسوں میں پہلا موقع ہے جب بھارت میں پاکستان کی سیاست کو اتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ دلچسپی ٹی وی چینلوں پر دکھائی دیتی ہے، جہاں کئی روایتی تبصرہ کار پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کو پاکستان میں جمہوریت کے فقدان اور سیاست میں فوج کی مداخلت جیسے پہلوؤں سے جوڑتے ہیں

بہت سے دوسرے تجزیہ کار یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہاں کی فضا اچانک عمران خاں کے خلاف کیوں ہو گئی۔ پاکستان کی طرح بھارت کے حوالے سے بھی یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ اب کیا ہوگا؟

عمران خان ایک کرکٹر اور ایک کپتان کے طور پر تو بھارت میں بے حد مقبول رہے، لیکن وہ ایک سیاستدان کے طور پر بھارت کو قبول نہیں۔ اس پر بات کرتے ہوئے فضل الرحمان کہتے ہیں ”جس زمانے میں عمران خان کرکٹ کھیل رہے تھے، پاک بھارت تعلقات بہتر تھے اور اسی وجہ سے نہ صرف عمران خان بلکہ، جاوید میانداد، وسیم اکرم اور وقار یونس سب یہاں مقبول تھے۔ آج بھارت اور پاکستان اپنے تعلقات کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، ایسے میں عمران خان بطور وزیر اعظم پسند نہیں اور اس کا دارومدار پاکستان کی حکومت کا فوج سے قربت پر ہوتا ہے۔ یہاں یہ دیکھنا اہم ہے کہ آیا عمران خان کو فوج کی سرپرستی حاصل ہے تو کہا جاتا ہے کہ انہیں فوج کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ایسے میں کسی سیویلین حکومت کا اپنا فیصلہ کرنا بہت مشکل سمجھا جاتا ہے۔ اور فوج کبھی بھارت پاکستان کے رشتے کو بہتر کرنا نہیں چاہے گی“

امت برووا کا بھی یہی کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے سرد مہری کی وجہ حکومت پر فوج کا اثر و رسوخ ہے

ایک اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے موجودہ حالات کو ان الفاظ میں ڈھالا ”عمران خان نے اپوزیشن کی طرف ایک ‘اِن سوئنگ یورکر’ پھینکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اسے ‘نو بال‘ قرار دیتی ہے یہ نہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close