گٹکے اور ماوے کے بڑھتے استعمال سے منہ کے کینسر میں اضافہ، یہ مافیا کیسے کام کرتا ہے؟

ویب ڈیسک

متوسط علاقوں میں رہائش پذیر زیادہ تر افراد ماوا، پان اور گٹکا کھانے کی لت میں مبتلا ہیں۔ لوگوں کو اس بات کا پتہ ہے کہ ماوا گٹکا اور تمباکو والا پان مضر صحت ہے اور یہ منہ کے کینسر کا باعث بن رہا ہے تاہم اس کے باوجود لوگ اس عادت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ کھانا کھائیں یا نہ کھائیں لیکن انھیں گٹکا، ماوا اور پان لازمی چاہیے

حکومت کی جانب سے سختی کے بعد ماوا اور گٹکا کھلے عام تو فروخت نہیں ہو رہا ہے تاہم کئی علاقوں میں گھریلو سطح پر یہ مضر صحت اشیاء تیار کرنے کے بعد مختلف سپلائی اور فروخت ہو رہا ہے یا پھر لوگ انہیں ازخود گھروں میں تیار کر رہے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت ماوے کا استعمال کر رہی ہے، جو ناقص چھالیا اور تمباکو اور چونے کے پانی سے تیار کیا جاتا ہے

جامشورو کی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (لمس) کے شعبہ سرجری برائے منہ اور جبڑا کے سربراہ ڈاکٹر کاشف علی چنڑ سندھ میں منہ کے کینسر کے مریضوں کی مسلسل بڑھتی تعداد سے پریشان ہیں

ڈاکٹر کاشف علی چنڑ کا کہنا ہے ”گذشتہ سال ان کے ہسپتال میں اس مرض کے نو سو مریض ریکارڈ کیے گئے تھے اور اس سے پچھلے برس چار سو، لیکن اس سال کے پہلے تین مہینوں میں ہی چار سو مریض ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ پہلے چالیس پچاس سال کے لوگ اس مرض کے ساتھ آتے تھے لیکن اب تو بیس بیس سال کے اور اس سے بھی کم عمر مریض آ رہے ہیں۔ ایک ہی خاندان کے دو، دو، تین، تین مریض ساتھ آتے ہیں۔ باپ، بیٹا، بھائی، سب۔۔ اور سبھی ماوے، گٹکے اور مین پڑی کھانے کے عادی ہوتے ہیں“

سندھ میں یہ سستا نشہ عام محنت کش افراد میں کافی عرصے سے مقبول ہے۔ گو اس کے اجزاء ترکیبی کے بارے میں کوئی تجزیاتی رپورٹ دستیاب نہیں لیکن عام خیال یہی ہے کہ یہ تمباکو، چونا اور چھالیہ کا مرکب ہوتا ہے۔ اجزا اور ان کے تناسب میں ردوبدل کر کے اس کو مختلف ناموں جیسے مین پڑی، گٹکا، ماوا وغیرہ سے بیچا جاتا ہے

سندھ کا علاقہ ٹھٹہ اس کے کثرت استعمال کی وجہ سے اس کا گڑھ مانا جاتا ہے اور سندھ میں منہ کے کینسر کے سب سے زیادہ مریض بھی اسی ضلع میں ہیں

ٹھٹہ کے ایڈیشنل چیف ڈینٹل سرجن ڈاکٹر شیام کمار نے لوک سجاگ کو بتایا کے سول ہسپتال کے دانتوں کے شعبے میں 2021ء میں منہ کے کینسر کے 261 مریض رپورٹ ہوئے تھے جبکہ 2022ء میں یہ تعداد 475 تک جا پہنچی اور رواں سال جنوری سے مارچ تک 90 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان مریضوں میں 30 فیصد خواتین شامل ہیں، جبکہ زیادہ تر مریضوں کی عمر تیس سے چالیس سال تک ہے

 حمید جوکھیو کی کہانی

حمید جوکھیو کو پہلی بار سات سال قبل منہ میں درد محسوس ہوا۔ شروع میں انہوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن چند روز میں اس نے زور اختیار کر لیا کہ ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑا

اس مقصد کے لیے وہ کراچی کے ایک نِجی ہسپتال گئے، جہاں انہیں بتایا گیا کہ ان کے منہ میں زخمی بن گئے ہیں، جو تیزی سے بڑے اور گہرے ہو رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی کہا گیا کہ ان زخمیوں کی وجہ ان کی گٹکا کھانے کی عادت ہے

سندھ کے جنوبی شہر ٹھٹہ کے مخدوم محلہ کے رہائشی حمید جوکھیو کی عمر اڑتالیس سال ہے۔ ان کے دو بچے اور بیٹیاں جن کی عمریں آٹھ اور دو سال کے درمیان ہیں۔ ان کے مطابق وہ گٹکا کھانے کے عادی ہو گئے تھے لیکن 2015 میں جب ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ یہ عادت ان کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے تو اس کا استعمال ترک کر دیا اور تندہی سے علاج کی کوشش کی

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کے علاج سے ان کے زخم بہتر ہونے لگے اور ان میں کمی واقع ہوئی لیکن جلد ہی انہیں دوبارہ گٹکے کی طلب محسوس ہونے لگی۔ شروع میں انہوں نے صبر کیا لیکن ان کے بقول، ”ایک ہفتے کے بعد میری ہمت جواب دے گئی اور ایک بار پھر گٹکا کھانا شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں 2018 میں میرے منہ کا درد واپس آ گیا“

جب وہ اس کے لیے دوبارہ کراچی کے اُسی نِجی ہسپتال گئے تو وہاں موجود ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا مرض اب سنگین صورت اختیار کر گیا ہے، آپ کو علاج کے لیے کسی بڑے ہسپتال سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے ان کی اہلیہ ان کو کراچی کے جناح پوسٹ گریجوئیٹ میڈیکل سنٹر لے گئیں، جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں منہ کا کینسر ہے

تاہم اس کی تشخیص کے لیے ان کا علاج فوری طور پر شروع نہ ہو سکا کیوں کہ جناح ہسپتال کی میڈیکل سوسائٹی میں کینسر کے مرض کی وجہ سے آگے بڑھنے لگی تھی۔ اس کے لیے کئی مہینوں کا انتظار کرنا پڑا، جب انہیں تاریخ نہیں ملی تو انہوں نے ایک نِجی ہسپتال سے رجوع کیا جہاں انہیں سولہ لاکھ روپے کا خرچہ بتایا گیا

موہن داس کی کہانی

کھیت مزدور/ہاری رام کولہی کا تعلق ٹنڈو الہیار کی یونین کونسل جارکی سے ہے، جن کے بیس سالہ بھائی منہ کے کینسر سے فوت ہو گئے تھے

اپنے بھائی موہن داس کی تصویر دکھاتے ہوئے رام کولہی نے بتایا ”اس کی شادی کو ابھی تقریباً ایک سال ہی ہوا تھا۔ مین پڑی کھانے کی وجہ سے منہ میں چھالا ہوا اور پھر پتہ ہی نہیں چلا اور اس کی جان چلی گئی۔۔“

رام نے بتایا ”موہن گھر والوں سے چھپ کر دوائی لینے جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے کھانا کم کر دیا، کمزور پڑنے لگا، ایک دن جب میں نے اس سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے تب اس نے بتایا کہ اسے منہ کا کینسر ہو گیا ہے“

رام نے بتایا کہ انہوں نے بھائی کے علاج کے لیے سترہ اٹھارہ لاکھ روپے قرض لے کر خرچ کیے۔ حیدرآباد، جامشورو اور کراچی کی ہسپتالوں سے علاج کرایا مگر کینسر موہن کو کھا چکا تھا“

موہن کی اکلوتی بیٹی اب سات سال کی ہے۔ رام اپنے کچے گھر میں جہاں اپنے مرحوم بھائی کی کہانی سنا رہے تھے، وہاں پاس بیٹھے اکثر نوجوان مین پڑی اور گٹکا کھا رہے تھے

کہنے کو تو خود رام اب احتیاط کرتے ہیں مگر ان کے منہ اور دانتوں پر پڑے واضح نشانات ان کے اس دعویٰ کا ساتھ نہیں دے رہے تھے یا یوں کہہ لیں کہ ان کے اس عادت کو ترک کرنے کے ارادے کا منہ چڑا رہے تھے

منہ کے کینسر کے بڑھتے کیسز

ٹھٹہ میں متعین ڈاکٹر شیام کمار کہتے ہیں کہ اس علاقے میں بڑی تعداد گٹکا، ماوا اور مین پوڑی استعمال کرتی ہے، جن میں کچھ دوسری نشہ آور عناصر کی آمیزش ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں منہ کا کینسر خاص طور پر قابل ذکر ہے“

اس ضمن میں محکمے میں جمع کردہ اعدادوشمار بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنوری 2021 سے مئی 2022 کے اختتام تک ٹھٹہ سے سجاول کے جڑواں اضلاع میں موجود ہسپتالوں میں کینسر کا علاج کرانے والے لوگوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ رہی۔ اسی طرح پچھلے تین سے چار ماہ میں بھی اوسطاً چار چھ ایسے لوگ ان ہسپتالوں میں آ رہے ہیں، جن کو یہ بیماری لاحق ہے۔ ان کے بقول ان کے علاقے میں یہ مرض بڑھتا جا رہا ہے اور مقامی ہسپتالوں میں اس کے علاج کے لیے سہولتیں کم پڑ رہی ہیں۔ اس کے لیے تشخیص اور علاج کے لیے کئی ہفتے انتظار کرنا پڑتا ہے

ایک اور پہلو کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر شیام کمار نے کہا کہ منہ کے کینسر کے زیادہ تر مریض خود بھی خوفزدہ یا شرمندہ ہو کر ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔بالآخر جب وہ ہسپتال میں علاج کے لیے آتے ہیں تو ان کا مرض شدید ہو چکا ہوتا ہے

انہوں نے کہا کینسر کی شرح تشویش ناک ہے۔ اگر حکومت نے اس پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو اس علاقے میں صحت کا بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے

یاد رہے کہ محکمہ صحت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نے نومبر 2019ء میں سندھ ہائی کورٹ، کراچی میں ایک کیس کے سلسلے میں رپورٹ جمع کروائی تھی، جس کے مطابق 2015ء سے اکتوبر 2019ء تک صوبہ میں منہ کے کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 76 ہزار سات سو 14 تھی

سندھ اسمبلی نے 18 دسمبر 2019ء کو مین پڑی اور گٹکے کی تیاری، خرید و فروخت اور ذخیرہ کرنے اور کھانے کے خلاف ایک قانون منظور کیا، جو 22 جنوری 2020ء سے پورے صوبے میں لاگو ہوا۔ قانون کے تحت مین پڑی اور گٹکے کی فروخت اور استعمال میں ملوث افراد کو تین سال قید اور دو لاکھ روپے سے زائد جرمانے کی سزا ہے

اس قانون کے اطلاق کے بعد مین پڑی اور گٹکے کی سر عام دستیابی کم ہو گئی اور یہ کاروبار زیر زمین چلا گیا، لیکن کئی علاقوں یہ کاروبار اب بھی جاری ہے اور پولیس بھتہ لے کر اس سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہے

یہ مافیا کیسے کام کرتا رہا ہے؟

ایک معروف مقامی نیوز ویب سائٹ لوک سجاگ نے اس خفیہ کاروبار کی اندرونی کہانی جاننے کے لیے ٹنڈوالہیار میں مین پڑی کے ایک بڑے بیوپاری سے بات چیت کی۔ اشفاق لغاری کی اس رپورٹ کے مطابق گٹکے کے سابقہ بیوپاری نے معلومات اپنی پہچان ظاہر نہ کرنے کی شرط پر شیئر کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بیس سال اس مضر کاروبار سے وابستہ رہے، لیکن گذشتہ ماہ سے وہ اسے ترک کر چکے ہیں

تحصیل چمبڑ میں اس کاروبار کے مرکزی کردار کا کہنا تھا ”یہ کاروبار قانون نافذ کرنے والوں کی درپردہ مدد بلکہ اجازت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ 2013ء تک وہ ہم سے ماہانہ بھتہ لیتے تھے اور اس کے بعد ہفتہ کے حساب سے“

مختصر جملے بولنے اور بار بار شک کی نگاہ سے ادھر ادھر دیکھنے والے ان سابقہ بیوپاری نے بتایا ”مقامی پریس کلب کے نمائندوں اور صحافیوں کو بھی ہر ہفتہ پیسے دیے جاتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے اس لیے کئی مقامی شخصیات جو سوشل میڈیا پر شہرت رکھتی ہیں، وہ بھی اپنا حصہ لیتی تھیں“

ان کے بقول مارچ میں پولیس نے نہ صرف بھتہ لینا بند کر دیا بلکہ ان پر پرچہ بھی کر دیا۔ وہ اب ضمانت پر ہیں اور یہ بات دھراتے ہیں کہ اب وہ یہ سب کچھ چھوڑ چکے ہیں

ان کے کارخانے میں آٹھ مزدور ، پانچ سو روپے روزانہ اجرت پر کام کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں ”ایک مین پُڑی پر سترہ سے بیس روپے تک لاگت آتی ہے۔ جو کھوکھے والے کو تیس روپے میں بیچی جاتی ہے اور وہ گاہکوں کو چالیس سے پچاس روپے میں بیچتا ہے“

انہوں نے بتایا کہ ان کی پچیس ہزار مین پڑیاں تحصیل چمبڑ کے پان اور سگریٹ کے کھوکھوں پر روزانہ فروخت ہوتی تھیں۔ اور وہ مقامی پولیس، میڈیا اور کچھ خاص اداروں کو آٹھ لاکھ روپے فی ہفتہ تک بھتہ دیتے تھے

ان کے مطابق ”ٹنڈو الہیار میں ایک دن میں کل ساٹھ ہزار سے زیادہ مین پڑیاں فروخت ہوتی تھیں۔ پولیس کو ہفتہ وار بھتہ دے کر کام جاری رکھنے کو ہم ’موکل‘ (اجازت) کہتے ہیں۔ جب لین دین طے ہو جائے تو بھتہ دینے والے کو ایک مقرر مدت تک کاروبار کرنے کی موکل (اجازت) ہوتی ہے“

انہوں نے بتایا ”مین پڑی کی سپاری (چھالیہ) کوئٹہ سے کراچی یا سکھر کے راستے آتی ہے، جو ٹنڈو الہیار شہر میں ایک مرکزی بیوپاری کے کارخانے پر رکھی جاتی ہے۔ پولیس ضلع کے تمام بیوپاریوں کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ وہ سپاری اس سے ہی لیں۔ مرکزی بیوپاری پولیس کو ہفتے کے تیس لاکھ روپے دیتا تھا۔ باقی اداروں اور صحافیوں کو خاموش رکھنے کے لیے اضافی دس لاکھ روپے ہفتہ دیے جاتے تھے۔ پورے سندھ میں پولیس کی طرف سے یہ ہی نظام لاگو ہے۔ یعنی ایک مرکزی بیوپاری مقرر کیا جاتا ہے۔ پولیس ان بیوپاریوں کی حدود مقرر کرتی ہے، جن سے آگے اور پیچھے کوئی نہیں جاتا، اگر جائے تو پکڑا جاتا ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close