یورپی یونین نے 2035 سے پیٹرول اور ڈیزل کی کاروں پر پابندی لگا دی، صرف الیکٹرک گاڑیاں استعمال ہوں گی

ویب ڈیسک

فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں یورپی یونین پارلیمنٹ نے بالآخر منگل 14 فروری کو حتمی قانون سازی کی رکاوٹ کو ختم کرتے ہوئے سن 2035ع تک کاربن خارج کرنے والی تمام نئی پٹرول اور ڈیزل کاروں کی فروخت پر پابندی کی منظوری کے حق میں ووٹ دے دیا ہے، جس کے تحت یورپی بلاک کی سڑکوں پر بارہ سالوں بعد صرف ماحول دوست گاڑیوں کے استعمال کی ہی اجازت ہوگی

اگرچہ کلائمیٹ نیوٹریلیٹی یا ماحولیاتی غیرجانبداری کی جانب سے لیے گئے اس قدم کو سراہا جا رہا ہے، لیکن اس قانون کے یورپ میں گاڑیوں کی صنعت پر اثرات کے بارے میں یورپی پارلیمنٹ میں منقسم رائے پائی جاتی ہے

اس بل کے حامیوں کی دلیل ہے کہ اس سے یورپی کارسازوں کو ایک معقول عرصہ مل جائے گا، جس کے دوران وہ کاروں کو صفر اخراج (زیرو امیشن) والی الیکٹرک گاڑیوں میں تبدیل کر سکیں گے اور چین اور امریکہ کے مقابلے کے لیے سرمایہ کاری کو تحریک دے سکیں گے اور یہ یورپی یونین کے اس منصوبے میں بھی مدد دے گا، جس کا مقصد اس کی معیشت کو 2050ع تک گرین ہاؤس گیسوں کے صفر اخراج کا حامل بنانا ہے

یورپی ایوان نمائندگان کی اکثریت، جس میں سوشل ڈیموکریٹ، ماحول دوست گرینز، اور لبرلز شامل ہیں، نے پہلے پٹرول اور ڈیزل کی توانائی پر چلنے والی گاڑیوں کے مکمل خاتمے کی بات کی تھی۔ لبرل رکن پارلیمنٹ یان ہوئیتیما نے کہا کہ منڈیوں میں بیٹریوں والی یا پھر ہائیڈروجن توانائی پر چلنے والی برقی گاڑیاں حاوی ہونی چاہییں

اس قانون کے متن کے ذمہ دار نمائندہ ہوئیتیما کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہدایت ہے کہ گاڑیوں کی صنعت ابھی سے تنظیم نو اور اور نئے قواعد کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کر لے۔ اس طرح ماحول کا تحفظ کیا جائے گا اور فوسل فیول سپلائی کرنے والوں پر انحصار کم ہوجائے گا

ہوئیتیما کے بقول، ”ہم توقع کر رہے ہیں کہ ماحول دوست گاڑیوں کی قیمت کم ہوتی جائے گی، جو کہ آج بھی پٹرول اور ڈیزل کے مقابلے میں کم ہی ہے، اور ہمیں ایسی گاڑیوں کی زیادہ پیشکش کرنی چاہیے“

دوسری جانب بہت سے کنزرویٹو ایم ای پیز، جن میں بہت ساروں کا جرمنی سے تعلق ہے، جہاں سب سے بڑی کار انڈسٹری موجود ہے، نے تنقید کی کہ یورپی قانون ماحول کو نقصان پہنچانے والے ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں پر مؤثر طریقے سے پابندی تو لگا دے گا، لیکن الیکٹرک گاڑیوں کے متبادل، جیسے مصنوعی اور دیگر شفاف توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار کو ناممکن بنا دے گا

قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹ کے رکن ژینس گیزیکے کے مطابق سیاستدانوں کو انجینئرز کو نہیں بتانا چاہیے کہ گاڑیاں کیسے بنائی جائیں اور ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کیسے ختم کیا جائے۔ ان کے بقول نئی گاڑیاں ضرورت کے مطابق اتنی تعداد میں دستیاب نہیں ہو پائیں گی یا پھر بہت مہنگی ہوجائیں گی

گیزیکے یہ بھی کہتے ہیں کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بحران نے گرین اور سوشلسٹ ارکانِ پارلیمنٹ کا یہ دعویٰ کہ بجلی سے چلنے والی کاریں سستی ہیں، بالکل غلط ثابت کر دیا ہے

یورپی یونین کے کمشنر برائے ماحولیاتی تحفظ فرانز ٹِمر مانز نے اسٹراسبرگ میں یورپی پارلیمنٹ میں کہا کہ دنیا بھر میں کار انڈسٹری کو الیکٹرو موبیلیٹی میں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے

انہوں نے کہا ”صنعتی انقلاب برپا ہو رہا ہے چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ ہم اس میں سب سے آگے رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں، یا پھر ہم صرف ایک طرف کھڑے ہو کر دنیا کے دوسرے خطوں کو اس کی مینوفیکچرنگ کرتے دیکھ سکتے ہیں“

یورپی کار انڈسٹری نے پچھلے تین یا چار سالوں میں الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے بہت کوششیں کی ہیں اور آگے کی حکمت عملی بھی واضح ہے

یورپی یونین کے کمشنر فرانز ٹِمر مانز نے واضح کیا کہ یورپ میں کاروں کی صنعت کو مزید فروغ دینا ہوگا

ٹِمر مانز نے کہا، ”چین سال کے آخر تک الیکٹرک کاروں کے 80 نئے ماڈل متعارف کرائے گا۔ اور یہ اچھی کاریں ہیں۔ ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونا پڑے گا۔ ہم اس اہم صنعت کو غیر ملکیوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔ اس لیے یورپی یونین کو آٹو موٹیو انڈسٹری میں ماہرین کی دوبارہ تربیت اور تعلیم فراہم کرنے میں تیزی لانی چاہیے اور الیکٹرک گاڑیوں کو پہلے سے زیادہ تیزی سے چارج کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے اور مؤثر بنانے میں مدد کرنی چاہیے۔“

لیکن اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ نہ تو یورپی صنعت اور نہ ہی بہت سے نجی کار مالکان، تیل سے چلنے والے انجنوں کی پیداوار میں اس ڈرامائی کمی کے لیے تیار ہیں اور یہ کہ اس اقدام سے ہزاروں لوگوں کی ملازمتیں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی

ناقد ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی صنعت کی تنظیم نو سے ملازمتوں میں کمی آئے گی۔ کار ساز کمپنی فورڈ، جو 2030 تک صرف الیکٹرک کاریں تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ یورپ میں چار ہزار ملازمتیں کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جن میں سے زیادہ تر جرمنی میں ہیں۔ میٹل انڈسٹری یونین نے متنبہ کیا کہ بہت سے سپلائرز اخراجات بچانے کے لیے اپنی پیداوار کو بیرون ملک منتقل کر سکتے ہیں

دوسری جانب ڈیلی ٹرانسپورٹ کمیٹی کے صدر کریما کہتے ہیں کہ یہ رائے شماری ماحولیاتی تبدیلی کے لیے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ 2050 تک ہماری سڑکوں پر پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کاریں تقریباً ختم ہو جائیں گی اور یہ ہمارے کرہ ارض اور ہماری آبادی کے لیے ایک فتح ہے

فی الوقت یورپی یونین میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا پندرہ فی صد کاروں کی وجہ سے ہے، جبکہ ایک چوتھائی ٹرانسپورٹیشن کی وجہ سے

جرمنی میں گاڑیوں کی صنعت سے وابستہ لاکھوں کارکنوں اور قدامت پسند اراکینِ پارلیمنٹ نئے ضابطوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ کاریں بنانے کے پلانٹس میں نئے آلات کی تنصیب اور کارکنوں کی دوبارہ تربیت سے ان کے کاروبار پر دباؤ آئے گا جب کہ دنیا میں ان سے مسابقت رکھنے والوں کو اتنے سخت اہداف کا سامنا نہیں ہے

لیکن یورپ میں کاروں کی صنعت کی جانب سے اس قانون کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کی گئی ہے بلکہ بہت سی کمپنیاں الیکٹرک کارسازی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے پہلے ہی کوششیں شروع کر چکی ہیں

ایسے میں جب یہ قانون یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں زیرِ بحث رہا ہے، امریکہ نے اپنے ہاں اس صنعت کو گرین توانائی کی جانب منتقل کرنے والوں کے لیے وسیع مراعات کے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور یورپ میں یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ یورپ کے حریف امریکہ میں بجلی سے چلنے والی کاروں اور بیٹری بنانے کی صنعت میں سرمایہ کاری اور ملازمتوں میں اضافہ ہو جائے گا

فی الوقت یورپی یونین میں بارہ فیصد کاریں بجلی سے چل رہی ہیں اور لوگوں کا رجحان بھی الیکٹرک کاروں کی جانب ہوتا جا رہا ہے

اسی دوران چین کا ارادہ ہے کہ 2035 تک کاروں کی کم از کم نصف تعداد، الیکٹرک یا چارج کی جا سکنے والی ہائی بریڈ یا ہائیڈروجن سے چلنے والی ہو

یورپی یونین کے نئے قانون کو اسٹراسبرگ کی اسمبلی میں 279 کے مقابلے میں 340 ووٹوں سے منظور کیا گیا، جبکہ 21 ارکان غیر حاضر رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close