اسلام آباد – ’فیصلوں پر تنقید کریں، منصف پر نہیں‘ کہنے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے اس لارجر بینچ کی سربراہی کی، جس نے تین اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر ازخود نوٹس کی سماعت کی
اس رولنگ میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو سازش اور آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا تھا اور اس کے فوری بعد وزیراعظم کی تجویز پر صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی
سپریم کورٹ نے اس رولنگ پر ازخود نوٹس لیا، جس کی سماعت پانچ روز جاری رہی اور عدالت نے جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے دی، اسمبلی بحال کردی اور نو اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا
اس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں کون کون سے ججز شامل تھے، ان کا ذکر اس رپورٹ کے آخر میں کریں گے لیکن اس سے پہلے آخری سماعت میں کیا گیا کچھ ہوا، اس کا جائزہ لیتے ہیں
آخری سماعت کی کہانی
سماعت شروع ہوئی تو صدر مملكت كے علاوہ پاكستان تحریک انصاف، وزیراعظم، اسپیكر و ڈپٹی اسپیكر قومی اسمبلی اور اٹارنی جنرل آف پاكستان نے اپنے اپنے دلائل بینچ كے سامنے ركھے
سب سے طویل بحث اٹارنی جنرل آف پاكستان خالد جاوید خان نے كی، جنہوں نے وزیراعظم كے خلاف عدم اعتماد سے متعلق عددی جنگ كی ایک منفرد تشریح پیش كرنے كی كوشش كی
جج صاحبان نے اٹارنی جنرل سے بیسیوں سوالات كیے، جن كے ذریعے وہ یقیناً صورت حال اور معاملات كی قانونی و دستوری نوعیت سجھنے كی كوشش كر رہے تھے
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے قومی اسمبلی كے ڈپٹی اسپیكر قاسم سوری كی تین اپریل كی رولنگ كو غیر آئینی تو قرار دیا، لیكن قومی اسمبلی كی بحالی كی بجائے عام انتخابات كے آپشن كو بہتر گردانا
شام تین بجے كے بعد سماعت میں وقفے سے كچھ دیر قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے كچھ ایسے ریماركس دیے، جن سے تاثر ملا كہ وہ ڈپٹی اسپیكر كی رولنگ كو تو غلط سمجھتے ہیں لیكن قومی اسمبلی كی بحالی پر قائل نہیں ہیں
یہاں تک كہ ایک موقع پر چیف جسٹس نے وقفے سے پہلے كہہ دیا: ’اب ہم سماعت میں تكنیكی بحث نہیں بلكہ قومی مفاد كی بات كریں گے، كیوں كہ اسمبلی كی بحالی كی صورت میں ایوان كے اندر اور پورے ملک میں ہنگامہ ہو گا۔‘
حتیٰ كہ انہوں نے پاكستان مسلم لیگ كے وكیل مخدوم علی خان كو مخاطب كر كے كہا كہ وقفے كے بعد عام انتخابات پر بات ہوگی
سماعت میں وقفہ ہوا اور كورٹ رومز میں موجود لوگوں نے جیسے یقین كر لیا كہ نظریہ ضرورت آیا كہ آیا۔
اس دوران شاید بینچ میں موجود پانچ ججوں كے علاوہ سپریم كورٹ كی عمارت میں موجود ہر شخص یہ سمجھنے لگا تھا كہ از خود نوٹس كا نتیجہ ملا جلا ہوگا اور عدالت ڈپٹی اسپیكر كی رولنگ كو كالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابات كروانے كا حكم صادر كرے گی
یہاں تک كہ پاكستان پیپلز پارٹی كے وكیل فاروق ایچ نائک نے وقفے كے دوران میڈیا سے گفتگو میں بھی قومی اسمبلی كی بحالی كے امكانات كو كم سے كم قرار دیتے ہوئے كہا كہ عدالت انتخابات كا آپشن اپنانے والی ہے
وقفے كے بعد اٹارنی جنرل نے اپنی بحث مكمل كی اور عدالت نے مخدوم علی خان كو انتخابات كروانے سے متعلق دلائل دینے كی دعوت دی، جن كے مكمل ہونے پر عدالت نے سماعت كے آخر میں درخواست گزاروں بشمول میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری كو براہ راست عدالت كے سامنے بولنے كا موقع دیا
عام طور پر درخواست گزار اپنے وكلا كے ذریعے عدالت میں پیش ہوتے ہیں لیکن از خود نوٹس كی سماعت كرنے والے بینچ نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا
شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے سوال جواب كے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے سیاسی رہنماؤں كو انتخابات كے آپشن كے حق میں قائل كرنے كی كوشش كرتے نظر آئے
سماعت ختم كرنے سے قبل چیف جسٹس نے چیف الیكشن كمیشنر كو طلب كرنے كے علاوہ انتخابی اصلاحات سے متعلق حزب اختلاف كی سفارشات كا مسودہ بھی پیش كرنے كا حكم صادر كیا
ان احكامات نے ملے جلے فیصلے كے امكان پر تو گویا مہر ہی ثبت كر دی اور اس متعلق یقین كا گراف غیر معمولی بلندیوں كو چھونے لگا
چیف جسٹس نے شام تقریباً پونے چار بجے سماعت میں دوسرے وقفے كا اعلان كرتے ہوئے كہا كہ فیصلہ افطار كے بعد ساڑھے سات بجے سنایا جائے گا
دوسرے وقفے كے دوران بھی سپریم كورٹ حتیٰ كہ سوشل میڈیا پر بھی بحث مباحثہ كرنے والوں نے یقین كرلیا كہ قومی اسمبلی بحال نہیں ہوگی یعنی ’ملا جلا‘ فیصلہ
ساڑھے سات بجے شروع ہونے والی سماعت كا آغاز آٹھ بج کر پچیس منٹ پر ہوا، جس كے شروع میں ہی چیف جسٹس نے چیف الیكشن كمشنر سكندر سلطان راجا كو روسٹرم پر طلب كركے عام انتخابات كے انعقاد سے متعلق سوالات كیے
پھر تقریبا ساڑھے آٹھ بجے وہ ہونا شروع ہوا، جس كی توقع پورے دن كسی نے نہیں كی تھی یعنی چیف جسٹس نے بینچ كا فیصلہ پڑھتے ہوئے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیكر كی تین اپریل كی رولنگ اور اس كے نتیجے میں ہونے والے تمام اقدامات كو كالعدم قرار دے دیا
صرف یہ ہی نہیں بلكہ فیصلہ متفقہ تھا یعنی پانچ میں سے كسی جج كی طرف سے مخالفت نہیں ہوئی
شاید چند سیكنڈ تک تو صبح سے ’ملے جلے‘ فیصلے كی توقع كرنے والے گویا گنگ ہو كر رہ گئے، اپنے موبائل فونز پر تیزی سے انگلیاں چلاتے صحافی بھی حیران نظر آئے
اس وقت كچھ لوگ سپریم كورٹ كے پانچ ركنی بینچ كی حکمت عملی سے متعلق ضرور سوچ رہے تھے، جج صاحبان نے پہلے ملے جلے فیصلے اور انتخابات كروانے كا تاثر دیا اور جب فیصلہ آیا تو وہ اس تاثر کے بالکل برعکس تھا
لارجر بنچ میں شامل ججز
اس لارجر بنچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سابق صدر پرویز مشرف کے 2007ع میں دوسرے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف لینے سے انکار کرنے والے ججوں میں سے ایک ہیں
چیف جسٹس عمر عطا بندیال 2019 میں قاسم سوری کے انتخاب کو کالعدم قرار دیے جانے سے متعلق الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں
اسی تین رکنی بینچ نے قاسم سوری کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکم جاری کیا تھا کہ جب تک الیکشن ٹریبونل کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا، اس وقت تک متعلقہ حلقے میں ضمنی انتخاب نہ کروائیں
اس کے بعد قاسم سوری رکن اسمبلی کے ساتھ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر بھی برقرار رہے
جسٹس عمر عطا بندیال 2019 میں وزیراعظم عمران خان کو ’صادق اور امین‘ قرار دینے سے متعلق فیصلہ دینے والے بینچ میں بھی شامل تھے، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کےسربراہ بھی رہ چکے ہیں
تحریک عدم اعتماد کیس کے لارجز بینچ کے تیسرے جج جسٹس اعجاز الحسن ہیں.
2016ع میں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہونے والے جسٹس اعجاز الاحسن نے کئی اہم کیسوں کی سماعت کی، جن میں پاناما پیپرز کا کیس بھی شامل ہے
جسٹس اعجاز الاحسن سماعت کرنے والے بینچ کے رکن تھے جس نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا گیا۔ انہیں اور ان کے بچوں کے حوالے سے نیب میں ریفرنس دائر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے
حالیہ کیس میں ’اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے؟‘ جیسے ریمارکس دینے والے جسٹس اعجاز الاحسن سینیٹ اوپن بیلٹ کیس کے پانچ رکنی بینچ کا حصہ بھی رہے، جس نے انتخابات سیکریٹ بیلٹ پر ہی رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا
تحریک عدم اعتماد کیس کے لارجز بینچ کے تیسرے جج جسٹس مظہر عالم ہیں، جو 2016 میں پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ کا حصہ رہے، جس میں سابق فوجی صدر کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
اسی عدالت نے ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ کیس اپنی نوعیت کا تاریخ کا پہلا ایسا کیس تھا جس میں آرٹیکل چھ کے تحت ایک فوجی آمر کے خلاف کارروائی کی گئی اور اسے اشتہاری قرار دیا گیا
جسٹس مظہر عالم دس رکنی لارجر بینچ کے ان چھ ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2021 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست منظور کی
اسی بینچ کے ایک اور جج جسٹس منیب اختر بھی ہیں۔ اس کیس کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا آیا، جب جسٹس منیب اختر نے دوسرے فاضل جج کی ’بات میں مداخلت نہ کریں، یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی، دوسرے کا موقف بھی سننا چاہیے‘ کے ریمارکس دیے
جسٹس منیب اختر 2018 میں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے تھے
اس بنچ میں شامل ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل 2021ع میں سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات ہوئے تھے
یہ سات سال میں پہلی ایسی تعیناتی تھی، جس میں بلوچستان ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں کسی جج کو تعینات کرنے کی سفارش کی گئی
جسٹس جمال خان مندوخیل بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کا حصہ تھے
آئینی بحران کے دوران سپریم کورٹ کی مداخلت کی مختصر تاریخ
سپریم کورٹ نے ملک کی پچھتر سالہ تاریخ میں آئینی بحران کے دوران متعدد بار مداخلت کی ہے
ایسے واقعات ہوئے ہیں، جب عدالتوں کو انتہائی متنازع ایگزیکٹو اقدامات بشمول آئین کی تنسیخ یا معطلی پر اپنی مہر لگانے کے لیے بھی استعمال کیا گیا، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسا بھی ہوا کہ ججوں نے ایگزیکٹو کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا
عدلیہ اور انتظامی تعلقات کی سمت کا تعین فیڈریشن آف پاکستان بمقابلہ مولوی تمیز الدین کیس میں 1955 میں وفاقی عدالت(موجودہ سپریم کورٹ) کے فیصلے میں طے کی گئی تھی
1954ع میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی آئین ساز اسمبلی کو برطرف کر دیا تھا اور اس برطرفی کو اس وقت کے صدر مولوی تمیز الدین نے چیف کورٹ موجودہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا
چیف کورٹ نے اسمبلی کی برطرفی کو کالعدم قرار دے دیا تھا، تاہم جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں وفاقی عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر چیف کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا
عدلیہ کا دوسرا امتحان اس وقت آیا، جب عدالت عظمیٰ کو 1958ع کی مارشل لا حکومت میں ریاست بمقابلہ ڈوسو اور دیگر کی قانونی حیثیت پر فیصلہ سنانے کے لیے کہا گیا
جسٹس منیر کی زیر سربراہی کام کرنے والی عدالت نے ہانس کیلسن کے نظریہ ضرورت سے متاثر ہو کر کہا ”ایک کامیاب انقلاب یا بغاوت آئین کو تبدیل کرنے کا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ طریقہ ہے۔“
لہٰذا جنرل ایوب کی جانب سے جاری کردہ قوانین (Continuation in Force) آرڈر 1958 کے تحت نئی قانونی حکومت تشکیل کی دی گئی، جس سے عدالتوں سمیت تمام قانونی اداروں نے اپنی درستگی کا قانونی جواز حاصل کیا
عدالت کے اس فیصلے کو مستقبل میں فوجی مہم جوئی کے لیے ایک دعوت تصور کیا گیا
1972ع میں عاصمہ جیلانی بمقابلہ پنجاب حکومت کے درمیان ڈوسو کیس کا فیصلہ خود سپریم کورٹ کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں آیا، جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کو غیرآئینی اور ناقابل توثیق قرار دیا تھا
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ مارشل لا کا اعلان کس اختیار کے تحت کیا جا سکتا ہے، اس کی تعریف کرنا مشکل ہے. فوجی بغاوت یا کسی فوجی حکمران کی قانونی حکومت بذات خود جائز نہیں اور اس کے بجائے اس نے قانونی حیثیت صرف اس وقت حاصل کی، جب عدالتوں نے انہیں قانونی طور پر تسلیم کیا
اس فیصلے سے یہ امید پیدا ہوئی کہ مستقبل میں عدلیہ ایگزیکٹو کے غیرآئینی اقدامات پر اپنی مہر ثبت نہیں کرے گی
تاہم یہ امید بھی زیاد عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ بیگم نصرت بھٹو بمقابلہ چیف آف آرمی اسٹاف اور فیڈریشن آف پاکستان مقدمے میں سپریم کورٹ نے 1977 میں ایک بار پھر فوجی بغاوت کا اعلان کیا، جو اس بار جنرل ضیاءالحق نے کی اور ریاستی ضرورت اور عوام کی فلاح و بہبود کی بنیاد پر اسے جائز قرار دیا گیا
1989ع کے حاجی سیف اللہ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کیس میں سپریم کورٹ نے 1987 میں اسمبلی کی تحلیل اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو ہٹانے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تاہم چونکہ فیصلہ سنائے جانے تک ایک نئی حکومت منتخب ہو چکی تھی، اس لیے عدالت نے تحلیل شدہ اسمبلی کو بحال نہیں کیا
سپریم کورٹ نے 1990 اور 1996 میں آئین کے آرٹیکل 58 (2بی) کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل اور اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی معزولی کو برقرار رکھا
لیکن 1993ع میں سپریم کورٹ نے تحلیل کے حکم کو ختم کرتے ہوئے نواز شریف کو بحال کر دیا تھا
جنرل مشرف کے اقتدار میں آنے کا سبب بننے والی 1999ع کی بغاوت میں بھی عدلیہ نے بھی ایک بار پھر نظریہ ضرورت اپنایا ، بغاوت کی توثیق کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ پر بیٹھے ججوں میں سے ایک جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے، جو بعد میں پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے
3 نومبر 2007ع کو مشرف نے پاکستان میں ایمرجنسی کا اعلان کیا اور آئین کو معطل کر دیا تاہم پاکستان کی جرات مندانہ عدالتی فیصلوں میں سے ایک میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے دو صفحات پر مشتمل متفقہ حکم نامہ جاری کیا، بنچ کی سربراہی جسٹس افتخار محمد چوہدری کر رہے تھے
یہ فیصلہ سنانے والے ججوں کو اعلیٰ عدلیہ کے پچاس سے زائد دیگر ارکان کے ساتھ پرویز مشرف نے معزول کر کے عارضی آئینی حکم (پی سی او) نافذ کر دیا تھا
چند روز بعد 24 نومبر کو نو تشکیل شدہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے ایمرجنسی کے نفاذ اور پی سی او کے نفاذ کو درست قرار دیا تھا، بینچ کی سربراہی چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے کی
31 جولائی 2009 کو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 279 کے تحت پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کو اٹھائے گئے اقدامات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا.