وزیر اعظم کو یہ بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ”حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا“

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – اتوار کی شام وزیر اعظم عمران خان نے ایک طویل عرصے بعد عوام سے رابطے کے لیے ٹیلیفون پر سوالات لیے لیکن اس میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں انھوں نے سخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ اگر وہ سڑکوں پر نکل آئے تو وہ ‘زیادہ خطرناک’ ہو جائیں گے

تاہم وزیر اعظم نے اس تقریر میں مسلسل ‘آپ لوگوں’ کو مخاطب کیا جس سے بظاہر تو لگا کہ وہ حزب اختلاف کے بارے میں بات کر رہے ہیں تاہم مختلف حلقوں میں اس بارے میں گفتگو شروع ہو گئی کہ ان کا یہ بیان کسی اور کے بارے میں اشارہ تو نہیں کر رہا

اپنی تقریر میں وزیراعظم کا کہنا تھا ‘ابھی تک تو میں چپ کر کے دفتر میں بیٹھا ہوتا ہوں، یا تماشے دیکھ رہا ہوتا ہوں، میں اگر سڑکوں پر نکل آیا تو آپ لوگوں کے لیے چھپنے کی جگہ نہیں ہوگی، کیونکہ لوگ آپ کو پہچان چکے ہیں۔ اور جو آپ نے اس ملک کے ساتھ تیس سالوں میں کیا ہے، جو لوگوں میں لاوا پک رہا ہے آپ کے خلاف، لوگوں کو صرف آپ کی طرف دکھانا ہے، اور پھر کوئی لندن بھاگ رہا ہوگا۔’

دوسری جانب اپوزیشن نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اگر یہ بیان ان کے بارے میں ہے تو وزیر اعظم نے اپنی ترجمانوں کی فوج بھی رکھی ہوئی ہے، روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا بھی ان کے کنٹرول میں ہے جہاں وہ اپوزیشن پر تنقید کرتے ہیں، کونسی حسرت ہے جو پوری نہیں کی ہے انہوں نے جو اب سڑکوں پر آنا چاہ رہے ہیں

عمران خان سے عوام کے سوالات اور جوابات کا پروگرام ایسے وقت میں ہوا ہے جب حزبِ اختلاف پارلیمان میں ان ہاؤس چینج اور لانگ مارچ کی تیاریوں کا عندیہ دے رہی ہے

پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم رہنما، سینیٹر فیصل جاوید خان سے جب وزیر اعظم کی تقریر کے حوالے سے سوال کیا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ‘اپوزیشن کا مسلسل کہنا ہے کہ حکومت آج جا رہی ہے، کل جا رہی ہے، لانگ مارچ کریں گے، تو عمران خان نے کہا کہ شوق پورا کر لیں۔’

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ عمران خان نے ماضی میں بھی ایسی بات کی تھی جو اس تقریر میں بھی کہا کہ انہیں حکومت کا لالچ نہیں ہے۔

سیاسی ماحول میں گرمی اور ایسے وقت میں اس بیان کے بارے میں سوال پر فیصل جاوید نے کہا کہ اگر کوئی یہ پوچھتا ہے کہ ایسے وقت میں عمران خان نے یہ کیوں کہا، تو وہ اس خدشے سے اتفاق نہیں کرتے

‘عمران خان نے جو کہا وہ اپوزیشن کے دعوؤں کا جواب ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کے جانے کے حوالے سے کی جانے والی باتیں محض مفروضہ ہیں اور ایسا کچھ نہیں ہوگا، اور ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ عمران خان کا بیان کسی کے لیے کوئی اشارہ نہیں تھا، وہ صرف اپوزیشن کو مخاطب کر رہے تھے۔’

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ بالفرض ایسی کوئی بات ہوتی ہے کہ حکومت چلی جائے تو عمران خان بائیس سال سے اپوزیشن کرتے چلے آئے ہیں اور انہیں ایسا کرنا بہت اچھی طرح آتا ہے

انہوں نے کہا ‘میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ بڑی تحریک چلائی ہے، ان کے پاس ذوالفقار علی بھٹو سے بڑی حمایت ہے۔ پی ٹی آئی وفاق کی جماعت ہے۔’

فیصل جاوید خان نے کہا کہ نہ صرف ان کی جماعت موجودہ اقتدار مکمل کرے گی بلکہ اکتوبر 2023ع میں ہونے والے اگلے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کرے گی

‘اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان نے ہر محاذ پر جنگ شروع کر دی ہے اور یہ ایک عدم تحفظ کے شکار انسان کی نشانی ہے۔ حکمرانی نام ہے دوسروں کو تحفظ دینے کا، لیکن اگر ایک شخص اتنا عدم تحفظ کا شکار ہے تو اس کا بوجھ کون اٹھائے گا؟’

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ کے سینئیر رہنما پرویز رشید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ سڑکوں پر آ کر زندگی خراب کر دیں گے لیکن اگر وہ حکومت میں ہیں تو زندگی خراب کرنے کے لیے سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہی کیا ہے

‘اگر وہ اپوزیشن کے لیے پیغام دے رہے ہیں تو وہ اپنی حکومت میں ان کے لیے زندگی مشکل بنا سکتے ہیں اور جو کہ انھوں نے کیا ہے۔ وہ ان کو برا بھلا بھی کہتے ہیں اور اپنی ترجمانوں کی فوج بھی رکھی ہوئی ہے۔ روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا بھی ان کے کنٹرول میں ہے جہاں وہ اپوزیشن پر تنقید کرتے ہیں۔ کونسی حسرت ہے جو پوری نہیں کی ہے انھوں نے جو اب سڑکوں پر آنا چاہ رہے ہیں۔ ہم نے تو عمران خان کو سڑکوں پر بھی بھگت لیا ہے اور ایوان میں بھی۔’

پرویز رشید نے اس تقریر پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم کس کے لیے یہ باتیں کہہ رہے ہیں؟

‘انہوں نے یہ کسی ایسے کے لیے پیغام دیا ہے جس نے نہ انھیں سڑکوں پر بھگتا ہے نہ ایوان میں۔ ہمیں تو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ پریشانی اُن کو ہونی چاہیے جن کے لیے یہ پیغام ہے اور انھیں سوچنا چاہیے۔’

عوام سے کی جانے والی گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ سوالات کے جواب پارلیمان میں دینا چاہتے ہیں لیکن انھیں حزبِ اختلاف کی جانب سے بولنے نہیں دیا جاتا۔

اس بارے میں جب پرویز رشید سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پہلے دن سے پارلیمان کو ناکارہ ادارہ سمجھا ہوا ہے جہاں ان کے خیال میں ‘چور اچکے آتے ہیں۔’

مسلم لیگی رہنما نے کہا کہ اس تقریر سے لگتا ہے کہ وہ میڈیا سے بھی ناراض ہیں اور نہ ہی انھیں عدالتوں پر بھروسہ ہے جبکہ دوسری جانب ان کی اپنی جماعت کے لوگ ان سے خفا ہیں اور حکومت کے اپنے اتحادی عمران خان پر اعتماد نہیں کرتے

‘اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان نے ہر محاذ پر جنگ شروع کر دی ہے اور یہ ایک عدم تحفظ کے شکار انسان کی نشانی ہے۔ حکمرانی نام ہے دوسروں کو تحفظ دینے کا، لیکن اگر ایک شخص اتنا عدم تحفظ کا شکار ہے تو اس کا بوجھ کون اٹھائے گا؟’

‘تجزیہ کار رضا رومی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی اتوار کی گفتگو سے دو چیزیں واضح ہوتی ہیں جس میں ایک یہ کہ وہ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی وہی باتیں کرتے ہیں جو وہ بطور اپوزیشن کر رہے تھے جبکہ دوسرا یہ کہ انھوں نے بہت اہم پیغام دیا کہ اگر انھیں نکالا گیا تو وہ زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔‘

رضا رومی کے مطابق ‘بظاہر انہوں نے یہ پیغام اپوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے دیا جن کو وہ چور ڈاکو کہتے ہیں لیکن درحقیقت یہ پیغام ان مقتدر قوتوں کی طرف ہے جو حکومت بناتی یا گراتی ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تقریر واضح طور پر پریشانی کی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے جہاں یوں لگ رہا ہے کہ شاید انھیں علم ہو گیا ہے کہ اپوزیشن اکھٹی ہو کر انھیں اقتدار سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور شاید انھیں ‘گرین سگنل’ بھی حاصل ہو گیا ہے

‘بحیثیت وزیر اعظم ذمہ دارانہ گفتگو کی جاتی ہے، سوچ سمجھ کر باتیں کی جاتی ہیں۔ یہ پیغام یقیناً واضح انداز میں کہتا ہے کہ میں (عمران خان) چپ کر کے نہیں بیٹھوں گا۔ اگر مجھے نکالا گیا تو میں بہت سی باتیں پبلک میں لے آؤں گا۔ یقیناً ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔’

رضا رومی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا اور یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک افسوسناک حصہ ہے کہ جب وزرا اعظم اپنی مقبولیت میں کمی اور عوامی بے چینی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی توجہ مقتدر حلقوں کی جانب کر دیتے ہیں۔

‘عمران خان اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ ان کی مقبولیت کا گراف نیچے گیا ہے اور عام پاکستانی اپنے مستقبل کے لیے پریشان ہے، جس میں اس حکومت کی ناتجربہ کاری اور عمران خان کے وزرا کی نااہلی وجوہات میں شامل ہے۔’

رضا رومی کا کہنا تھا کہ عوامی مشکلات اور گرتی ہوئی کارکردگی کو نظر انداز کرنا سیاسی حکمت عملی ہوتی ہے تاکہ اگر حکومتوں کو اقتدار سے نکالا جائے تو یہ کہا جا سکے کہ ‘ہمیں مقتدر حلقوں نے نکالا تھا۔’

سینئیر تجزیہ کار سہیل وڑائچ سے جب اسی تقریر کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چاہے کوئی بھی افواہ ہو، ہمارے وزیر اعظم اس پر تبصرہ کر دیتے ہیں جو کہ نہیں کرنا چاہیے۔

انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ عام طور پر سیاسی رہنما اس طرح کی افواہوں اور سرگوشیوں پر توجہ نہیں دیتے مگر اب ان کے بیان سے ان سرگوشیوں کو تقویت ملے گی۔

دوسری جانب صحافی اور تجزیہ نگار عارفہ نور کا کہنا ہے کہ عمران خان نے حالیہ دنوں ایک اجلاس میں اپنی حکومت کے خلاف کی جانے والی مبینہ سازشوں پر بات بھی کی تھی اور شاید یہ بیانات اس وجہ سے بھی دیے جا رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ان تک بھی یہ سرگوشیاں پہنچتی ہوں

جبکہ عارفہ نور کی رائے میں عمران خان کے اقتدار کے خاتمے سے متعلق ابھی پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے بھی ایک اعتماد نظر آتا ہے ‘تاہم پھر بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اس سے کوئی نتیجہ بھی نکلے گا۔’

پاکستانی صحافی عنبر رحیم شمسی نے وزیراعظم کے انتباہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس کا صرف مطلب یہ نظر آتا ہے کہ وہ (وزیراعظم) دباؤ محسوس کر رہے ہیں ورنہ لوگوں کو کیوں یاد دلاتے کہ وہ کیسے ردعمل کا اظہار کریں گے۔‘

وزیراعظم عمران خان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستانی میڈیا میں اپوزیشن جماعتوں اور اسٹبلیشمنٹ کے درمیان کسی متوقع ڈیل پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں

پاکستان میں نیویارک ٹائمز کے صحافی سلمان مسعود نے وزیراعظم خان کے انتباہ کو ان کے ناقدین کے لیے ایک پیغام قراد دیا

صحافی فخر درانی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’خان نے یہ دھمکی آپ کے خیال میں کسی سیاسی لیڈر کو دی ہے یا کسی اور کو؟‘

وزیراعظم عمران خان کے جارحانہ انداز نے مشرف زیدی کو پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں کی یاد دلادی جب وزیراعظم بحیثیت اپوزیشن لیڈر کنٹینر پر کھڑے ہوکر تقاریر کیا کرتے تھے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’کنٹینر سرکار کو کنیٹنر کی یاد ستائے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close