اسلام آباد ہائیکورٹ:’دھمکی آمیز‘ خط کی تحقیقات سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار

ویب ڈیسک

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ ’دھمکی آمیز‘ خط کی تحقیقات کے حوالے سےدائر کی گئی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے درخواست گزار پر جرمانہ عائد کردیا

درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کی

اسلام آباد ہائی کورٹ میں مبینہ امریکی ’دھمکی آمیز‘ خط کی تحقیقات کے معاملے اور عمران خان ،فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی سمیت دیگر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔

دوران سماعت درخواستگزار مولوی اقبال حیدر بھی عدالت میں پیش ہوئے

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اپوزیشن جماعتوں نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی، وزیراعظم 27 مارچ تک اس معاملے پر خاموش رہے، بعدازاں انہوں نے کہا کہ انہیں دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے

دوران سماعت عدالت نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے آپ اسے کیوں سیاسی کرنا چاہتے ہیں یہ خط نہیں کیبل تھا، خط اور کیبل میں فرق ہوتا ہے

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اخبارات، میڈیا میں ہر جگہ اسے خط لکھا جا رہا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے دوبارہ استفسار کیا کہ یہ ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے آپ اسے کیوں سیاسی کرنا چاہتے ہیں؟

عدالتی استفسار پر درخواستگزار کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا اس پر بطور شہری رنجیدہ ہوں، اس معاملے میں امریکا کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے

درخواست گزار مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ اس سے پہلے پرویز مشرف نے بھی آئین شکنی کی تھی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان منتخب وزیراعظم تھے پلیز ان کا موازنہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ موازنہ نہ کریں۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سیکریٹری داخلہ عمران خان کی حکومت گرانے سے متعلق مبینہ دھمکی آمیز خط کی تحقیقات کرائیں،وفاق کی ذمہ داری تھی کہ وہ معاملے کی تحقیقات کراتے، وفاق کو معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر جانا چاہیے تھا

درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے نام بھی ای سی ایل میں شامل کیے جائیں

انہوں نے کہا کہ متعلقہ افراد کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے شکایت ٹرائل کورٹ کو بھجوانے کا حکم دیا جائے اور معاملے کی تحقیقات سیکریٹری داخلہ و دفاع کے ذریعے کروائی جائے

عدالت نے مبینہ امریکی خط کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا تاہم بعدازاں محفوظ کردہ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ سابق منتخب وزیر اعظم کے خلاف لگائے گئے الزامات اور دعوے ناقابل بحث ہیں۔

تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ یہ کیبل پاکستان کے ایک سفارت کار کی جانب سے وزیر اعظم کو بھیجا گیا لہذا متنازعہ اور موضوع قانونی چارہ جوئی عوامی اور ملکی مفادات کے خلاف ہے

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ ملک کے خارجہ امور سے متعلق معاملات انتہائی حساس ہوتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت غیر معمولی دائرہ اختیار استعمال کر کے سماعت نہیں کی جا سکتی

ان کا مزید کہنا تھا کہ پٹیشن میں دعویٰ مبہم ہے اس کی تائید میں دستاویز بھی پیش نہیں کی گئی کہ سفارتی کیبل کے موضوع پر کیس کا جواز پیش کیا جا سکے

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز خط: فواد چوہدری کی وزارت قانون کا اضافی چارج سنبھالتے ہی کمیشن بنانے کی ہدایت

عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ پٹیشنر متعلقہ ممالک کے پاکستانی سفارتکاروں کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی کیبل کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں سفارتی کیبلز بہت اہمیت کی حامل ہیں اور ان تک رسائی محدود ہوتی ہے

ان کا کہنا تھا کہ بطور شہری ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ قومی سلامتی کے حساس معاملات کو سنسنی خیز یا سیاسی نہ بنایا جائے

تحریری فیصلے میں عدالت کی جانب سے درخواست گزار پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے

دھمکی آمیز خط کا معاملہ کیا ہے؟
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے

انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں

ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں

تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا

حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا

البتہ گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا تھا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں خط کیوں نہیں دیا جارہا، کچھ راز قومی نوعیت کے ہوتے ہیں، وزیر اعظم نے مجھے کہا ہے کہ اگر کسی کو کوئی شک ہے تو ہم یہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دکھانے کے لیے تیار ہیں، ان پر سب اعتماد کرتے ہیں

ان کا کہنا تھا مجھے اجازت نہیں ہے کہ اس خط میں لکھے ہوئے الفاظ بتاسکوں لیکن کلیدی باتیں دہرا دیتا ہوں کہ اس مراسلے کی تاریخ عدم اعتماد تحریک پیش ہونے سے قبل کی ہے، یہ اہم اس لیے ہے کہ اس مراسلے میں براہِ راست تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے

اسد عمر نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ خط میں دو ٹوک الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوتی اور عمران خان وزیر اعظم رہتے ہیں تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے

اسد عمر نے کہا تھا کہ قانونی بندشوں کے سبب یہ مراسلہ صرف اعلیٰ ترین فوجی قیادت اور کابینہ کے کچھ اراکین کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، اس لیے وزیر اعظم نے یہ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے لیے کہا ہے

وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا کہ اس مراسلے میں براہِ راست پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذکر ہورہا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ مراسلے میں پیغام دیا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک اور بیرونی ہاتھ آپس میں جڑے ہوئے ہیں

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مراسلے میں نواز شریف ملوث ہیں جو لندن میں بیٹھ کر ملاقاتیں کر رہے ہیں، نواز شریف کس کس سے ملتے رہے، وزیراعظم جب چاہیں گے اس کی تفصیل بتا دیں گے، پی ڈی ایم کی سینئر لیڈر شپ اس بات سے لاعلم نہیں ہے

اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے لندن میں بہت ساری ملاقاتیں کی ہیں اور وہ ملاقاتیں رپورٹ بھی ہوئی ہیں کہ جس میں ان کی اسرائیلی سفارت کار سے بھی ملاقات ہوئی ہے، پھر اس کے بعد ہمیں یہ خط موصول ہوا ہے جس میں تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے جبکہ یہ خط تحریک عدم اعتماد جمع کرانے سے پہلے کا ہے اور یہ ہی بات قابل تشویش ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close