این ایس سی اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں، مداخلت کا ذکر ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

ویب ڈیسک

اسلام آباد – پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ریٹائڑد ملٹری افسران کی فیک آڈیوز چلا کر ملک میں انتشار پھیلایا جا رہا ہے

جمعرات کو پریس بریفنگ سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے، یہ مہم نہ پہلے کامیاب ہوئی اور نہ آئندہ ہونے دیں گے

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ افواہوں کی بنیاد پر کردار کشی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے

پریس بریفنگ کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں بحث کے نکات پر بات نہیں کر سکتا، لیکن میرا خیال ہے کہ اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے، پاکستان کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے

تاہم ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ اعلامیے میں اندرونی معاملات میں مداخلت کا ذکر ہے اور غیر سفارتی زبان استعمال ہوئی ہے

مراسلے سے متعلق امریکی سفارتکار کو بلا کر ’ڈی مارش‘ دینے کے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ڈی مارش دیے جاتے ہیں۔ ڈی مارش صرف سازش پر تو نہیں دیے جاتے۔ ڈی مارش کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جس طرح اس اعلامیے میں لکھا ہوا ہے کہ غیرسفارتی زبان استعمال کی گئی ہے

انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکورٹی کونسل کے اس اعلامیے میں لکھا ہوا ہے کہ جو بات چیت کی گئی ہے، وہ مداخلت کے مترادف ہے۔ تو اس کے اوپر ڈی مارش دیا جاتا ہے، یہ سفارتی طریقہ ہے اور یہی وہ الفاظ ہیں جن کے اوپر اتفاق کیا گیا اور اس کے مطابق ڈی مارش دیا

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں عسکری قیادت کا مؤقف بھرپور طریقے سے دے دیا گیا تھا اور اس کے بعد اس اجلاس کا ایک اعلامیہ جاری ہوا، اجلاس میں کیا بات ہوئی میں وہ ڈسکس نہیں کر سکتا کیونکہ وہ رازداری کی بات ہے، اس اجلاس کے اعلامیے کو اگر دیکھیں تو جو کچھ اس اجلاس میں طے ہوا وہ اس اعلامیے میں موجود ہے

ان کا کہنا تھا کہ ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں دن رات ایسی دھمکیوں اور سازشوں کے خلاف چوکنا ہیں اور اس کے خلاف کام کر رہی ہیں، اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے، اگر کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کی آنکھ نکال دی جائے گی

وزیراعظم شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طبیعت ناساز ہونے کہ وجہ سے آرمی چیف نے شرکت نہیں کی تھی اور اس دن وہ دفتر بھی نہیں آئے تھے

سابق وزیراعظم عمران خان کے سامنے تین آپشنز رکھے جانے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں رکھے گئے تھے، وزیر اعظم آفس کی طرف سے چیف آف آرمی اسٹاف کو اپروچ کیا گیا تھا کہ اس ڈیڈ لاک میں کچھ بچاؤ کی بات کریں

انہوں نے کہا کہ ’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری سیاسی قیادت بات چیت کے لیے تیار نہیں تھی، لہٰذا آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیر اعظم آفس گئے جہاں تین منظرناموں پر بات کی گئی، پہلا یہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی آگے بڑھنی چاہیے، دوسرا وزیر اعظم کا استعفیٰ تھا جبکہ تیسرا آپشن یہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے اور اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں‘

ان کا کہناتھا کہ ہم تیسرے آپشن کو اس وقت کی اپوزیشن پی ڈی ایم کے پاس گئے، ان کے سامنے یہ گزارش رکھی اور اس پر سیر حاصل بحث کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کا کوئی قدم اب نہیں اٹھائیں گے اور اپنے منصوبے پر عمل کریں گے لیکن کوئی آپشن اسٹیبلشمنت کی طرف دیا گیا اور نہ رکھا گیا

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ نہ تو مدت میں توسیع طلب کر رہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے، آرمی چیف اپنی مدت پوری کر کے رواں سال 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے

’پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں ہی ہے اور کبھی بھی مارشل لا نہیں لگے گا۔‘

سیاسی جماعتوں کی جانب سے آرمی چیف پر تنقید سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘آرمی چیف ایک ادارے کے سربراہ ہیں اور اگر ادارے کے سربراہ پر بات کی جا رہی ہے تو حکومت وقت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقدامات اٹھائیں۔ ہماری تو زبان نہیں ہے اور نہ ہم کسی ٹی وی چینل ہر جا کر ترکی بہ ترکی جواب دے سکتے ہیں۔‘

ایک اور سوال کے جواب میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ نیوٹرل لفظ شاید صحیح طریقے سے فوج اور اداروں کے موقف کی وضاحت نہیں کرتا، ہمارا آئینی اور قانونی کردار کسی قسم کی سیاسی وابستگی یا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، پچھلے 74سال میں تمام سیاسی جماعتوں کا فوج سے ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اب ہم نے اس کو عملی جامع پہنایا

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سیاسی قیادت سے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں، میں کبھی کسی کے پاس نہیں گیا تو مجھ سے کیوں آپ بار بار ملنے آتے ہیں، اس سے پہلے گلگت بلتستان پر ایک اجلاس میں بھی تمام سیاسی قیادت کی موجودگی میں یہ بات ہوئی تھی اور کسی نے کہا تھا کہ آپ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں تو آرمی چیف نے کہا تھا کہ ہم سیاست سے بالکل دور ہیں، آپ ہمیں اس میں مزید مت گھسیٹیں

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، پچھلے ضمنی انتخاب میں کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ فوج کی طرف سے مداخلت کی گئی، بلدیاتی انتخابات میں کسی نے کوئی الزام نہیں لگایا، پہلے لوگ کہتے تھے کہ کال آتی تھیں یا فون آتے تھے، آج کوئی کہہ رہا ہے، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے اور آگے بھی ایسے ہی رہے گا

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے دورہ روس سے قبل اعتماد میں لیا تھا، وہ جب روس گئے تھے تو ادارہ جاتی رائے مانگی گئی تھی اور فوج اس معاملے میں ان کے ساتھ تھی کہ جانا چاہیے، اس دن کسی کے خام وخیال میں نہیں تھا کہ جس دن وزیراعظم وہاں ہوں گے، وہ اسی دن جنگ کا آغاز کردیں گے جو بہت شرمندگی کا باعث تھا

انہوں نے مزید کہا کہ ’فوج یونٹی آف کمانڈ کے تحت چلتی ہے، جس سمت میں آرمی چیف دیکھتا ہے، اسی طرف سات لاکھ فوجی بھی دیکھتے ہیں۔ فوج کے رینکس میں کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور پوری فوج اپنی قیادت پر فخر کرتی ہے۔‘

میجر جنرل بابر افتخار نے اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقات کے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے بھی ایسا سنا ہے، تحقیقاتی صحافت بہت آگے بڑھ چکی ہے، اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے، ایسا کوئی رابطہ نہیں ہوا، کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور ایسی کوئی بات نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اسے بیرونی اثرورسوخ کے ذریعے بڑھایا جارہا ہے، کچھ دراڑیں ضرور وجود رکھتی ہیں، جنہیں بیرونی اثرو رسوخ سے بڑھایا اور پھر اس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے سیاست اور نیشنل سیکیورٹی سے متعلق خیالات کو منفی شکل دی جارہی ہے، اس میں کچھ خیالات حقیقی بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس کو بیرونی اثر و رسوخ سے اس تیزی کے ساتھ بڑھایا جارہا ہے جسے بغیر تصدیق کے آگے شیئر کردیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنی سوسائٹی کو ان اثرات سے بچانے کے لیے ہمیں بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، یہ حکومتی سطح پر بھی کرنا پڑے گا اور انفرادی سطح پر بھی کرنا پڑے گا، تمام اداروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، ہم نے بحیثیت ادارہ اس حوالے سے اپنے طورپر اقدامات اٹھائے ہیں، ڈس انفارمیشن کیمپین کا بہت بڑا ٹارگٹ ہماری فوج ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جو جنگ لڑی ہے وہ اپنے عوام کے بل بوتے پر لڑی ہے، اگر عوام فوج کے ساتھ نہ کھڑے ہوں تو جن ملکوں میں یہ حالات تھے آج ان کے حالات دیکھ لیں، کدھر گئی وہ فوج اور کیا حالت ہے اس ملک کی

فوج کے اندر جانبدار اور غیرجانبدار کی لڑائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ فوج ’یونیٹی آف کمانڈ‘ کے فیکٹر پر چلتی ہے، چیف آف آرمی اسٹاف جس جانب دیکھتا ہے اسی جانب آرمڈ فورس بھی دیکھتی ہے، آج تک اس میں نہ تبدیلی آئی ہے نہ ان شا اللہ آگے کبھی آئے گی، الحمداللہ فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور پوری فوج اپنی لیڈرشپ پر فخر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کا دارومدار سیاسی استحکام پر ہے، دفاع اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، سیاسی استحکام اصل عنصر ہے جو معیشت اور سیکیورٹی سمیت تمام چیزوں کو آگے بڑھاتا ہے، اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو اسے یقینی طور پر نیشنل سیکیورٹی کو نقصان پہنچے گا،

انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ ایک سیاسی عمل کا حصہ تھا، جمہوریت میں یہ چیزیں ہوتی رہتی ہیں لیکن اس دوران عدم استحکام ضرور آیا، جس دن نئی حکومت آئی اس دن اسٹاک ایکسچینج اوپر گئی اور ڈالر نیچے آیا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی حدتک استحکام آرہا ہے، اس کو برقرار رہنے کے لیے تھوڑا وقت لگے گا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close