کراچی – ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک سابق امریکی کانگریس ویمن کے عمران خان کی حکومت کی برطرفی بارے امریکی کردار کے متعلق ایک بیان کے خوب چرچے ہیں اور اس بیان نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے
تفصیلات کے مطابق سابق امریکی کانگریس ویمن سنتھیا میک کینی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی میں امریکہ نے اہم کردار ادا کیا
واضح رہے کہ سنتھیا میک کینی 2008ع میں گرین پارٹی کی صدارتی امیدوار بھی تھیں
سنتھیا میک کینی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے روس کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا اور پابندیوں کی جنگ میں شامل ہونے سے بھی انکار کیا
سنتھیا میک کینی نے کہا کہ اس کے علاوہ، عمران خان نے سی آئی اے کو اپنے ملک کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، اور وہ کیوبا اور ایران کی طرح فلسطینیوں کا کٹر محافظ تھا
سابق کانگریس ویمن کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی، جس کے نتیجے میں انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا
حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد، عمران خان نے پاکستان بھر میں بڑے احتجاجی عوامی اجتماعات کیے ہیں، اور الزام لگایا ہے کہ امریکہ نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کیا ہے۔
جب کہ اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ عمران خان کے ان الزامات کی مسلسل تردید کرتے آئے ہیں
یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ روس بھی سرکاری سطح پر عمران خان کی معزولی کے بارے میں کہہ چکا ہے کہ نافرمان عمران خان کو روس کا دورہ کرنے کی سزا دی گئی
واضح رہے کہ امریکا میں سابق سفیر، اسد مجید کے الوداعی ظہرانے میں امریکی عہدیدار نے عمران خان کے دورہ روس کے بارے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کو اس معاملے میں امریکی حساسيت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے تھا اور یہ کہ ان کے دورے کے متعلق امریکا کو شدید مایوسی ہوئی ہے
اس صورت حال میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک بحث نے جنم لیا ہے، جن میں ایک حلقہ امریکی تردید پر یقین رکھتا ہے جبکہ دوسرا حلقہ عمران خان کے دعوے کو سچ مانتے ہوئے امریکہ کے کردار کو دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے، کہ وہ ہمیشہ دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں حکومتوں کے تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے، جس کا اعتراف خود امریکی حکام بھی کر چکے ہیں
ایسے میں سابق امریکی کانگریس ویمن اور 2008ع میں گرین پارٹی کی صدارتی امیدوار کے حالیہ بیان نے اس معاملے کو مزید سنگین بنا دیا ہے اور لوگ اسے ”چور کے گھر سے گواہی ملنے“ کے طور پر دیکھتے ہیں
سنتھیا میک کینی کون ہیں؟
سنتھیا میک کینی جارجیا سے پہلی افریقی نژاد امریکی خاتون تھیں، جو 1992ع میں ریاستہائے متحدہ کے ایوان نمائندگان کے لیے منتخب ہوئیں
میک کینی خارجہ پالیسی میں بھی کام کر چکی ہیں ہے، وہ انسانی حقوق کی وکالت کے لیے آرمڈ سروسز اور بین الاقوامی تعلقات کی کمیٹیوں میں اہم عہدوں پر بھی رہ چکی ہیں
وہ امریکی ایوان کے لیے منتخب ہوئیں ، جس سے وہ کانگریس کی صرف چند خواتین میں سے ایک بن گئیں.
انہیں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں ہمیشہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے
سنتھیا این میک کینی اٹلانٹا، جارجیا میں 17 مارچ 1955 کو لیولا کرسٹین میک کینی، ایک نرس، اور جیمز ایڈورڈ (بلی) میک کینی، ایک پولیس افسر، شہری حقوق کے کارکن، اور تاحیات جارجیا کے ریاستی سینیٹر کے ہاں پیدا ہوئیں
بلی، اس کے والد، 1948 میں اٹلانٹا پولیس فورس میں شامل ہونے والے پہلے افریقی نژاد امریکی افسروں میں سے ایک تھے۔ سنتھیا میک کینی کو اپنے والد کے ساتھ مظاہروں میں حصہ لینے کے بعد سیاست کو آگے بڑھنے کی تحریک ملی
میک کینی نے سینٹ جوزف ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور 1978 میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے بین الاقوامی تعلقات میں بیچلر ڈگری کے ساتھ گریجویشن کیا۔ اس نے میڈفورڈ، میساچوسٹس میں ٹفٹس یونیورسٹی کے فلیچر اسکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے.