کراچی یونیورسٹی بلاسٹ: چینی اساتذہ کو لاحق خطرات کے باوجود اقدامات کیوں نہ اٹھائے ؟

ویب ڈیسک

رینجرز تعینات ہونے کے باوجود کراچی یونیورسٹی میں دھماکے نے ناقص سیکورٹی انتظامات اور انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کو بے نقاب کردیا ہے

کراچی یونیورسٹی کی موجودہ قائم مقام انتظامیہ نے ڈیڑھ ماہ قبل تعینات ہوتے ہی تمام اعلیٰ و کلیدی عہدوں پر اپنے منظور نظر افراد کو تعینات کر کے یونیورسٹی کے اہم ترین شعبہ ایڈوائزر برائے سیکورٹی کو ہٹا کر وہاں بھی من پسند افسر کو سیکورٹی ایڈوائزر تعینات کر دیا تھا، جس نے خود کو بری الزمہ کرنے کے لئے سیکورٹی کا معاملہ چینی کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے سر ڈال دیا تھا

واضح رہے کہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے دو ڈائریکٹرز/منتظم ہیں ، جن میں ایک پاکستانی و جامعہ کے ذمہ دار جبکہ دوسرے منتظم کا تعلق چین سے ہی ہے ۔ ڈائریکٹر کنفیوشس انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر محمد ناصر نے سیکورٹی ایڈوائزر کو لکھا تھا کہ ”چینی اساتذہ کی سیکورٹی کو فول پروف بنایا جائے“

دستاویزات کے مطابق قائم مقام و عبوری وائس چانسلر ڈاکٹر ناصرہ خاتون کے تعینات کردہ کیمپس اینڈ سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر محمد زبیر نے 31 مارچ کو کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں خود کو بحیثیت سیکورٹی انچارج بری الذمہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے چینی اساتذہ کراچی یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس اور انسٹیٹیوٹ سے بغیر رینجرز و پولیس کی سیکورٹی کے باہر آتے جاتے ہیں اور اگر اس حوالے سے کوئی نقصان ہوا تو کراچی یونیورسٹی اس کی ذمہ دار نہیں ہوگی

جس کے بعد 6 اپریل کو کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ناصر نے وائس چانسلر کے ایڈوائزر برائے سیکورٹی ڈاکٹر محمد زبیر کو جوابی خط لکھ کر کہا تھا کہ بحیثیت پاکستانی آپ اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاک چین دوستی بہت بلند ہے اس لیئے چینی انسٹیٹیوٹ کے اساتذہ کی سیکورٹی و حفاظت کرنا ہماری اولین ترجیح ہے

لیٹر میں چینی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر نے سیکورٹی ایڈوائزر کو مزید لکھا کہ کراچی یونیورسٹی کی جانب سے بیرون ممالک کے انسٹیٹیوٹ اور اساتذہ کے لئے علیحدہ سے سیکورٹی کا آفس ہے، جس میں پولیس اور رینجرز کے تعاون سے سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے

لیٹر میں ڈائریکٹر کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ناصر نے سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر محمد زبیر کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ خط لکھ کر خود کو بری الذمہ نہ کریں اور آپ ہی اس سیکورٹی کے ذمہ دار ہیں

لیٹر میں انہوں نے مزید کہا البتہ میں آپ کو ایک تجویز دیتا ہوں کہ آپ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (SOP) بنائیں، جس میں سیکورٹی کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیں اور ان کو چینی اساتذہ، طلبہ سمیت متعلقہ سیکورٹی ایجنسیز کے ساتھ شیئر کیا جائے

لیٹر میں مزید لکھا ہے کہ سندھ پولیس، مقامی پولیس اسٹیشن، اسپیشل برانچ اور بیرون ممالک کے افراد کی سیکورٹی کے ذمہ داروں سے مل بیٹھ کر ایس او پیز طے کریں تاکہ بروقت سیکورٹی کے انتظامات کو یقینی بنایا جا سکے

واضح رہے کہ قائم مقام وی سی ڈاکٹر ناصرہ خاتون نے ایک ماہ قبل ہی سابق سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معیز خان کو ہٹا کر اپنے گروپ ٹیگ کے ذمہ دار اور اسلامک ہسٹری ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر محمد زبیر کو سیکورٹی ایڈوائزر بنایا تھا

ادھر اساتذہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محمد زبیر کی ناقص حکمت عملی اور بروقت اقدامات نہ کرنے کے حوالے سے اعلی سطح انکوائری کی جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ چینی اساتذہ کو جب خطرات لاحق تھے تو کیوں ایک ماہ ضائع کر دیا گیا جس کی وجہ سے یہ دھماکہ ہوا اور بین الاقوامی سطح پر اس کے دور رس نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں

اس حوالے سے سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر محمد زبیر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں ایک روز قبل اپنے شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے رخصت لے کر بہاولپور آیا ہوں۔ 5 مئی تک میں رخصت پر ہوں تاہم انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے اساتذہ کو خطرات لاحق تھے جس پر ہماری سیکورٹی اداروں جن میں رینجرز اور متعلقہ ڈپارٹمنس سے ایس او پی کے حوالے سے بات چیت چل رہی تھی

یاد رہے کہ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے دور کے بعد کراچی یونیورسٹی میں دوسرا دھماکا ہوا ہے۔ پیرزادہ قاسم کے دور میں مرکزی طعام گاہ کے باہر ظہر کے وقت اس وقت دھماکا ہوا تھا، جب برابر لان میں نماز ادا کی جا رہی تھی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close