گھر کی دیوار پر سبزیاں اگائیں اور گھر میں ہی موبائل فون مائکرو چپ سے میڈیکل ٹیسٹ کریں

ویب ڈیسک

اب دیوار پر لگے نظام سے تازہ سبزیاں کمرے میں اگائیں

ایک ایسا آلہ، جو گھر کے کسی بھی کمرے میں پینٹنگ کی طرح ٹانگا جاسکتا ہے، اور جو صرف پانی کی بدولت ہرے پتوں والی تازہ سبزیاں کسی کیمیائی اجزا کے بغیر کاشت کرسکتا ہے، ہے نا حیرت انگیز بات!

اسے بنانے والی کمپنی نے ’ہائیڈروآرٹ پوڈ‘ کا نام دیا ہے، جو ایک جانب تو کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے تو دوسری جانب مضر کیمیائی اجزا سے پاک روزانہ کی سبزیاں اگاتا ہے

اسے ایک خاتون ڈیزائنر نے تین سال کی محنت اور کامیابیوں اور ناکامیوں کے بعد بنایا ہے

ان کا دعویٰ ہے کہ اب سبزیاں اگانا کافی یا چائے بنانے سے بھی زیادہ آسان ہے

عموماً گھروں میں جگہ نہیں ہوتی اور اسی بنا پر پورا ہائیڈروآرٹ پوڈ کا پورا نظام تشکیل دیا گیا ہے، جسے کم جگہ پر سبزیوں کا باغیچہ قرار دیا گیا ہے۔ اپنی بہترین صلاحیت کی بنا پر یہ سارا سال تازہ سبزیاں کاشت کرتا رہتا ہے

یعنی آپ کے گھرکی دیوار سبزی کا ٹھیلا بن سکتی ہے اور بچے اور بڑے اپنی پسند کی سبزی توڑ کر اسے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس میں چھوٹے ٹماٹر، مرچیں، اسٹرابری، دھنیا، کھیرا، پودینہ، پالک، چولائی، کڑھی پتے اور باورچی خانے کے لیے ضروری دیگر سبزیاں آسانی سے اگائی جاسکتی ہیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ افزائش کا پورا نظام ہرقسم کے کیمیکل سے پاک ہے۔ ایک مرتبہ کی سرمایہ کاری سے پورے سال سبزیوں کا خرچ بچایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ فریج کے لیے 500 واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ہائیڈروآرٹ پوڈ صرف 120 واٹ بجلی صرف کرتا ہے

اس کی پشت پر 10 لیٹر پانی کی ٹنکی لگی ہے، جو ہر دو گھنٹے بعد خودکار انداز میں چند منٹوں کے لیے پانی فصلوں تک پہنچاتی ہے

ہائیڈروآرٹ پوڈ پر ہر سبزی کے لیے ایک چھوٹا خانہ بنایا گیا ہے، جس میں پہلے بیج ڈالا جاتا ہے، پھر پودوں کو غذائیت دینے والے اجزا انڈیلے جاتے ہیں اور اس کے بعد ہائیڈروآرٹ پوڈ کا سوئچ آن کردیا جاتا ہے

اس طرح آپ روزانہ اپنی سبزیوں کی تیزرفتار نشوونما دیکھ سکتے ہیں۔ ان سبزیوں میں لوبیا، اور سلاد سمیت پتوں والی کئی سبزیاں قابلِ ذکر ہیں۔ نظام کے اطراف پر لگی روشنیاں سبزیوں کی افزائش کو تیزتر کر دیتی ہیں

اسمارٹ فون کی مدد سے امراض بتانے والی انقلابی مائیکروچپ

مِنی سوٹا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک نئی مائیکروچپ بنائی ہے، جو عام اسمارٹ فون کے ساتھ کام کرتے ہوئے کئی امراض کی شناخت کرسکتی ہے۔ چپ کا ڈیٹا وائرلیس کی بدولت اسمارٹ فون تک پہنچتا ہے

توقع ہے کہ اس سے گھر یا کسی بھی جگہ عام افراد بھی مرض کی تشخیص کرسکتے ہیں

ہفت روزہ تحقیقی جریدے نیچر میں شائع رپورٹ کے مطابق اس کے تفصیلات عام کردی گئی ہیں اور اوپن سورس کے تحت ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے

اسے بھی روایتی طور پر ’چپ پر شناختی تجربہ‘ گاہ قرار دیا گیا ہے اور اس کے لیے انسانی رطوبت مثلاً خون یا پیشاب کی معمولی مقدار درکار ہوگی ہے

اگرچہ اس نظام کے لیے خانے، برقی سرکٹ اور پمپ وغیرہ درکار ہوتے ہیں لیکن ماہرین نے مائیکروفیبریکیشن سے پورا نظام مختصر ترین بنایا ہے

تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر سینگ ہیون اوہ کے مطابق مائع کو چپ پر رکھنا اور پرکھنا ہی سب سے اہم کام تھا، جسے کامیابی اسے انجام دیا گیا ہے۔ اب چپ پر سرکٹ، مائع خانے اور پمپ سب کچھ موجود ہے

اس ٹیکنالوجی کی بنیاد 2010 میں رکھی گئی تھے، جس کا پھل اب بارہ سال بعد ملا ہے

دو مربع سینٹی میٹرچوڑی اس چپ پر برقی پٹیاں (الیکٹروڈ) بہت قریب لگائی گئی ہیں اور درمیانی فاصلہ صرف دس نینو میٹر ہے۔ اس لیے درمیان کا برقی میدان (الیکٹرک فیلڈ) بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ پوری چپ کو صرف ایک وولٹ پر چلانا ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔ اسی بنا نیئر فیلڈ کمیونکیشن پیدا ہوتا ہے اور یوں کانٹیکٹ لینس پیمنٹ کی طرح اسمارٹ فون سے رابطہ ممکن ہوتا ہے

ڈاکٹر سینگ کے نے گرپ مالیکیولر کمپنی کے تعاون سے چپ بنائی ہے۔ اپنی چھوٹی جسامت کے باوجود یہ خون، تھوک یا پیشاب سے وائرس، بیکٹیریا، جراثیم اور کئی طرح کے بایومارکرز کی شناخت کرسکتی ہے۔ اس طرح گھر بیٹھے امراض کی شناخت میں ایک انقلاب آجائے گا اور یوں دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو فائدہ ہوگا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close