مرد بھی گھریلو تشدد کا شکار بنتے ہیں مگر…..

مارگریٹا سینٹس

پال کو ان کی سابقہ بیوی نے دس سال تک تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے ساٹھ سے زائد بار پال کو باہر نکال کر گھر کے دروازے بند کر دیے، یہاں تک کہ وہ بعض اوقات پال کو گھر سے میلوں دور چھوڑ دیتی تھیں اور پال کو پیدل چل کر واپس گھر آنا پڑتا تھا

اس کے علاوہ انہوں نے کئی بار پینٹنگز اٹھا کر پال کے سر پر دے ماریں اور 2014ع میں اپنی بیٹی کے سامنے ہیئر ڈرائر پال کے سر پر مار دیا۔ پال، جن کی شناخت ظاہر نہ کرنے کے سبب ان کا پورا نام پوشیدہ رکھا ہے، ہسپتال گئے اور گھریلو تشدد سے متعلق تین مختلف ہیلپ لائنز پر کال کی

ایک نے انہیں بتایا کہ وہ مدد نہیں کر سکتے کیونکہ یہ علاقہ ان کی حدود سے باہر ہے۔ پال کا دعویٰ ہے کہ باقی دو نے کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ ذہن کو کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں: ’انہوں نے صاف انکار کیا کہ نہیں، ہمارے پاس آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے۔‘

پال کی سابقہ بیوی ایک ہفتے کے اندر گرفتار کر لی گئیں اور پانج ماہ بعد (سیکشن 18 کے تحت) ارادتاً شدید جسمانی نقصان پہنچانے کا باضابطہ الزام عائد کر دیا گیا، جسے بعد میں کم کرتے ہوئے (سیکشن 20 کے تحت) غیرارادی جسمانی نقصان میں بدل دیا گیا، جو نقصان کو ’حادثاتی‘ بناتے ہوئے جرم کی سنگینی کہیں کم کر دیتا ہے

پال کے بقول: ’اگرچہ وہ میرے اوپر چڑھ کر ہیئر ڈرائر کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے میرے سر پر ضربیں لگا رہی تھی، میری ٹانگوں کے بیچ مار رہی تھی لیکن عدالت کو سنگین نقصان پہنچانے یا دراصل جان سے مار ڈالنے کی نیت نظر نہیں آئی‘

پال کی سابقی بیوی کے لیے مختصر سی حتمی سزا سولہ مہینے مقرر کی گئی، جس میں سے نصف معطل کر دی گئی

افسوس کہ پال کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ اپنی طرز کا اکلوتا واقعہ نہیں۔ اگرچہ 2020ع میں برطانیہ میں دفتر برائے قومی شماریات کے تازہ ترین سالانہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ برطانیہ میں گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی تعداد سولہ لاکھ ہے، جس کے مقابلے میں ساڑھے سات لاکھ یعنی نصف مرد گھریلو تشدد کا شکار ہوئے

جیسا کہ پال کے واقعے میں ہوا، مجرم خواتین کو سزائیں سناتے ہوئے اکثر نرمی سے کام لیا جاتا ہے۔ ایک شخص جسے اس کی دس سال تک ساتھ رہنے والی بیوی نے سر میں چھرا گھونپا اور دو الگ الگ مواقع پر خودکشی کی کوششوں پر مجبور کیا، اسے اپنے بچے کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے دو سال جدوجہد کرنا پڑی۔ اپنے مخبوط الحواس بچوں کے پاس بیٹھ کر کوکین پیتے ہوئے اپنے شوہر کو کاٹنے اور نوچنے والی ایک اور خاتون کو حق تحویل کھونے کے باوجود بچوں تک رسائی دی گئی

پال کا واقعہ ظاہری حلیے کی بنیاد پر ’وکٹم بلیمنگ‘ (الٹا متاثرہ شخص کو نشانہ بنانا) کی کوششوں کا بھی پردہ چاک کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’ایک مظلوم کے طور پر وہ آپ کی شناخت توڑنا چاہتے تھے تاکہ آپ کو خوفناک شخص قرار دے کر اس پر اپنا دفاع قائم کریں۔ میرے لیے وکیل صفائی کے بعض سوالات کا جواب دینا ناقابل یقین حد تک مشکل تھا، جب وہ میری سابقہ بیوی کے ساتھ تصاویر دکھاتے ہوئے کہتے تھے کہ ’دیکھیں ایسے ہٹے کٹے مرد کو اس عورت سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ دیکھیں یہ کیسا پلا ہوا ہے۔‘ ہمارے ایک مقامی اخبار کی سرخی کچھ یوں تھی: ’20 سٹون ٹیچر۔‘ حالانکہ میرا اتنا وزن تھا ہی نہیں۔‘ (20 سٹون 127 کلوگرام کے برابر ہے)

پال کو یہ بھی محسوس ہوا کہ اس کی دس سالہ بیٹی کی گواہی کو عدالت میں اس کی اپنی گواہی سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ دو گھنٹوں پر مشتمل تفتیشی ویڈیو میں وکیل صفائی بار بار اس سے ایسے سوالات پوچھتا رہا، ’کیا آپ اپنی ماں اور باپ سے محبت کرتی ہیں؟‘

پال افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’اس کا مطلب ہوا تشدد کا نشانہ بننے والے مرد کے طور پر محض میری اپنی گواہی کسی شمار میں نہیں آتی۔‘

تقریباً بارہ ماہ پر محیط اس عرصے میں پال کو اپنی سابقہ بیوی کے خلاف مقدمے میں کراؤن کورٹ کے ساتھ ساتھ علیحدگی اور اپنی بیٹی کی تحویل کے لیے فیملی کورٹ کی دو الگ الگ سماعتوں میں بھی شرکت کرنا پڑی

’فیملی کورٹ میں جب میری سابقہ اہلیہ نے خود اپنی نمائندگی کا فیصلہ کیا تو مجھے اس کے سامنے میز کے دوسری طرف بٹھا دیا گیا۔ اسے موقع فراہم کر دیا گیا کہ وہ اس فورم کو دھمکانے، الزامات لگانے اور چیخنے چلانے کے لیے استعمال کرے۔ جج نے اسے کھلی چھٹی دیے رکھی۔‘

پال کہتے ہیں فیملی کورٹ نے ان کی کراؤن کورٹ سے مظلوم ثابت ہونے کی بات نظرانداز کی اور اسی لیے دو سابق میاں بیوی کو جسمانی طور پر الگ نہیں کیا

وہ کہتے ہیں، ’یہ عدالتیں آپس میں ربط نہیں رکھتیں۔ فیملی کورٹ میری بیٹی کی ضروریات کو دیکھ رہی تھی جبکہ طلاق عدالت محض مالی معاملات کو دیکھ رہی تھی۔ میں اس سے کچھ زیادہ خوشگوار طریقے سے نہیں نکلا۔‘

کبھی کسی عورت پر ہاتھ مت اٹھاؤ

بدسلوکی کا شکار ہونے والے مردوں کی مدد کرنے والے واحد خیراتی ادارے ’مین کائنڈ انیشیٹیو‘ (Mankind Initiative) کے چیئرمین مارک بروکس کہتے ہیں کہ ان سے اکثر پوچھا گیا کہ ’ہم بطور معاشرہ مردوں کو کم ’مردانہ‘ بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘

لوگوں سے کہا جاتا ہے ’مرد بنو مرد‘ اور ان کا ظاہری قد کاٹھ انہیں مظلوم سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس مسئلے کو سمیٹتے ہوئے بروکس کہتے ہیں ’عورتوں کے مسائل ہیں جبکہ مرد تو سراپا مسائل ہیں۔‘

’کلیئرز لا‘ (Clare’s Law) کے نام سے مشہور گھریلو تشدد کو ظاہر کرنے والی سکیم پولیس افسران کو کسی شخص کے پرتشدد ماضی کو ان لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کی خصوصی اجازت دیتی ہے، جنہیں اس سے خطرہ ہو سکتا ہو۔ اس قانون، جس کا نام اپنے ایسے جنسی ساتھی کے ہاتھوں قتل ہونے والی کلیئر وڈ نامی خاتون کے نام پر رکھا گیا، جس کے متعلق پولیس جانتی تھی کہ وہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، اور اس کا مقصد جنسی ساتھی کے تشدد کو کم کرنا ہے۔ مخصوص حالات میں یہ قانون پولیس کو ایسی معلومات عوام کے سامنے رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ بروکس اور پولیس کے اداروں سے جمع کردہ ان کی معلومات کے مطابق اس سکیم کا استعمال کرنے والی مجموعی تعداد میں مردوں کا حصہ محض تین فیصد ہے

قانون کی زبان، سرکاری سکیم میں ایک خاتون ’کلیئر‘ کے نام کے استعمال سمیت، مرد اور خواتین کے بدسلوکی کے رویے کی واضح تفریق کو مزید تقویت دیتی ہے۔ پھر یہ زبان میڈیا رپورٹس کا حصہ بنتی ہے جہاں ’ہوشیار‘ خواتین مجرمان کے ’خطرناک ماضی‘ کا ذکر ہوتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کیسے انہوں نے ’صلاحیت کا مظاہرہ‘ کیا جبکہ مرد مجرموں کو اس کے بالکل برعکس ’ٹھگ‘ اور ’درندے‘ کے الفاظ سے پیش کیا جاتا ہے

حقیقت میں تعداد کا فرق اس سے کہیں کم ہے جو ہم یقین کیے بیٹھے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کا حساب رکھنے میں یوں ناکام رہتے ہیں کہ نصف مرد متاثرین سماجی تعصبات کے پیدا کردہ حوصلہ شکن ماحول کے سبب اپنے ساتھ پیش آئی بدسلوکی کا ذکر تک کسی سے نہیں کرتے (19 فیصد خواتین کے برعکس 49 فیصد مرد)۔ مرد متاثرین کے اعداد و شمار اکثر گھریلو تشدد کے مجموعی اعداد و شمار سے الگ ریکارڈ نہیں کیے جاتے: دراصل انہیں کراؤن پراسیکیوشن سروس کے ذریعے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے اعداد و شمار کی ذیل میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر انہیں مردوں کے خلاف دیگر اقسام کے تشدد کے حساب کتاب میں دفن کر دیا جاتا ہے

یونیورسٹی آف کمبریا میں اپلائیڈ سائیکالوجی کی سینئر لیکچرر ڈاکٹر الزبتھ بیٹس نے طویل عرصے تک صنفی رویوں کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں یہ بات تسلیم کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں کہ مرد خواتین کے مقابلے میں زیادہ پرتشدد ہوتے ہیں اور خاص طور پر جب بات گھریلو تشدد کی آتی ہے تو فرق سے زیادہ مماثلتیں ملتی ہیں

ڈاکٹر بیٹس کہتی ہیں، ’مردوں کو مدد درکار ہو تو ان کے راستے میں مختلف قسم کی حقیقی رکاوٹیں آڑے آتی ہیں۔ ہم لڑکوں سے کیسے بات کرتے ہیں جب وہ چھوٹے ہوتے ہیں، کیسے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنا خیال خود رکھ سکتے ہیں اور یہ کہ وہ مضبوط ہیں اپنا دفاع خود کر سکتے ہیں۔ پھر مرد محسوس کرنے لگتے کہ وہ کمزور نہیں ہو سکتے۔‘

’آپ اب بھی دیکھتے ہیں کہ خواتین کے تشدد اور مردوں کی مظلومیت کو مزاح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ہم جو زبان استعمال کرتے ہیں، اس کے تحت ہم کہتے ہیں مرد ’زن مرید‘ ہے، یا ’جورو کا غلام‘ ہے، لیکن جب عورت اسی تجربے سے گزر رہی ہو تو ہم ایسی زبان نہیں استعمال کرتے، ہم اسے کہیں زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں‘

بروکس کہتے ہیں، ’لڑکوں کو شروع سے ہی سکھایا جاتا ہے کہ ’کبھی بھی عورت پر ہاتھ مت اٹھاؤ‘ جبکہ لڑکیوں کو یہ نہیں سکھایا جاتا۔ میرے خیال میں مرد ججوں میں بھی خواتین کے لیے نرمی کا عنصر موجود ہوتا ہے، جو ممکنہ طور پر مرد کو سخت سزا دیتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مرد کا عورت پر ہاتھ اٹھانا زیادہ ناقابلِ قبول ہے اور وہ عورت کے معاملے میں زیادہ درگزر سے کام لینے والے ہوتے ہیں۔‘

صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے کی بجائے قانون ساز ساری توجہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کی حکمت عملی پر مرکوز کر دیتے ہیں اور مردوں کے تحفظ کو نظر انداز کرنے کا خطرہ مول لیتے ہیں

یہاں تک کہ مرد ان بدسلوکیوں کا ادراک کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، جن سے وہ گزرتے ہیں کیونکہ وہ بدسلوکی کے شکار افراد کی تصویر میں خود کو موزوں نہیں پاتے۔ اگر اشتہارات، دستیاب خیراتی ادارے اور مہمات زیادہ تر مرد کو خواتین پر حاوی دکھاتے ہیں تو اس منظرنامے میں ایک مرد خود کو کہاں رکھے گا؟

برٹش میڈیکل جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق اپنے تعلقات کو بدسلوکی کے طور پر پہچاننے کے علاوہ مرد افشائے راز کے خوف کی وجہ سے مدد نہیں لیتے۔ بروکس بتاتے ہیں کہ اگر ان کا نام پوشیدہ نہ رکھا جائے تو 64 فیصد مرد کبھی ہیلپ لائن پر کال نہیں کرتے اور ہر چھ میں سے محض ایک پولیس کو اطلاع دیتا ہے

مارٹن کی شادی اس دھمکی آمیز فضا کا ثبوت ہے، جس میں تشدد کا شکار ہونے والے مرد حضرات کو رہنا پڑ سکتا ہے۔ ایک بار اس کی بیوی نے اسے منہ پر اس زور کا گھونسہ مارا کہ اس کی اپنی ایک انگلی ٹوٹ گئی۔ مارٹن اسے ہسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے اسے ’boxer’s break‘ یا باکسروں کا فریکچر کہتے ہوئے اس کی بیوی کو مارٹن کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے مدد کی پیشکش کی۔ وہ مسلسل ڈاکٹر کو مارٹن کے خلاف بطور دھمکی استعمال کرتے ہوئے کہنے لگی، ’مجھے بس ڈاکٹر کو بلانا ہے، وہ سب میری بات کا یقین کریں گے، یہاں تک کہ میں محض اپنے جسم کو دیوار سے ٹکرا کر کہہ سکتی ہوں کہ تم نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا۔‘

خاندانی قوانین کے وکیل روجر واٹرز وضاحت کرتے ہیں کہ خواتین مؤکل گھریلو تشدد کو بیان کرنے میں بہت کھلے پن کا مظاہرہ کرتی ہیں جبکہ مرد ’خبط عظمت میں مبتلا، اکثر شرمندگی‘ محسوس کرتے ہیں۔ اس کے لیے یہ ایک ثقافتی رویہ ہے، ’عزت کو بٹہ لگنے کا خوف اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روایتی طور پر مرد ہمیشہ ایک خودمختار مضبوط ماڈل رہا اور سچ میں کھڑے ہو کر یہ کہنا کمزوری کی علامت اور شرمندگی کا باعث سمجھتے ہیں کہ انہیں مارا پیٹا گیا ہے۔‘

یا اکثر اوقات ان کی کہانیوں سے متضاد بیانیے گھڑے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ’اگر کوئی مرد خاموش ہے تو وہ زبردستی اور کنٹرول کرنے والا ہے کیونکہ وہ کسی بھی وقت تشدد پر اتر سکتا ہے۔ یہ اقتباسات اس نصاب سے لیے گئے ہیں جو کورم چیمبرز لا ورکس ڈومیسٹک وائلنس ٹریننگ میں ڈاکٹر بیانکا جیکسن پڑھاتی ہیں۔ ادارے برائے قومی شماریات کے اعداد و شمار اور انٹرویوز پر مبنی ڈیٹا کے مطابق کم از کم بارہ مرد روزانہ خودکشی کرتے ہیں جس میں تحقیقی جائزوں کی مطابق 34 فیصد مردوں کی خودکشی کا سبب تعلقات ٹوٹنا ہے۔ اس کے مقابلے پر تنہا رہ جانے والے باپ کے خودکشی کرنے کا امکان 300 فیصد زیادہ ہوتا ہے

پولیس افسر کی لاٹری: چھانٹی کا عمل

نظام میں موجود لاشعوری تعصب کے اظہار کا پہلا فرق چھانٹی میں سامنے آتا ہے۔ غور کرنے والی پہلی بات یہ ہے کہ نیشنل ڈومیسٹک وائلنس ہیلپ لائن، گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ برائے خواتین و اطفال اور وویمنز ایڈ کی شراکت داری سے چلائی جاتی ہیں جو دونوں تنظیمیں مردوں یا لڑکوں کا ذکر تک نہیں کرتیں۔ موخر الذکر ان بہت سے اداروں میں سے ایک ہے جنہوں نے پال کی مدد کرنے سے انکار کیا تھا

2017ع میں کارڈف کی رہائشی این اوریگن نے ہیلپ لائن کو بے نقاب کیا جب اس کے پوتے نے بطور مظلوم مدد طلب کرنے کے لیے ہیلپ لائن پر کال کی اور اسے مجرموں کی طرح سے پوچھ گچھ سے گزرنا پڑا

اوریگن نے مساوات اور انسانی حقوق کمیشن کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس نے ’گھریلو تشدد کی ہیلپ لائن پر کال کرنے والے مردوں کی چھانٹی (سکریننگ) انتہائی ضروری سمجھی کہ آیا وہ مجرم ہے۔‘ مساوات اور انسانی حقوق کمیشن کے جواب میں درج ذیل حوالہ بھی شامل تھا کہ ’ہمارا خیال ہے گھریلو تشدد کے خلاف ہیلپ لائن پر مدد کے لیے کال کرنے والے مردوں اور عورتوں کے حالات میں عملی نقطہ نظر سے فرق ہے۔‘

اس کا استدلال ہے چونکہ گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی ’بہت بڑی اکثریت‘ ہے اس لیے خواتین کال کرنے والوں کی اس تناسب سے چھانٹی ممکن نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متاثرین میں ایک تہائی سے زیادہ تعداد مردوں کی ہے لیکن کال کرنے والی مجموعی تعداد میں مردوں کا حصہ محض 3 فیصد ہے، اس صورت حال میں یہ سوالات مزید شدت اختیار کر جاتے ہیں کہ کیا چھانٹی کا عمل مرد متاثرین کے لیے اضافی رکاوٹ اور بدنامی کا باعث بن سکتا ہے

کورلی لینکاسٹر سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ ایڈورڈز نے کئی بار مدد کے لیے ہیلپ لائن پر کال کی۔ پولیس نے کئی بار مداخلت کی مگر 2015ع میں ایڈورڈز کو اس کی بیوی نے کچن والا چھرا سینے میں گھونپ کر قتل کر ڈالا۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بروکس کہتے ہیں، ’انہوں نے یہ بات سنجیدگی سے نہیں لی کیونکہ وہ ایک مرد تھا اور بالآخر موت کے منہ میں جا پہنچا، اس وجہ سے قتل کر دیا گیا۔‘

2017-18 میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والوں میں سے 4.3 فیصد مردوں کو اندرونی چوٹیں آئیں یا ہڈیاں اور دانت ٹوٹ گئے جبکہ ایسی خواتین کی تعداد 0.4 فیصد تھی، بحیثیت مجموعی 31.8 فیصد مرد اور 22.7 فیصد خواتین نے پرتشدد تعلقات کی وجہ سے جسمانی زک اٹھائی

پناہ گاہ کے حصول کی جنگ

جب بہت ہی کم، کبھی کہیں جا کر بدسلوکی کے شکار ہونے والے مرد کو مدد فراہم کر دی جائے تو پناہ گاہوں میں جگہ حاصل کرنے کی جدوجہد شروع ہو جاتی ہے کیونکہ مردوں کو مہیا کیے جانے والے مختص بستر بہت کم تعداد میں ہیں

بروکس کے مطابق اس وقت مردوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے والی 38 ایسی تنظیمیں موجود ہیں اور ان کے پاس بحیثیت مجموعی 253 لوگوں کی گنجائش ہے جو مخلوط گھروں کے اندر 81 مردوں کو فراہم کی گئی ہیں

کم سہولیات کی دستیابی کا مطلب یہ بھی ہے کہ جب مظلوم کے لیے کوئی جگہ ملے تو وہ ممکنہ طور پر اس کی رہائش گاہ سے بہت دور ہو۔ مین کائنڈ انیشیٹیو کو کال کر کے پناہ کے طلب گار سالانہ 80 مردوں میں سے زیادہ تر نے رہائش قبول نہیں کی کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں اپنے بچوں اور ملازمت کو پس پشت ڈالنا پڑتا

کوویڈ کی وبا کے بعد لوگوں کو ماضی کی نسبت کہیں زیادہ الگ تھلگ رہنے کا موقع ملا اور بے کاری اور ملازمتوں میں تعطل کے سبب مالی مشکلات کے سبب کہیں اور جانے کی سکت بھی کم ہوئی۔ اس کے برعکس اس کی طلب بہت بڑھ گئی: ہیلپ لائنز پر کالز میں گذشتہ سال کی نسبت ایک چوتھائی اضافہ ہوا اور مین کائنڈ انیشیٹیو جیسی ویب سائٹیں وزٹ کرنے والوں کی تعداد 75 فیصد بڑھ گئی

کہا جاتا ہے کہ بے گھر ہونے کی ایک اہم وجہ مردوں کے خلاف پارٹنرز کا تشدد ہے۔ ادارہ برائے قومی شماریات کے تخمینے کے مطابق انگلینڈ میں موسم خزاں 2020 کے دوران ایک ہی رات میں گھروں سے باہر سونے والوں کی تعداد دو ہزار 277 مرد اور 377 خواتین تھیں جو کہ مردوں کو مجموعی تعداد کا 85 فیصد بناتا ہے۔ ایوری ون اِن (Everyone In) جیسی سکیموں کی بدولت لاک ڈاؤن اور اس کے بعد کے حالات میں 2019 کی نسبت 37 فیصد (ایک ہزار 578) کمی کے باوجود ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک تہائی مرد گھریلو تشدد سے بچنے کے لیے بےگھری کی زندگی گزار رہے ہیں

بچے کا کردار

فیملی کورٹس ضروری نہیں کہ گھر میں تشدد یا بدسلوکی کی شدت کے بارے میں فکرمند ہوں بلکہ ان کی توجہ اس سے زیادہ بچے پر ہونے والے ممکنہ اثرات کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا فیصلہ اس بات سے متاثر ہوتا ہے کہ آیا بدسلوکی کے وقت بچہ وہاں موجود یا اس سے باخبر تھا

ٹیری کے واقعے میں بچہ نہ صرف موجود تھا بلکہ شکار بھی ہوا۔ ایک ڈیٹنگ ویب سائٹ پر ٹیری سے ملنے کے بعد جلد ہی ہیلی حاملہ ہو گئی جس کے بعد جوڑے نے مستقبل میں ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہیلی اور ٹیری دونوں کے سابقہ ازدواج سے بچے تھے۔ ٹیری کو بعد میں پتہ چلا کہ ہیلی شرابی تھی اور اس کے چار بچے ہیلی کے سابقہ شوہر کے ساتھ رہ رہے ہیں کیونکہ اس نے شراب کے زیر اثر خودکشی کی کوشش کی تھی

اس نے آہستہ آہستہ ہیرا پھیری اور اپنی گرفت مضبوط کرنے کا رویہ دکھانا شروع کر دیا جس کا آغاز ٹیری کے فون کو ہیک کرنے سے ہوا اور پھر اس پر چیزیں پھینکنے کے جسمانی تشدد میں بدل گیا۔ ہیلی نے کئی بار ٹیری کے بچے کو کھانا دینے سے انکار یا تاخیر کی اور پلیٹ اٹھا کر پھینکنے پر اتر آئی

ٹیری کو پتہ چلا کہ ہیلی دوران حمل بھی شراب پی رہی تھی۔ جب ان کی بیٹی پیدا ہوئی تو ہیلی نے مشترکہ گھر سے ٹیری کو نکال باہر کیا۔ اس کے جانے کے بعد اس نے ایک سماجی کارکن کو فون کر کے شکایت کی کہ ٹیری نہ صرف تشدد اور بدسلوکی کرتا رہا بلکہ کچھ سامان بھی چرا کر لے گیا

ٹیری اب بھی اپنے بیٹے اور بیٹی کی تحویل کے لیے لڑ رہا ہے لیکن ہیلی کے جھوٹ، نوکری سے ہاتھ دھونے اور بچوں سے ربط کٹنے کی دھمکیوں نے اسے عدالت جانے سے روک رکھا ہے

قانون سازی، جس کا مقصد متاثرین کا تحفظ ہے لیکن صنف کے معاملے میں دقیانوسی تصورات کا پیروکار، اکثر چھانٹی کا ایک اور مرحلہ لے آتی ہے جو مردوں کی قانونی امداد تک رسائی مزید دشوار کر دیتا ہے

خیراتی ادارے ’فیملیز نیڈ فادرز (Families Need Fathers) کے مطابق مار پیٹ کے خلاف یک طرفہ حکمِ امتناعی (یعنی بغیر نوٹس کے اور الزام لگانے والے سے کسی رابطے کے بغیر، جو عام طور ماں ہوتی ہے) کے کیسوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور یہ ایسے گھریلو تشدد کی سب سے عام قسم بن گئی ہے جس میں قانونی مدد لی جاتی ہے

اس کے مطابق Laspo ایکٹ سے پہلے کی صنفی تقسیم 40 فیصد مردوں اور 60 فیصد خواتین کی تفریق سے بالترتیب 15 اور 85 فیصد ہو گئی ہے۔

نتیجتاً بہت سے مردوں نے عدالتی دروازہ کھٹکھٹانا ہی چھوڑ دیا ہے۔

پال کی عدالتی کاروائی کے بعد کی صورت حال

ان کی سترہ سالہ بیٹی، جو بدسلوکی کے واقعے کے وقت دس سال کی تھی، اپنی ماں سے ربط ختم کیے جانے کے عدالتی حکم پر خوش ہے۔ ’ہم نے اسے تحائف اور خطوط بھیجنے کی اجازت دی لیکن افسوس کہ وہ اس گنجائش کا استعمال میری بیٹی کو انتہائی خوفناک خطوط اور کارڈز بھیجنے کے لیے استعمال کرنے لگی، جس سے میری بیٹی کو اپنا آپ بھیانک لگنے لگتا۔‘

پال کا کہنا ہے کہ اگر اس کی سابقہ بیوی نے کوئی ندامت ظاہر کی ہوتی یا اپنی بیٹی کے ساتھ ہمدردی جتائی ہوتی تو اسے حراست کے بجائے معمولی سزا ملتی

جب اس کی سابقہ بیوی کو رہا کیا گیا تو پال کو فیسبک پہ دوستوں کی طرف سے پروبیشن کی خلافت ورزی کے پیغامات ملنے لگے۔ وہ نارتھمپٹن جبکہ پال اور ان کی بیٹی ولٹشر میں رہتے ہیں جو اندازاً ایک سو میل کا فاصلہ بنتا ہے۔ پھر بھی لگتا ہے کوئی دوری انہیں مکمل اطمینان کی فضا میں نہیں رہنے دیتی

’ایسے بھی مہینے تھے جب ہمارے مقامی چرچ کے لوگوں کی مدد سے وہ ایک گھر سے دوسرے گھر کے چکر کاٹتی۔ وہاں میرے بیٹی کے سکول میں کام کرنے والے ایسے لوگ تھے جو اسے شہر کے واقعات سے آگاہ رکھتے تاکہ جب میں کام پر ہوں وہ میری عدم موجودگی میں میری بیٹی سے مل سکے۔ لوگوں کو لگا وہ صحیح کام کر رہے ہیں کیونکہ وہ یقین نہیں کر سکتے کہ اس نے وہی کیا تھا جو اس پر الزام لگا۔‘

پال کو اس بات پر تشویش ہے کہ جیل میں گزارے گئے وقت نے اس کی سابقہ بیوی کی بحالی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور کسی نفسیاتی جائزے نے اس کے درست علاج کی طرف رہنمائی نہیں کی۔

حراستی جیلوں میں فرق؟

وکیل روجر واٹرز کہتے ہیں، ’خواتین کو جیل بھیجے جانا کا امکان کم ہوتا ہے۔ میں ایسے کم معروف قسم کے واقعات کو جانتا ہوں جہاں بچے اپنے والد کے ساتھ رہنے کے لیے مکان تبدیل کر رہے تھے۔ ایک عمومی مثال یہ بھی ہے کہ ماں بچوں اور ان کے والد کے درمیان کسی بھی قسم کے ربط سے انکار کرتی ہے اور متعدد احکامات کے باوجود وہ بار بار ٹال مٹول سے کام لیتی ہے۔‘

جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ 89 فیصد مرد بچوں کے بارے میں فکرمندی کے سبب بدسلوکی کے تعلقات ختم نہیں کرتے اور 89 فیصد کو خوف محسوس ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے ساتھ بدسلوکی کی اطلاع دی تو پھر اپنے بچوں کو کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔ درحقیقت خواتین کے مقابلے میں مردوں کی دوگنی تعداد بدسلوکی کرنے والے شریک حیات کے ساتھ نبھا کرتی رہتی ہے۔ جوڑوں نے لاک ڈاؤن کو بچوں سے ملاقات کے طے شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کے لیے استعمال کیا ہے

موجودہ دستیاب سکیموں اور سروسز پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے پال نے مجھے بتایا ’جہاں تک کلیئر قانون کا تعلق ہے، خالصتاً اس حقیقت کی بنیاد پر کہ اسے کیون کے بجائے کلیئر قانون کہا جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا کہ یہ ہمارے لیے نہیں ہے۔ لیکن یہاں تک کہ 2022 میں بھی مجھے نہیں لگتا کہ برطانوی معاشرہ اسے تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے۔

گھریلو تشدد کے قوانین کو صنفی تقسیم کی زبان سے الگ کیا جانا چاہیے۔ کلیئر کے بدسلوکی کا سامنا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ کیون ایسے تجربے سے نہیں گزر سکتا۔ تاہم یہ کیون کو مدد حاصل کرنے کی راہ میں آڑے آتا ہے

بشکریہ: دا انڈپینڈنٹ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close