جنگوں اور ہتھیاروں کا سفر تاریخ کے آئینے میں

ڈاکٹر مبارک علی

تاریخ میں قبائل اپنے جھگڑے جنگوں میں طے کرتی رہے ہیں۔ گفت و شنید اور ڈپلومیسی کے استعمال سے ”کچھ لو اور کچھ دو“ کی بنیاد پر فیصلے ہوا کرتے تھے، لیکن جنگ میں شکست کے بعد وہ فاتح کی تمام شرائط کو منظور کر لیتا تھا

اس لیے فاتح قوم مال غنیمت بھی حاصل کرتی تھی، جنگی قیدیوں کو غلام بھی بناتی تھی اور ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے کسانوں سے لگان وصول کرتی تھی۔ جنگ میں کامیابی کا انحصار فوج کی تعداد پر ہوتا تھا بلکہ اس میں استعمال ہونے والے ہتھیار اہم کردار ادا کرتے تھے

اس لیے ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ مہلک ہتھیار ایجاد کرے۔ پتھر کے ہتھیاروں سے لے کر نیوکلیئر اسلحہ بنانے تک یہ سلسلہ جاری رہا

ابتدائی دور میں فوجی پیدل ہوا کرتے تھے۔ تجربے کے بعد ان کی صف بندی بھی ہونے لگی تھی۔ استعمال ہونے والے ہتھیاروں میں تلوار، نیزا، تیر کمان اور تحفظ کے ڈھال ہوا کرتی تھی۔ یونانی، رومی اور ایرانی فوجیں پیدل مارچ کرتی تھیں اور کسی جنرل کی ماتحتی میں جنگ میں حصہ لیتی تھیں۔ جنگیں ہمیشہ خونریزی اور قتل عام کا باعث بنی رہیں

جنگوں میں گھوڑے کا استعمال سب سے پہلے خانہ بدوش قبائل نے کیا۔ یہ بہترین گھوڑ سوار ہوا کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کی فوجیں تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ چلی جاتی تھیں۔ منگول قوم کے لوگ گھوڑے سے سواری کے اس قدر ماہر تھے کہ جب ان کے حریف ان کے تعاقب میں آ رہے ہوتے تھے تو یہ گھوڑے کی پشت پر پلٹ کر دشمن پر تیر اندازی کرتے رہتے تھے

دوسری قوموں نے گھوڑوں کو فوج میں استعمال کرنے کا طریقہ انہی سے سیکھا تھا۔ ان کے یہ گھوڑے دبلے اور چست ہوا کرتے تھے اور بے حد تیز رفتار ہوتے تھے۔ جب یورپ میں نائٹس کا طبقہ (یعنی جنگجو) وجود میں آیا تو انہوں نے بھی گھوڑوں کا استعمال شروع کیا۔ جب یہ جنگ کرنے کے لیے جاتے تھے تو حفاظت کے لیے بھاری زرہ بکتر پہنتے تھے

اس لیے اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے ان کے گھوڑے موٹے اور صحت مند ہوا کرتے تھے اور رفتار میں تیز نہیں ہوتے تھے۔ جب انگلینڈ اور فرانس کے درمیان Accutane کی جنگ ہوئی تو انگلینڈ کے تیرانداز اونچے ٹیلے پر تھے۔ میدان جنگ میں اس موقع پر سخت بارش ہوئی، جس کی وجہ سے فرانسیسی فوج کے گھوڑے سخت کیچڑ میں پھنس گئے، جب وہ گھوڑوں سے اترے تو اپنے بھاری زرہ بکتر کی وجہ سے کیچڑ میں دھنس گئے۔ انگریز فوجیوں نے تیروں کی بارش کرکے فرانس کے نائٹس کا مکمل خاتمہ کر دیا

گھوڑوں کے علاوہ دوسرا اہم جنگی جانور ہاتھی تھا، جیسے جنگوں میں استعمال کیا گیا۔ ہنی بال انہی ہاتھیوں کو لے کر یورپ پر حملہ آور ہوا، یہاں تک کے اس نے ایلپس کے پہاڑوں سے ہاتھیوں کو گزارا، جو اس کا اہم کارنامہ ہے۔ 202 قبل از مسیح میں زوما کی جنگ کے موقع پر رومیوں نے کارتھیج کا محاصرہ کیا تو ہنی بال تین سو ہاتھیوں کو لے کر میدان جنگ میں آیا لیکن اب رومی جنرل ہاتھیوں کے استعمال سے واقف ہو چکا تھا۔ لہٰذا جب ہاتھی دوڑتے ہوئے حملہ آور ہوئے تو رومی فوجیں ان کے سامنے سے ہٹ گئیں اور ہاتھی بغیر نقصان پہنچائے آگے چلے گئے

ہندوستان میں بھی جنگ میں ہاتھیوں کا استعمال ہوتا تھا۔ اس مقصد کے لیے ان کی تربیت کی جاتی تھی اور مہاوت ان کو کنٹرول کرتا تھا کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہاتھی پلٹ کر اپنے ہی فوجیوں کو روند دیتے تھے۔ ہندوستان میں یہ روایت ہو گئی تھی کہ حکمران یا فوج کا جنرل ہاتھی پر سوار ہو کر میدان جنگ میں جاتا تھا تاکہ وہ وہاں سے لڑائی کو دیکھتا رہے اور فوجی اس کی موجودگی میں بہادری سے لڑتے رہیں

لیکن ہاتھی پر یہ سواری اس کے لیے خطرہ بھی تھی کیونکہ دشمن کے تیر یا بارود کے گولے اس کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے تھے۔ اگر وہ ہاتھی سے اتر کر گھوڑے پر سوار ہو جاتا تھا اور اس کے فوجی ہاتھی پر نہ دیکھ سکتے تھے تو اس صورت میں ان کے حوصلے پست ہو جایا کرتے تھے اور یہ شکست کا باعث ہو جاتا تھا

کہا جاتا ہے کہ جب دارا اور عالمگیر کے درمیان سامو گڑھ کی جنگ ہوئی تو عالمگیر نے تو اپنے ہاتھی کے پیروں میں زنجیریں ڈال دیں تاکہ ہاتھی کہیں بھاگنے نہ پائے۔ جب کہ دارا کو سازش کے تحت ہاتھی کی سواری چھوڑ کر گھوڑے کی سواری کے لیے کہا گیا۔ جب دارا کے فوجیوں نے اسے ہاتھی کے ہودے میں بیٹھا ہوا نہ دیکھا تو انہیں خیال ہوا کہ یا تو وہ مارا گیا ہے یا فرار ہو گیا ہے۔ اس نے جنگ کو ان کی شکست میں بدل دیا

سن نو عیسوی میں چین میں بارود ایجاد ہوا اور انہوں نے اسے آتش بازی میں استعمال کیا۔ لیکن جب یہ ایجاد عثمانی ترکوں اور یورپ میں پہنچی تو اس کو ترقی دے کر توپوں کے گولے بنا کر استعمال کیا جانے لگا۔ چونکہ ان کے استعمال کے لیے توپوں کا ڈھالنا ہوتا تھا، جو ماہر کاریگروں کی وجہ سے ممکن تھا۔ اس لیے یورپ میں حکمرانوں کے پاس توپیں اور بارود کے گولے آ گئے، جو کہ فیوڈل لارڈ کے پاس نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے تاریخ میں اس عمل کو گن پاؤڈر ایمپائر کہا جاتا ہے۔ اب تک یورپ کے فیوڈل لارڈز طاقتور ہوتے تھے اور بادشاہ کو چیلنج بھی کرتے تھے لیکن اب توپوں کے ذریعے ان کے قبیلوں کی فصلیں توڑ دی جاتی تھیں اور فیوڈل لارڈز کو شکست دی جا سکتی تھی۔ لہٰذا گن پاؤڈر نے یورپ کے بادشاہوں کو طاقتور بنا دیا۔

جب حکمرانوں کی آپس میں جنگیں ہوتی تھیں اور قلعوں پر حملے کیے جاتے تھے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے قلعہ میں دو فصیلیں تعمیر ہونے لگی تھیں تاکہ اگر پہلی فصیل ٹوٹ جائے تو دوسری فصیل حملہ آوروں کو روک سکے۔ 1453ء میں جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تو اس نے بڑی اور بھاری توپیں ڈھلوائیں۔ ان توپوں کے گولوں نے قسطنطنیہ کی فصیلوں کو توڑ دیا اور ترک فوجوں نے شہر میں داخل ہو کر اس پر قبضہ کر لیا

جب بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو 1526ع میں پانی پت کی پہلی جنگ میں وہ اپنا توپ خانہ لایا تھا، جس کی وجہ سے اس کو فتح ہوئی۔ جنوبی امریکہ میں ہسپانیوں نے بھی وہاں کے مقامی باشندوں کے خلاف توپ اور بارود کے گولوں کا استعمال کیا، جس نے دشمن کی فوجوں کا صفایا کر دیا

اس کے بعد سے مہلک ہتھیاروں کی تیاری جاری رہی۔ پہلی جنگ عظیم کے آتے آتے ٹینک، توپیں، شیل، ہوائی بم اور رائفلیں آ گئیں، یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں نیوکلیئر بم بھی ایجاد ہو گیا

جنگ کی تمام خونریزیوں اور تباہیوں کے باوجود انسان کو اب تک پرامن زندگی کے لیے مشکل ہی سے کچھ وقت ملا ہے، جس میں وہ خوشی اور مسرت کے دن گزار سکے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close