ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا پھیلنے پر ایمرجنسی نافذ، کراچی بھی خطرے میں

ویب ڈیسک

صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا پھوٹنے سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چار ہو گئی ہے جبکہ متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر محمد اعظم بگٹی نے بتایا کہ صورتحال سنگین ہونے کے باعث علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے

انھوں نے بتایا کہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں جو ہسپتال ہیں، ان میں جگہ دستیاب نہیں اور اس وجہ سے وہاں خیمے لگائے گئے ہیں

ان کا کہنا تھا پیرکوہ میں ہیضے اور پیٹ کی دیگر بیماریوں کی وجہ پینے کا پانی انتہائی آلودہ ہونا ہے اور اگر پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے

ادہر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ پبلک ہیلتھ کو لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے ایک کروڑ روپے کا خصوصی فنڈ جاری کرنے کا حکم دیا ہے

دوسری جانب صحت کے شعبے کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کو حالیہ برسوں میں ہیضے کی ’بدترین وبا‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ صوبے میں بڑی تعداد میں مریض ہیضے کی علامات کے ساتھ ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں اور ان میں بچوں کی بڑی تعداد ہے

سندھ میں بچوں کے سب سے بڑے ہسپتال ’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ‘ کے ڈائریکٹر کے مطابق ان کے پاس روزانہ کی بنیاد پر ہیضے کے دس سے پندرہ کیس رپوٹ ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے کیسز ایسے بھی ہیں، جن میں شدید دست کی شکایت کی جا رہی ہے

واضح رہے کہ پاکستان میں تقریباً ہر برس پانچ برس سے کم عمر کے 53 ہزار 300 بچے شدید اسہال یا دست (ڈائریا) کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں

ہیضہ: وجوہات اور علامات

ہیضے کا مرض عام طور پر آلودہ پانی یا خوراک میں موجود بیکٹیریم وائبرو کولرا اور نامناسب سینیٹری حالات سے پھیلتا ہے

عالمی ادارہِ صحت کے مطابق ہیضہ صحت عامہ کے لیے ایک عالمی خطرہ ہے اور معاشرے میں عدم مساوات اور سماجی ترقی میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے

عام طور پر اس مرض کی علامات بہت کم ظاہر ہوتی ہیں لیکن شدید نوعیت کے معاملات میں اگر مریض کا علاج نہ کیا جائے تو اس کی چند گھنٹوں میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے

ہیضے میں متاثرہ شخص کو شدید اسہال یا دست (ڈائریا) ہو جاتے ہیں۔ آلودہ پانی پینے یا خوراک کھانے کے بارہ گھنٹے سے پانچ دن کے اندر تک اس بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں

وی کولیرا وائرس کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں اگرچہ انفیکشن کے ایک سے دس دن تک بیکٹیریا مریض کے پاخانے میں موجود ہوتا ہے اور ماحول میں دوبارہ بہہ جانے سے دوسرے لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے

جن افراد میں علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں یہ علامات ہلکے یا درمیانے درجے کی ہوتی ہیں جبکہ کچھ افراد شدید دست اور پانی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو متاثرہ شخص کی موت بھی ہو سکتی ہے

عالمی ادارہِ صحت کا کہنا ہے کہ ہیضے کی وبا محدود علاقے میں بھی رہ سکتی ہے اور وسیع پیمانے پر بھی پھیل سکتی ہے۔ ہیضے سے متاثرہ علاقہ وہ جگہ ہوتی ہے، جہاں گذشتہ تین برس کے دوران اس مرض کے تصدیق شدہ کیسز کی تشخیص ہوئی ہو (یعنی یہ کیسز کہیں باہر سے اس علاقے میں نہ آئے ہوں)

ہیضے کی وبا ان ممالک میں پھوٹ سکتی ہے، جہاں یہ پہلے سے موجود ہو اور اس کے علاوہ ان ممالک میں بھی پھیل سکتی ہے جہاں عام طور پر یہ مرض پہلے موجود نہ ہو

ایسا ملک جہاں ہیضے کا مرض باقاعدگی سے موجود نہیں ہوتا وہاں یہ وبا ایک تصدیق شدہ کیس کے مقامی طور پر منتقل ہونے کے بعد بھی پھیل سکتی ہے

ہیضے کی منتقلی کا صاف پانی اور صفائی کی سہولیات تک ناکافی رسائی سے گہرا تعلق ہے۔ شہری علاقوں میں موجود کچی آبادیاں اور پناہ گزینوں اور مہاجرین کے کیمپس کو اس وبا سے سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے، جہاں صفائی کے ناقص انتظامات اور صاف پانی تک رسائی ممکن نہیں ہوتی

گذشتہ برسوں میں عالمی ادارہ صحت کو رپورٹ ہونے والے ہیضے کے کیسز کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سنہ 2020 کے دوران چوبیس ممالک سے ہیضے کے 3 لاکھ 23 ہزار 369 کیسز سامنے آئے جبکہ 857 اموات ریکارڈ کی گئیں

عالمی ادارہ صحت کے مطابق بہت سے ممالک میں نگرانی کے محدود نظام اور تجارت و سیاحت پر اثرات کے خوف کی وجہ سے بہت سے کیسز ریکارڈ بھی نہیں کیے جا رہے ہیں

بچاؤ اور علاج

ہیضے کی وبا پر قابو پانے اور اس سے ہونے والی اموات کو کم کرنے کے لیے کثیر الجہتی نقطہ نظر کلیدی حیثیت رکھتا ہے

مناسب نگرانی، صاف پانی، صفائی اور حفظان صحت، علاج اور ویکسین کو استعمال کرتے ہوئے اس بیماری سے نمٹا جا سکتا ہے

ہیضہ ایک قابل علاج مرض ہے، جس کا علاج خاصا آسان ہے۔ اس کے شکار زیادہ تر افراد اورل ری ہائیڈریشن سلوشن (او آر ایس) کے استعمال سے صحت یاب ہو جاتے ہیں

عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے او آر ایس کے ایک ساشے کو ایک لیٹر صاف پانی میں گھولا جاتا ہے۔ بالغ مریضوں کو درمیانے درجے کی علامات کی صورت میں پانی کی کمی پورا کرنے کے لیے پہلے دن میں چھ لیٹر او آر ایس والا پانی پینا ہوتا ہے

جس مریضوں کے جسم میں پانی کی شدید کمی ہو ان کے جسم میں فوری طور پر ڈرپ کی مدد سے نمکیات والا محلول منتقل کیا جانا چاہیے

ان مریضوں میں دست کی شدت کو کم کرنے کے لیے مناسب اینٹی بائیوٹکس بھی دی جاتی ہیں تاہم اینٹی بائیوٹکس کی زیادہ مقدار تجویز نہیں کی جاتی کیونکہ ہیضے کے پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے اس کا کوئی ثابت شدہ نتیجہ نہیں

ہیضے کی وبا کے دوران علاج تک فوری رسائی انتہائی ضروری ہے۔ مناسب اور وقت پر علاج کے ذریعے اس سے ہونے والی اموات کی شرح کو ایک فیصد سے بھی کم کیا جا سسکتا ہے

پانچ برس سے کم عمر بچوں میں اس کے علاج کے لیے زنک کا استعمال علاج کا ایک اہم طریقہ ہے، جو دست کی شدت کو کم کرتا ہے اور مستقبل میں بھی مدد کرتا ہے

بچوں کو اس بیماری سے بچنے کے لیے ماؤوں کے دودھ پلانے کو بھی فروغ دینا چاہیے

بلوچستان میں پیرکوہ میں کب سے صورتحال خراب ہوئی؟

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈیرہ بگٹی اعظم بگٹی نے بتایا کہ پیرکوہ میں 17 اپریل سے صورتحال خراب ہو گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ معاملے کی سنگینی ابھی تک برقرار ہے کیونکہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

سوئی سے پیرکوہ میں مریضوں کو علاج کے لیے بھیجے جانے والے سینئر ڈاکٹر ستیش کمہار نے بتایا کہ صرف جمعرات کی صبح سے 12 بجے تک پیرکوہ کے بنیادی مرکز صحت میں ڈھائی سو مریضوں کو لایا گیا اور پریشانی یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مریضوں کو کہاں رکھا جائے

ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال کے احاطے میں خیمے لگائے گئے ہیں

ڈاکٹر ستیش کے مطابق بعض مریضوں کی حالت اتنی سنگین ہے کہ ان میں سے کچھ کو کو بیس بیس ڈرپ تک بھی لگ رہی ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اعظم کا کہنا تھا کہ کسی بھی مریض کو آٹھ سے کم ڈرپ نہیں لگ رہی ہیں

’پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے‘

ڈاکٹر اعظم بگٹی نے بتایا کہ پیر کوہ کی مجموعی آبادی پینتیس ہزار سے زیادہ ہے اور اس وقت کم و بیش پیرکوہ کی پوری آبادی ہی ہیضے اور پیٹ کی دیگر بیماریوں سے متاثر ہو گئی ہے

ڈاکٹر ستیش نے بتایا کہ متاثرین میں بڑی تعداد بچوں کی ہے

ڈاکٹر اعظم بگٹی کا کہنا تھا کہ ’اصل مسئلہ پانی کا ہے۔ جب تک لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی یقنی نہیں بنائی جائے گی، تو اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا‘

پیرکوہ میں پانی کس حد تک آلودہ ہے؟

پیرکوہ میں ایک گیس فیلڈ ہے جس کو آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل ) چلا رہی ہے۔ پیرکوہ میں لوگوں کو اوجی ڈی سی ایل ہی پانی فراہم کر رہی ہے، جس کا سورس پتھر نالہ کے علاقے میں ہے

ڈاکٹر اعظم نے بتایا کہ ہیضے کی وبا پھوٹنے کے بعد جب اس علاقے کے پانی کا جائزہ لیا گیا تو یہ خطرناک حد تک آلودہ پایا گیا

’اس وقت لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے بیس باﺅزر لگائے گئے ہیں تاہم لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے سے ہی اس مسئلے کا حل ممکن ہو سکے گا‘

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ سمیت تمام متعلقہ محکموں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close