کیا حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہوگئے؟

ویب ڈیسک

اگرچہ رواں ہفتے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے فائربندی میں توسیع کے اعلان کے بعد حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان باظابطہ طور پر مذاکرات کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا، تاہم طالبان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان امن مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک جرگہ بھی افغانستان پہنچ گیا ہے

طالبان ذرائع کے مطابق مذاکرات کا دور دوبارہ شروع ہو چکا ہے، جس میں فریقین کی جانب سے شرائط رکھی گئی ہیں، جن میں ٹی ٹی پی کی جانب سے ان کے کچھ سرکردہ رہنماوں کی رہائی بھی شامل ہے

ذرائع کا کہنا ہے ’مذاکرات کے لیے قبائلی عمائدین پر شامل ایک جرگہ تشکیل دیا گیا تھا اور وہ جرگہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے‘

واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان میں گذشتہ ہفتے محسود قبائل کے ایک گرینڈ جرگے میں حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کروانے کے لیے ایک تینتیس رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی

تاہم انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ محسود جرگہ سرکاری سطح پر نہیں بلکہ ایک قومی جرگہ ہے، اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت کوشش کر رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرے

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چونکہ ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ محسود قبیلے سے ہیں، تو جرگے کے اراکین کو امید ہے کہ وہ قبائلی روایات کے مطابق ٹی ٹی پی کو امن مذاکرات پر راضی کر لیں گے

ان کا کہنا تھا ’ابھی تک طالبان اور حکومت نے باضابطہ مذاکراتی ٹیم کے ناموں کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن دونوں ٹیموں کے مابین ایک نشست ہوئی ہے۔ اس نشست میں کن امور پر بات کی گئی ہے، اس بارے میں ابھی تک فریقین کی جانب سے کچھ نہیں کہا گیا ہے‘

طالبان کے قریب ذرائع مذاکرات کی تصدیق کرتے ہیں لیکن ٹی ٹی پی اور حکومت کی جانب سے ابھی تک باضابطہ طور پر مذاکرات شروع ہونے کی تصدیق نہیں کی گئی ہے

ٹی ٹی پی کو کور کرنے والے ایک صحافی کا بھی کہنا ہے کہ بات چیت شروع ہوئی ہے

انڈپینڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق صحافی رسول داوڑ نے بتایا کہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے، لیکن ابھی تک ان میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے

رسول داوڑ نے بتایا کہ مذاکرات میں ضمانت دینے والے اور مذاکرات کار دونوں افغان طالبان میں سے ہیں، اور دونوں مذاکراتی ٹیموں کے درمیان ایک ملاقات بھی ہوئی ہے

ان کے مطابق ٹی ٹی پی کے حکومت پاکستان سے مطالبات میں سب سے بڑا مطالبہ ان کے کچھ رہنماوں کو رہا کرنا ہے جو ابھی تک رہا نہیں ہوئے ہے

رسول داوڑ نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے اپنی جانب سے فائر بندی کی تصدیق ہے اور یہ بتایا ہے کہ عیدالفطر کے دنوں میں فائر بندی میں مذاکرات کی وجہ سے پانچ دن توسیع کی گئی ہے جو ابھی تک برقرار ہے اور 16 مئی تک ختم ہوجائے گی

رسول داوڑ کا کہنا ہے کہ 16 مئی کے حملوں پر پابندی ختم ہونے یا نہ ہونے کے بعد معلوم ہوگا کہ بات چیت میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں

مذاکرات کی باتیں کب سے کی جارہی ہے؟

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی باتیں تب شروع ہوئیں جب اگست 2021 میں کابل پر افغان طالبان نے کنٹرول حاصل کر کے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔ گذشتہ سال نومبر میں اس وقت کی حکومت نے باقاعدہ طور پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات شروع ہونے کی تصدیق کی تھی

ٹی ٹی پی کے قریبی ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں تقریباً ایک سو طالبان رہنماوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مذاکرات شروع ہونے کے بعد ٹی ٹی پی اور سکیورٹی فوررسز کی جانب سے فائر بندی کا اعلان بھی کیا گیا تھا تاہم تقریباً ایک ماہ بعد وہ مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوگئے تھے

ٹی ٹی پی نے فائربندی ختم کر کے اس وقت میڈیا کو جاری ایک بیان میں بتایا تھا کہ حکومت پہلے کی طرح اب بھی مذاکرات میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی اور یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی فائربندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہے

ان مذاکرات میں افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اب حالیہ مذاکرات میں دوبارہ افغان طالبان کا ذکر سامنے آرہا ہے لیکن افغان طالبان کی جانب سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے

انڈپیندنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو اس حوالے سے پیغام بھیجا گیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا. اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو تبصرے کے لیے پیغام بھیجا لیکن انہوں نے پیغام پڑھنے کے باوجود جواب نہیں دیا

دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو مذاکرات کی چہ مگوئیاں ہورہی ہے تو دوسری طرف ٹی ٹی پی کی جانب سے 9 مئی کو سکیورٹی فوسرز کے نام ایک پیغام میں اپنی سرگرمیوں میں آئندہ دنوں میں مزید تیزی کی تنبیہ دی تھی۔ یہ پیغام ٹی ٹی پی کی جانب سے میڈیا کے نمائندوں کو بھیجا گیا تھا

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے رواں سال کے ابتدائی چار ماہ میں مجموعی طور پر 158 کارروائیاں کی ہیں، جن میں سب سے زیادہ حملے یعنی 54 اپریل میں ہوئے۔ تاہم مئی میں ٹی ٹی پی کی جانب سے کسی بھی حملے یا کارروائی کے بارے میں کوئی بیان میڈیا کو جاری نہیں کیا گیا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close